ہم خواب بنتے رہے ۔
آنے والے برس کے لئے پورا سال خواب بنتے رہے۔
سال کی آخری رات تھی۔ ہم نے خواب اکٹھے کئے۔ سرخ، ارغوانی، دھانی، سرمئی، قرمزئی رنگ کے خواب۔ پھرانہیں ایک تھیلے میں ڈالا۔ گارےاور بھوسے سے بنی ہوئی کچی دیوار پر کیل گاڑی، تھیلا کیل سے لٹکایا اور سو گئے۔
نئے سال کی پہلی صبح تھی۔ اٹھ کر سب سے پہلے تھیلے میں جھانکا۔ خواب چوری ہوچکے تھے۔ سرخ، ارغوانی، دھانی، سرمئی، قرمزئی رنگ کے خوابوں میں سے ایک بھی وہاں نہ تھا۔ بس خاکستری رنگ کاایک خلا تھا جو تھیلے کی تہہ میں ہمیں دیکھ رہا تھا!
کوئی نیا سال ہمارے خواب نہ بچا پایا۔
یک فالِ خوب راست نہ شد بر زبانِ ما
شوئی چغد ثابت و یمنِ ہما غلط
(ہماری زبان سے نکلی ہوئی ایک فال بھی درست ثابت نہ ہوئی۔ الو کی نحوست ثابت ہوگئی اور ہما کا مبارک ہونا غلط ٹھہرا)
کوئی نیا سال ہمارے خوابوں کو بارآور نہ کرسکا۔ ہم جیسے تھے، ویسے ہی رہے۔ وعدوں کی کسی فصل میں کھیتی نہ اُگی، کسی تخم نے کوئی پودا نہ جنا، کوئی بادل ٹوٹ کر نہ برسا۔ جب بھی نیا سال آیا ہماری حسرتیں، ہمارے ارمان پیاسے ہی رہے۔ ہم نے کبھی زمین کو دیکھا، کبھی اوپر آسمان کو، روئیدگی نظر آئی نہ گھٹا۔ بس ایک ہی پیش منظر تھا افق سے افق تک چھائی ہوئی یاس اور خالی پن۔ ہماری لغت میں توشفق کا لفظ بھی نہیں تھا!
کوئی نیا سال ہماری زندگیوں میں تغیر نہ لاسکا۔ وہی کچی گلیاں کوڑے سے بھری ہوئی۔ گلیوں کے دونوں طرف وہی بدبودار نالیاں!کمیٹی والے نل کے پاس بالٹیوں،گھڑوں، پتیلوں، صراحیوں کی وہی قطاریں! ایک ایک اور دو دو کمروں کے وہی مکان، وہی ایک ایک قمقمہ، لوڈشیڈنگ کی تاریکی میں ڈوبےوہی گھر،گیس کے کنکشن کے انتظار میں لکڑیوں کو پھونکیں مارتی وہی آنسو بہاتی آنکھیں!
