محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کو آج سات برس ہو چکے ہیں۔ ان کے قاتلوں کا معمہ بدستور حل طلب ہے۔عوام بے چین اور کارکن مضطرب اور پریشان ہیں کہ اس سلسلہ میں کوئی ٹھوس پیش ر فت نہیں ہوئی ہے اور ان کی شہادت کا صدمہ ہنوز تازہ ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سارا پاکستان آج بھی ماتم کناں ہے۔یہ سات سال بجائے خود ایک قیامت سے کم نہیں۔ اس کے باوجود بی بی کا نقش ہر دل پر جاگزیں ہے۔ اکثر یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ یہیں ہمارے آس پاس ہیں۔ ان کی یاد ہمارے خیالوں اور دلوں میں دھڑک رہی ہے۔ پاکستان کا یہ روشن چہرہ اسی طرح تابناک ہے جس طرح 27دسمبر 2007ء کی شام ان کی ولولہ انگیز اور جرأت مندانہ تقریر کے وقت منور تھا۔ بی بی کی شہادت سے پاکستان ایک بین الاقوامی پایہ کی رہنما سے محروم ہو گیا۔ ان کی شہادت سے سب سے زیادہ نقصان ملک و قوم کا ہوا اور فائدہ ملک کے دشمنوں کا۔وہ وفاق کی علامت اور عوام کی امنگوں کی مظہر تھیں۔ اگر بی بی آج ہوتیں تو ہماری معیشت بہتر ہوتی، دہشت گرد دندناتے نہ پھرتے، اس لئے ان کی شہادت سے بحیثیت قوم ہمارا بہت بڑا نقصان ہوا۔ وہ واحد رہنما تھیں جو پاکستان کا ایجنڈا لے کر ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال سکتی تھیں۔ وہ دنیا میں جانی پہچانی، قابل احترام شخصیت تھیں۔ ان کی شہادت سے اقوام عالم میں پاکستان کی توانا آواز بھی شہید ہو گئی۔بی بی کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو یہ تھا کہ ناصرف پاکستان بلکہ دنیا سے پسماندگی اور غربت و افلاس کا خاتمہ ان کا مشن تھا۔ پاکستان کو وہ بطور خاص امن و ترقی کا گہوارا بنانا چاہتی تھیں۔ وہ مفاہمت پر یقین رکھتی تھیں اور انسانیت کی اعلیٰ اقدار کے مطابق تمام لوگوں کو قریب تر لانا چاہتی تھیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید جب جنوری 1984ء میں لندن پہنچیں تو اس وقت سے لے کر میں ان کا آخر دم تک رفیق سفر رہا ہوں۔ لندن میں میرے گھر میں بی بی شہید کی تاریخ ساز تصویریں آویزاں ہیں۔ یہ تصویریں دیکھ کر خیال آتا ہے کہ بی بی مجھ سے ہم کلام ہیں۔ ہر ایک تصویر مجھے ان کے ساتھ جدوجہد کے ایام اور حکومت کے دنوں کی یاد دلاتی ہے۔ ہر تصویر پر بی بی نے مختلف مواقعوں پر اپنے آٹوگراف دیئے ہیں۔جون 1990ء میں واپس نہ آنے کا کہہ کر میں لندن چلا گیا۔ وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے بختاور کے ساتھ آٹوگراف کے ساتھ یہ تصویر مجھے بھیجی۔
ڈیئربیش۔ بختاور اور میں جمہوریت کی جدوجہد میں آپ کی خدمات کو فراموش نہیں کر سکتیں۔ لہٰذا آپ جلد واپس لوٹ آئیں۔ بے نظیر بھٹو جون 1990ء۔
یہ تصویر مشہو رعالم میگزین ’’ہیلو‘‘ میں شائع ہوئی تھی۔ اور ہالی ووڈ کے معروف اداکار Yul Bryner کی بیٹی وکٹوریہ نے لاس اینجلس سے آ کر بلاول ہائوس میں لی تھی۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے دوسرے دورِ حکومت میں خوبصورت آفیشل پورٹریٹ کا تحفہ ان آٹوگراف کے ساتھ دیا۔
ڈیئر بشیر ریاض!آپ کی برس ہا برس کی حمایت اور حوصلہ افزائی میری قوت کا موجب ہے۔
نیک خواہشات کے ساتھ ۔بے نظیر بھٹو
دسمبر 1993میں بی بی شہید نے وزیراعظم ہائوس میں میری سالگرہ کی تقریب کا اہتمام کیا اس موقع پر ایک تصویر پر انہوں نے یہ لکھا۔
بشیر ریاض کے نام! بُرے دنوں میں ایک اچھے دوست اورنسلوں کا دوست!
