• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند گھنٹوں میں یہ کیا سے کیا ہو گیا؟ سفاکوں اور بھیڑیوں نے 132پھول جیسے بچے خون میںنہلا دیے اور آرمی پبلک ہائی اسکول پشاور کی پرنسپل ، خاتون استاد اور دوسرے سات افراد کو موت کی نیند سلا دیا۔ یہ تاریخ بھی سولہ دسمبر کی تھی جس کی آمد سے پرانے زخم ہرے ہو جاتے ہیں اور ضمیر کے اندر احساس کا خنجر پیوست ہو جاتا ہے۔ اب ہماری تاریخ میں ایک اور قومی سانحہ در آیا ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ہمارے حال اور ہمارے مستقبل پر ایک اندوہناک حملہ ہوا جس پر پورا ملک بلکہ پورا عالم نوحہ کناں اور سوگوار ہے۔ ننھے ننھے پھول سے بچوں کے جنازے اُٹھ رہے ہیں اور یک شورِ محشر بپا ہے۔ جگہ جگہ غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی جا رہی ہیں اور شہداء کی بلندیٔ درجات کے لئے بے اختیار ہاتھ اُٹھ رہے ہیں۔ سسکیاں ہیں ، آہیں ہیں اور ہر چشم بیدار سے درد کا دریا بہہ رہا ہے۔ یہ ایک ایسا غم ہے جسے ہم برسوں بھلا نہ سکیں گے اور اپنی غفلت شعاریوں کی آگ میں جلتے رہیں گے۔ اِس عظیم سانحے نے بڑے بڑے سوالات اُٹھائے ہیں، بہت گہرے چرکے لگائے ہیں اور ہمیں اپنی عاقبت نااندیشی کی بہت کڑی سزا دی ہے ، لیکن اِس کے ساتھ ساتھ ہمارے اندر کا باشعور انسان بھی جاگ اُٹھا ہے اور پھول سے بچوں کا لہو رنگ لے آیا ہے ، مگر اِس بیداری کی ہمیں بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ ہم اِس قدر مدہوش رہے کہ چھوٹے چھوٹے سانحات ہمیں خوابِ غفلت سے بیدار کر سکے نہ ہمیں اَنا کے حصار سے باہر لا سکے۔ خون بہتا رہا اور ہم اقتدار کی جنگ میں باہمی احترام اور باہمی رواداری کا خون کرتے رہے اور اِس بات سے یکسر غافل رہے کہ ہم اپنی نئی نسل کے لئے کس قسم کی فصل کاشت کر رہے ہیں اور ہمارا اپنا کیا انجام ہونے والا ہے۔ مراعات یافتہ طبقے اپنے پیٹ میں آگ بھرنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے ہیں اور معاشرے میں اپنے مردہ بھائیوں کا گوشت کھانے کا عمل ترقی پذیر ہے۔ غیبت اور کرپشن سے ہماری سوسائٹی کے اندر سڑاند پھیل رہی ہے اور وہ ریاست جو اپنے شہریوں کی جان، مال اور آبرو کے تحفظ کے لئے وجود میں آئی تھی ، آج وہ اِس قدر لاغر اور ناتواں ہو چکی ہے کہ اِس کا حکم چلتا ہے نہ اِس میں اپنے کسی منصوبے پر عمل درآمد کی سکت باقی ہے۔ ایک مدت سے قومی قیادت کی ناچاقیاں اور اداروں کی تن آسانیاں ، بے انصافیاں اور غیر قانونی کارروائیاں ایک تاریک مستقبل کو دعوت دیتی آئی ہیں۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ بے کراں وسائل اور اَن گنت مواقع کے باوجود ہماری حکمرانی کا جہاز ہماری آنکھوں کے سامنے ڈوب رہا ہے اور پاکستان ایک ناکام ریاست کی عملی تصویر بنتا جا رہا ہے۔