کوئی نیا سال ہمارے بچوںکو اسکول چھوڑنے کے لئے کار اور دوپہر کے کھانے کے لئے لنچ نہ دے سکا۔ وہی کندھوں پراٹھائے جانے والے بستے، دو دو میل پیدل چلنے والے اور سوزوکیوں کے تھڑوں پر لٹکنے والے اور بسوں کی چھتوں پر بیٹھنے والے بچے، وہی چھتوں اور دیواروں کو ترسنے والے اسکول، بیٹھنے کے لئے زمین کاوہی فرش اور گھروں سے لائے گئے پلاسٹک کے پارچے اور بوریاں! وہی پانچ پانچ کلاسوں کو بیک وقت پڑھانے والے ماسٹر جو ساتھ ساتھ دکانیں بھی چلاتے ہیں اور ڈاکخانے بھی! وہی آٹھ اور دس جماعتیں پاس کرکےگھروں میں بیٹھ جانے والی ذہین اور لائق بچیاں، جن کے لئے کوئی دانش اسکول ہے نہ کالج، نہ یونیورسٹی!کوئی نیا سال ہمارے تعلیم یافتہ بچوں کےلئے میرٹ بھرا سسٹم نہ لاسکا۔ ڈگریوں کی فوٹو کاپیاں کرانےاور عرضیاں لکھتے وہی معصوم ہاتھ، عوامی نمائندوں کے پیچھے بھاگتے، سفارشوں کےمتلاشی وہی بے بس بے کس باپ! دفتروں اورافسروں کے سامنے وہی طویل قطاریں، چٹوں سے بھری ہوئی وزیروں کی وہی جیبیں اور وہی درازیں! کامیاب امیدواروں کی وہی بیکار فہرستیں اور تقرری پانے والے خوش قسمت سفارشیوں کی وہی ’’اصلی‘‘لسٹیں! ڈاکو بن جانے والے وہی بیروزگار، بے یارو مددگار نوجوان! مقابلے کا امتحان دیئے بغیر سفارت خانوں میں افسرلگ جانےوالی سیاستدانوں کی وہی بیٹیاں اور غیرملکی سفارتخانوں کے سامنے پاسپورٹ اٹھائےمائوں کےوہی تعلیم یافتہ ہیرے اور موتی! بوڑھے ماں باپ کے جنازوں پرپہنچنے کے لئے لندن، ٹورنٹو اورسڈنی کے ایئرپورٹوں کی طرف بھاگتے وہی تارکین وطن جو مکروہ سیاستدانوں اور خوشامدی افسرشاہی سے تنگ آکر ملک چھوڑگئے اور جن کے بھیجےہوئے زرِمبادلہ سے حکمرانوں کا ہر نیا ٹولہ عیاشی کرتا ہے۔
کوئی نیا سال ہمارے لئے اصل جمہوریت نہ لا سکا۔ ہم ورکر تھے، ورکر ہی رہے۔ ہم جلسہ گاہوں میں دریاں بچھاتے،ا سٹیج بناتے،جھنڈیاں لگاتے، بینر ٹانگتے بوڑھے ہوگئے۔ پارٹی کی قیادت جن خانوادوں کے پاس تھی، انہی کے پاس رہی۔ کوئی کارکن، کوئی ورکر، کوئی سیاستدان بلاول زرداری ، حمزہ شہباز او رمونس الٰہی کے برابرکیا، پاسنگ بھی نہ ہوسکا! ہماری قسمت میں پارٹی کے اندر ہونے والاکوئی الیکشن نہ تھا۔ ہم ٹکٹوں کے لئے خالی جیب اور خالی ہاتھ محلات کے باہر کھڑے رہے اور جن کے کھیسے اور زنبیلیں بھری ہوئی تھیں، وہ قیس کے محل سے لیلیٰ کو اٹھا لے جاتے رہے! کوئی نیا سال ہمیں اس استحصال سے رہائی نہ دلوا سکا جو مذہب کے نام لیوا دین کے نام پر کر رہے ہیں۔ہم مجمع بناتے رہے، نعرے لگاتے رہے، چندے دیتے رہے، خدمتیں کرتے رہے۔ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے ہمارے دیکھتے دیکھتے ان سیاستدانوں کےکندھوں سے کندھا ملا کر کھڑے ہوگئے جن کی واحد شناخت دولت اورثروت ہے۔ عمامےاور عبائیں محلات میں داخل ہوگئیں۔ امریکی حکومت کی دعوت پر ہر سال بحر اوقیانوس پار ہونے لگا۔ مبلغ فرسٹ کلاس کے ہوائی جہازوں میں سوار آئے دن لندن اور نیویارک اترتے رہے۔ ہم جہاں تھے، وہیں رہے۔ کوئی نیا سال ہمیں ہمارے مذہب کے وہ اصول نہ سکھا سکا جن پر چل کر اہل مغرب دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ ہر نیا سال ہمیں صرف نعروں، چندوں، نذرانوں اور حفاظتی دستوں کے لئے استعمال ہوتا دیکھتا رہا۔ ہمارے بچوں کے حصے میں مدرسوں کے ٹھنڈےفرش آئے اور روکھی سوکھی روٹیاں یا ختم کے کھانے! صوفے، قالین، ایئرکنڈیشنر، گاڑیاں،مرغن کھانے، گرم رکھنے والے اونی چغے، حجاز سے آئے ہوئے زرد ریشمی رومال، سب کچھ اوپر اوپر ہی رہا،مدرسوں کی نچلی سطح پر کچھ بھی نہ آیا۔ ہمارے علما، مدارس سے ملنےوالی مضحکہ خیز حد تک کم تنخواہوں میں گھر کے اخراجات پورے نہ کرسکے تورکشہ چلانے پر مجبور ہوگئے۔ کوئی نیا سال انہیں مالکان سے اضافہ، پنشن یا علاج معالجہ نہ دلوا سکا۔
ڈیڑ ھ سو سال ہونے کو ہیں۔سرسید احمد خان نے ’’مسافرانِ لندن‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی۔ اپنے ہم وطنوں کے حال زار پر روئے، ماتم کیا ، گالیاں کھائیں، سینے پر فتووں کے تیر برداشت کئے، دُہائی دی کہ اٹھو، اپنی حالت بدلو۔ ڈیڑھ سو نئے سال آئے۔ ہم آج بھی وہیں ہیں۔ ہماری گلیاں آج بھی کوڑے دان ہیں۔ ہمارے قصبے آج بھی گرد کی تاریک چادروں میں لپٹے ہوئے ہیں۔ سرسید حیران ہوئے کہ لندن کی سڑک پر گھوڑا لیدکرتا ہے۔ ایک منٹ بعد وہ لید نظر نہیں آتی۔ بحری جہاز میں غسل کرنے کا شاور اور بیت الخلا میںگندگی کو بہالے جانے والی ’’پلیٹ‘‘ دیکھ کر حیران ہوتے ہیں۔ ڈیڑھ سو بار اس کے بعد یکم جنوری آیا۔ ہماری سڑکیں، گلیاں آج بھی گوبر اور لید سے بھری ہیں۔ ہماری آبادی کی اکثریت کو بہالے جانے والی ’’پلیٹ‘‘ تو کجا، بیت الخلا کی چاردیواری ہی نصیب نہیں!ہم جیسے تھے،ویسے ہی رہے۔ ہر نیا سال، فٹ پاتھوں پر بیٹھے ہوئے دانتوں کے ڈاکٹروں کے ہاتھوں ہیپاٹائٹس پھیلتے دیکھتا ہے اور چپ چاپ پرانا ہوکر ایک اور نئے سال کیلئے راستہ چھوڑ دیتا ہے۔ ڈیڑھ سو برس ہونے کو ہے، حالیؔ نے مسدس لکھ کر ہمارے آگےہاتھ جوڑے، خدا کے واسطے دیئے، ہمارے ہاتھوں پر آنسو گرائے کہ اٹھو، ہوش کے ناخن لو، روایات اوررواج کے قید خانے سے نکلو۔ وہ علوم حاصل کرو جو آگے لے جاتے ہیں۔ صدیوں پرانےنصاب تبدیل کرو۔ ترقی یافتہ اقوام کی بری نہیں اچھی باتوں کی تقلید کرو۔ ڈیڑھ سو بار نیا سال آیا۔ حالیؔ کو رخصت ہوئے سوبرس ہوگئے۔ ہم وہیں کھڑے ہیں۔ ہمارا نصاب بھی وہی ہے، ہمارے رواج بھی وہی ہیں۔ ناخواندگی اورغربت آج بھی ہمیں سرداروں، چوہدریوں اور پیروں کے سامنے دست بستہ کھڑا کئے ہوئے ہے۔ کیا کوئی نیا سال ہمارے خوابوں کی تعبیر لاسکےگا؟ کیاکوئی یکم جنوری ایسا بھی آئےگا جب ہم یہ کہیں گے
مرا ہاتھ دیکھ برہمنا! مرا یار مجھ سے ملے گا کب
ترے منہ سے نکلے خدا کرے اسی سال میں اسی ماہ میں