2001اور 2003ء میں دہلی دورہ کے دوران بی بی نے دونوں مرتبہ اجمیر شریف میں خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پر حاضری دی۔ ان مواقع کی دونوں تصویروں پر بی بی نے آٹوگراف کئے اور مجھے تحفہ کے طور پر دیں۔
2001ء کی تصویر پر بی بی نے لکھا۔
بشیر کے نام! پی پی پی اور میں خوش قسمت ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں۔ آزادی اور انسانی وقار کے لئے آپ کی خدمات کا شکریہ۔ بے نظیر بھٹو
حضرت معین چشتی کے مزار پر سرخ دوپٹہ اوڑھے بی بی کی بہت خوبصورت تصویر ہے اس تصویر پر انہوں نے یہ الفاظ تحریر کئے ہیں۔
بشیر ریاض کے نام! اجمیر شریف کے شاندار روحانی سفر کا انتظام کرنے کے لئے شکریہ۔ ایک مزید وضاحت کہ آپ کیوں ایک غیرمعمولی شخص ہیں۔ بے نظیر بھٹو
اس موقع پر انہوں نے اپنے شوہر آصف صاحب کی رہائی کے لئے دعا کی تھی۔ دراصل ہندوستان ٹائمز کی سربراہ مسز شوبھنا بھارتی نے اجمیر شریف کے لئے بہت اچھا انتظام کیا تھا اور اپنی گاڑی جے پور پیشگی بھیج دی تھی تاکہ اجمیر شریف کا سفر آرام دہ ہو!بی بی ہندوستان ٹائمز کے دہلی سیمینار میں مہمانِ خصوصی تھیں اور انہیں مکمل پروٹوکول دیا گیا تھا۔بی بی 10دسمبر2007ء کو دبئی میں تھیں اور انہوں نے ای میل کرکے مجھے سالگرہ کا یہ پیغام بھیجا۔
’’ڈیئر بیش! کئی بار ایک بہت ہی خاص شخص کو مبارکباد دینے کے لئے کال کی لیکن آپ کا فون بند تھا۔ میری طرف سے آپ کو سالگرہ کی بہت بہت مبارک باد۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہزاروں خوشیاں اور مسرتیں عطا کرے! کیونکہ آپ اپنے حلقہ احباب میں شامل لوگوں کی زندگیوں کو محبت، مدد، خلوص اور والہانہ وابستگی کے اعلیٰ ترین جذبہ سے سرشار کرتے ہیں۔ میں سوچتی ہوں کہ اگر آپ تیس سال تک ہر قدم پر ساتھ نہ ہوتے اور درپیش چیلنجوں اور دکھوں کا بوجھ نہ بانٹتے تو زندگی مزید کتنی مشکل ہوتی۔ آپ میرے والد، والدہ بھائیوں اور خود میری زندگی کا جزو رہے ہیں۔ آپ نے ایک ڈوری کی طرح عشروں تک ہمیں مربوط رکھا اور ثابت کیا کہ دوستوں کے بغیر زندگی کوئی زندگی نہیں ہوتی۔ اس کے لئے میں آپ کی ممنون ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو سب کے شر سے محفوظ رکھے! ’’بی بی‘‘
18اکتوبر2007ء کو پاکستان واپسی سے دو دن قبل 16اکتوبر کو بی بی نے مجھے یہ ای میل بھیجی۔
’’بیش! میں آپ کو مس کروں گی۔ 1977ء میں میں جب آپ سے ملی تھی اس وقت سے اب تک آپ نے پارٹی اور میرے لئے جو بہت کچھ کیا اس کے لئے آپ کی شکرگزار ہوں۔ مجھے معاف کیجئے گا اگر میں نے آپ کو کوئی ٹھیس پہنچائی ہو۔ میں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ میں نے ہمیشہ آپ کی حمایت اور مدد کی قدرومنزلت کی ہے۔ خدا آپ کا حامی و ناصر ہو!بی بی کا یہ مختصر پیغام پڑھ کر میرا دل بھر آیا اور پریشان خیالات میں کھو گیا۔ پھر وہی ہوا جس کا خوف اور ڈر تھا۔ بی بی شہید نے جلاوطنی کے دوران بہت سی مشکلات کا سامنا کیا۔ کئی مصائب برداشت کئے۔ لیکن ان کی ہمت اور عزم متزلزل نہ ہوا۔ اس تمام عرصہ میں میں ان کے ساتھ تھا اور طویل رفاقت کے دنوں میں تمام حالات و واقعات کا مشاہدہ کیا جو بی بی کو درپیش تھے۔
بی بی کہتی تھیں کہ مجھے صرف آپ کا لندن فون نمبر زبانی یاد ہے۔ وہ لندن پہنچتے ہی مجھے فون کرتی تھیں۔ اس سال میں لندن میں تھا تو مجھے اپنے فون سے وابستہ یادیں دامنگیر رہیں۔ میں سوچتا تھا کہ فون کی گھنٹی بجے اور دوسری طرف سے بی بی کی مانوس آواز سنوں۔لیکن افسوس یہ آواز ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئی ہے۔میں جانتا ہوں اب فون کی گھنٹی کبھی نہیں بجے گی۔ ہمیشہ بی بی کی یادگار تصاویر مجھ سے ہم کلام رہیں گی۔ ان کی بصیرت اور فکر کی روشنی میری رہنمائی کرے گی اور یادوں کا یہ سفر اسی طرح جاری رہے گا۔