16دسمبر کو پشاور کے اسکول میں ہونے والے طالبان کے حملے کو پاکستان کا 9/11 اور ملکی تاریخ میں دہشت گردی کی سب سے بڑی بے رحمانہ اور سفاکانہ کارروائی قرار دیا جارہا ہے۔سانحہ پشاور بلاشبہ اپنی سفاکی، ہولناکی اور معصوم بچوں کے ساتھ ہونے والی بربریت کا ایک ناقابل فراموش واقعہ ہے جس نے پوری قوم کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے اور کوئی آنکھ ایسی نہیں جو اشکبار نہ ہو۔ دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول کا انتخاب بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ اس لئے بھی کیا تھا کہ اسکول میں آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ میں شریک آرمی کےگیارہویں کور کے افسران کے بچے زیر تعلیم تھے۔سانحہ میں 132 معصوم بچوں سمیت 149 افراد کی ہلاکت نے شدت پسندی کے خلاف جنگ کے حوالے سے عوام کی سوچ کو یکسر تبدیل کرکے انہیں متحد کردیا ہے جبکہ عوام کے دبائو کے باعث تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں بھی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر دہشت گردی کے خلاف متفق ہوچکی ہیں۔سانحہ کے دوسرے روز وزیراعظم میاں نواز شریف نے گورنر ہائوس پشاور میں آل پارٹیز کانفرنس طلب کی جس میں ایسی جماعتوں کے قائدین بھی شریک تھے جو اپنے دل میں طالبان کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔
مشکل کی اس گھڑی میں قوم کی نظریں اپنے قائدین پر مرکوز تھیں جو معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے دہشت گردوں کے خلاف سخت ترین اقدامات کی امیدیں لگائے بیٹھی تھی مگر پھر زخمی قوم کی امیدیں اس وقت دم توڑ گئیں جب وزیراعظم نے سانحہ پشاور پر پارلیمانی کمیٹی بنانے کا اعلان کیا اور اسے دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے لائحہ عمل تیار کرنے کی ہدایت کی جس سے قوم کو شدید مایوسی ہوئی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اجلاس میں شریک تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کی مشاورت سے دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے فوری اور سخت اقدامات کئے جاتے جن میں نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی (NACTA) کو فنڈز کی فراہمی، سانحہ میں ملوث تحریک طالبان کے ملا فضل اللہ اور دیگر کمانڈروں کی افغانستان سے حوالگی اور پاکستان میں 25 لاکھ سے زائد افغان پناہ گزینوں کی بلاتاخیر افغانستان واپسی جیسے اقدامات شامل تھے مگر کمیٹی بناکر قوم کی امیدوں پر پانی پھیر دیا گیا کیونکہ قوم یہ بات اچھی طرح سمجھتی ہے کہ جب کسی معاملے کو دبانا مقصود ہوتا ہے تو اس پر کمیٹی بنادی جاتی ہے۔ وزیراعظم، سیاسی لیڈروں کے جمعہ بازار میں گھرے جس وقت کمیٹی بنانے کا اعلان کرتے ہوئے سیاسی لیڈروں کے ساتھ ہنسی مذاق میں مشغول تھے، عین اسی وقت قوم کی نظریں سیاسی قیادت سے ہٹ کر آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورہ افغانستان پر مرکوز تھیں جو معصوم بچوں کے قتل عام میں ملوث دہشت گردوں کی حوالگی اور ان کے خلاف ایکشن کے لئے کابل میں افغان قیادت کو سخت پیغام دے رہے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب قوم نے اپنی تمام تر امیدیں سیاسی قیادت کے بجائے فوجی قیادت سے وابستہ کرلی تھیں۔
یہ حقیقت بھی سب پر عیاں ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے سزائے موت پر عائد پابندی ختم کرنے کا فیصلہ بھی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی تجویز پر کیا ہے۔ واضح ہو کہ سزائے موت پر گزشتہ 6 سالوں سے پابندی عائد تھی جس کی بنیادی وجہ دہشت گردوں کی جانب سے حکومت کو ملنے والی دھمکیاں تھیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں سزائے موت معطل ہونے سے دہشت گردی میں غیر معمولی اضافہ ہوا اورسزائوں میں عملدرآمد نہ ہونے سے تخریبی ذہنیت رکھنے والے شرپسندوں کو دہشت گرد گروپوں میں شمولیت کی ترغیب ملی۔ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ آرمی چیف نے وزیراعظم سے ملاقات میں ان کو یہ باور کرایا تھا کہ سیکورٹی فورسز اپنی جان خطرے میں ڈال کر دہشت گردوں کو پکڑتی ہیں مگر دہشت گرد یا تو عدالتوں کے ذریعے رہا کردیئے جاتے ہیںیا پھرحکومت عدالتی سزائوں پرعملدرآمدکرنے سے قاصر رہتی ہے جس سے سیکورٹی فورسز کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ آرمی چیف کے مذکورہ موقف کے بعد وزیراعظم نے سزائے موت پر عائد پابندی ختم کرنے فیصلہ کیا جس پر عملدرآمد کرتے ہوئے کچھ دہشت گردوں کو پھانسی کی سزائیں دی گئیں اور دہشت گردوں کے حوصلے پست ہوئے مگر حال ہی میں لاہور اور سندھ ہائیکورٹ کا پھانسیوں پر عملدرآمد روکنے کا فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے۔