سانحۂ پشاور نے ہمارے ناخداؤں کو آنے والی تباہی کا شدید احساس دلایا ہے اور پوری قوم کو ہلا کر اور جھنجوڑ کے رکھ دیا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ پوری دنیا پر ایک لرزہ طاری ہوا ہے اورنو سے سولہ سالہ لڑکوں کے بہیمانہ قتل سے انسانی ضمیر میں درد کی ایک شدید ٹیس اُٹھی ہے اور پورے خطے میں ایک بھونچال سا آ گیا ہے۔ سنگ دلی اور شقاوتِ قلبی کی اِس خوں آشام واردات نے یہ احساس دلایا ہے کہ پوری انسانیت کا مستقبل خطرے میں ہے اور دہشت گردی کے قلع قمع کے لئے مشترکہ پُرعزم کوششیں درکار ہیں۔ اِس اُمڈتے ہوئے احساس کا اندازہ اُن بیانات اور ٹیلی فونک گفتگو سے ہوتا ہے جو عالمی طاقتوں کے سربراہوں نے اِس المناک سانحے پر پاکستان کے صدر ، وزیراعظم اور مشیر خارجہ کو بھیجے ہیں۔ دہشت گردی کے اِس کربناک حادثے کا اِس قدر گہرا اثر ہوا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جو دونوں ملکوں کے تعلقات میں تناؤ اور کشیدگی پیدا کرنے کے ذمے دار ہیں ، اُنہوں نے بھی وزیراعظم پاکستان سے اظہارِ یک جہتی کیا ہے اور لوک سبھا کے علاوہ تمام تعلیمی اداروںمیں دو منٹ کی خاموشی اختیار کی ہے۔ پاکستان کے دوسرے پڑوسی افغانستان کے صدر جناب اشرف غنی نے بھی اِس خون کی ہولی پر شدید رنج کا اظہار کیا ہے اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف جو سانحۂ پشاور کے دوسرے روز ہنگامی طور پر ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کے ہمراہ کابل گئے، اُن سے گفتگو کرتے ہوئے افغانستان کے صدر نے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے اُنہیں اور ایساف کے کمانڈر کو ٹھوس ثبوت فراہم کیے ہیں کہ دہشت گردوں کو مولوی فضل اﷲ کی طرف سے ہدایات دی جا رہی تھیں جو افغانستان کی پناہ لئے ہوئے ہے، اِس لئے اُسے پاکستان کے حوالے کیا جائے۔ اِس جائز مطالبے کے بارے میں فوری طور پر تو کوئی جواب نہیں دیا گیا، مگر حالات جس رُخ پر جا رہے ہیں ، اُن سے یہ اُمید بندھتی ہے کہ امریکہ اور افغانستان کو ایک فیصلہ کن اقدام کرنا پڑے گا۔ اصل اہمیت اِس بات کی ہے کہ پوری عالمی برادری پاکستان کی پشت پر کھڑی ہے اور اِس حمایت کو درست انداز میں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے ، اِس طرح سانحۂ پشاور تاریخ ساز بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
وہ درد کی لہر جو پورے پاکستان کی رگ و پے میں اُتر گئی تھی ، اُس نے قومی قیادت کو سیاسی اختلافات سے اوپر اُٹھنے کا شعور اور حوصلہ عطا کیا اور سیاسی اور عسکری قیادت کے مابین گہری ہم آہنگی نظر آئی۔ وزیراعظم اور آرمی چیف سانحے کے دن پشاور پہنچے اور مشاورت سے ایک لائحہ عمل طے کرنے میں کامیاب رہے۔ جناب وزیراعظم نے تمام پارلیمانی جماعتوں کے نمائندوں کی بلاتاخیر کانفرنس کا اہتمام کیا اور جنرل راحیل شریف افغانستان روانہ ہو گئے۔ قومی قیادت نے پشاور میں غوروخوض کیا اور کامل اتفاقِ رائے سے اہم فیصلے کیے۔ عمران خاں نے کانفرنس میں شرکت کر کے ایک اچھی روایت قائم کی اور اعلان کیا کہ دہشت گردی کے سدِباب میں وہ حکومت کے ساتھ پورا تعاون کریں گے۔ اِس پیش رفت سے وزیراعظم اور عمران خاں کے درمیان براہِ راست ملاقات ہوئی اور انتخابات میں دھاندلی اور عدالتی کمیشن کی تشکیل کے حساس معاملات بھی زیرِ بحث آئے اور یہ اُمید پیدا ہو چلی ہے کہ سبھی معاملات حسن و خوبی سے طے پا جائیں گے۔ جناب اسفند یار ولی خاں نے یہ تجویز دی کہ ہمیں فقط مذمت پر اکتفا کرنے کے بجائے داخلی سلامتی کے تحفظ کے لئے عملی اقدامات کی صورت گری کرنی چاہیے ، چنانچہ آل پاکستان کانفرنس میں یک جہتی کے نہایت روح پرور مناظر کے ساتھ ساتھ بعض عملی اقدامات کا اعلان بھی کیا تھا۔ اِس کانفرنس کی سب سے حوصلہ افزا بات یہ تھی کہ اِس میں اعلان ہوا کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری اپنی جنگ ہے اور بُرے اور اچھے طالبان کے مابین کوئی تفریق نہیں کی جائے گی۔ دوسرا اہم فیصلہ یہ ہوا کہ سزائے موت جو چھ سال سے معطل چلی آ رہی تھی ، اِس پر فوری طور پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ تیسرا اہم فیصلہ یہ کیا گیا کہ تمام پارلیمانی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی ایک ہفتے کے اندر قومی لائحہ عمل کا اعلان کرے گی جسے فوجی ماہرین کی بھی اعانت حاصل ہو گی۔ عمران خاں نے اِس کمیٹی کا خیر مقدم کیا اور یقین دلایا کہ ہم اِس کے فیصلوں کا ساتھ دیں گے۔ اُنہوں نے دھرنے ختم کرنے کا بھی اعلان کیا جس کا قومی حلقوں میں خیر مقدم کیا گیا ہے۔
ہمیں سانحۂ پشاور ساحلِ مراد کے بہت قریب لے آیا ہے۔ اب اربابِ حکومت کا امتحان شروع ہو گیاہے۔ اب اُنہیں فوجی قیادت کے ساتھ مشاورت کا سلسلہ قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں سے اپنے رشتے مستحکم کرنا ہوں گے۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ایک جائنٹ سیکرٹریٹ کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ سیکورٹی کولیپس دہشت گردی کی ہرواردات میں سامنے آرہے ہیں۔ سانحۂ پشاور کے سلسلے میں بھی یہ سوال ذہنوں میں اُٹھ رہا ہے کہ سات دہشت گرد اِس قدر اسلحے کے ساتھ دو چوکیوں سے کس طرح چلے آئے۔
اِسی طرح مرکز اور صوبوں کے درمیان تعاون کو قابلِ عمل شکل دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے خیال میں ترقیاتی منصوبوں اور داخل سلامتی کے تقاضوں میں ایک توازن قائم کرنا ہو گا۔ اِس کے علاوہ دہشت گردی کے نظریاتی پہلو پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ ہمارے علماء اور میڈیا کو اسلام کی ایک حقیقی تصویر پیش کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ پچھلے دنوں اخوت کی تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب سے یہ مژدہ سنا کہ ہمارے ادارے نے سات لاکھ خاندانوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیا ہے جو سو فی صد کے قریب قرضِ حسنہ واپس کر دیتے ہیں۔ یہ خاندان غربت میں کمی کا باعث بن رہے ہیں اور دہشت گردی کے ایک سبب پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ ہماری بہت بڑی طاقت ہیں اور اچھے دنوں کی خبر دے رہے ہیں۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ سانحۂ پشاور نے ہمیں آنسو بھی دیے ہیں اور ایک نئی طاقت بھی عطا کی ہے۔ ہمیں اِس نئی طاقت کو شاندار مواقع میں تبدیل کرنا ہو گا۔
تازہ ترین