طالبان کے بارے میں گزشتہ ایک دہائی سے ہماری سیاسی و ماضی کی فوجی قیادت تذبذب کا شکار رہی اور اچھے اور برے طالبان کی تفریق میں لگی رہی جس کے نتیجے میں 50 ہزار سے زائد بے گناہ شہری اور ہزاروں سیکورٹی اہلکار جن میں آرمی کے سینئر ترین افسران بھی شامل تھے، دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ اس تمام عرصے میں طالبان ہم پر حاوی رہے جبکہ ہم نے صرف دفاعی حکمت عملی اختیار کئے رکھی۔ اس تناظر میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے کردار پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ کیونکہ اگر وہ اپنے دور میں طالبان کے خلاف موثر اور سخت حکمت عملی اپناتے تو آج طالبان اتنے مضبوط نہ ہوتے۔ جنرل کیانی کے دور میں جن دہشت گردوں کو فوجی افسران و اہلکاروں کے قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی، اس پر بھی عملدرآمد نہ ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ کئی عسکری حلقے ان سے نالاں نظر آتے ہیں جن کا موقف ہے کہ جنرل کیانی نے اپنی مدت ملازمت میں 3سال کی توسیع لے کر اور طالبان کے خلاف دفاعی حکمت عملی اختیار کرکے ملک اور مسلح افواج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تاہم طالبان کے خلاف موجودہ آپریشن کا تمام تر سہرا آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے سر جاتا ہے جنہوں نے کراچی ایئر پورٹ پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد دفاعی حکمت عملی اختیار کرنے کے بجائے دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کو ترجیح دی جس میں بعد میں حکومت کو بھی بادل نخواستہ شامل ہونا پڑا۔ آرمی چیف نے سانحہ پشاور کے بعد حکومت کو دہشت گردوں کو پھانسی دینے پر قائل کیا جس سے عوام کے حوصلے بلند اور دہشت گردوں کے حوصلے پست ہوئے۔ اسی طرح جب یہ ثابت ہوا کہ سانحہ پشاور میں ملوث دہشت گردوں کے تانے بانے افغانستان سے ملے ہوئے تھے اور اُنہیں وہیں سے ہدایات موصول ہورہی تھیں تو جنرل راحیل شریف بلاتاخیر افغانستان گئے جہاں انہوں نے افغان صدر اشرف غنی اور ایساف کمانڈروں کو تمام ثبوت فراہم کرتے ہوئے مجرموں کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ آرمی چیف کے انہی سخت موقف کے باعث افغان سیکورٹی فورسز نے گزشتہ روز افغان صوبے کنڑ میں تحریک طالبان کے سربراہ فضل اللہ کی موجودگی کی اطلاع پر آپریشن کیا جس کے نتیجے میں 28طالبان دہشت گرد مارے گئے۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال کا موازنہ سری لنکا سے کیا جاسکتا ہے جہاں تقریباً ڈھائی عشروں تک تامل ٹائیگرز کے دہشت گرد سری لنکا میں دہشت گردی پھیلاتے رہے مگر 2008-09ء میں جب سری لنکا کے صدر مہندا راجہ پکسے اور فوجی قیادت نے ان دہشت گردوں سے نجات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تو پھر دنیا نے دیکھا کہ دہشت گردوں کو چھپنے کی جگہ نہیں ملی اور سری لنکا نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تامل ٹائیگرز کی دہشت گردی سے نجات حاصل کرلی۔ شاید بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف سری لنکا کی جنگ میں سری لنکا کی فوج کو پاکستانی افواج کی مدد حاصل تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج جب سری لنکا کو دہشت گردوں سے آزاد کراسکتی ہے تو اپنے وطن کو دہشت گردی سے نجات کیوں نہیں دلاسکتی۔ یقینا پاکستان کی مسلح افواج دہشت گردوں سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے اور مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ پاک فوج ہی ملک کو دہشت گردوں سے پاک کرے گی۔ مجھے سابقہ اور موجودہ دونوں آرمی چیف سے ملاقات کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ہونے والی ملاقات نے مجھ پر کوئی تاثر نہیں چھوڑا جبکہ موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ہونے والی حالیہ ملاقات نے مجھ پر انتہائی مثبت تاثر چھوڑا اور میں جنرل راحیل شریف کی شخصیت سے بے پناہ متاثر ہوا، مجھے یہ یقین ہے کہ جنرل راحیل شریف ہی پاکستان کو دہشت گردی سے نجات دلائیں گے۔ آج مجھ سمیت پوری قوم کی نظریں فوجی قیادت پر مرکوز ہیں کیونکہ انہیں امید ہے کہ جنرل راحیل شریف ہی مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف سے قبل 14 آرمی چیف اس عہدے پر فائز ہوچکے ہیں جو اپنی مدت پوری کرکے پس منظر میں چلے گئے لیکن اگر موجودہ آرمی چیف، پاکستان کے عوام کو دہشت گردوں سے نجات دلاکر ان کے زخموں پر مرہم رکھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو عوام اُنہیں قائداعظم کے بعد وہ مقام دے گی جو آج تک کسی آرمی چیف کو نہ ملا ہوگا کیونکہ قوم نے قائداعظم کے پاکستان کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے جنرل راحیل شریف سے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