• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آزادی کشمیر کے لئے اس بار جوان لہو سے جو چراغ روشن ہوئے ان کے لہو نے بڑوں اور بوڑھوں کو بھی تڑپا دیا اور ان کے خون کو گرما دیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کی جواں لہر جولائی میں نوجوان مظفر وانی کی شہادت سے شروع ہوئی جسے 11سالہ بچے ناصر شفیع کی بھارتی درندوں کے ہاتھوں بدترین تشدد کے ساتھ ہونے والی ہلاکت نے مزید جلا بخشی ہے۔ گزشتہ 74روز سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے۔ دنیا کے کسی خطے میں اتنی فوج یکجا نہیں جتنی وادی کشمیر میں ہے۔ 7لاکھ بھارتی فوجی بدترین ریاستی دہشت گردی سے آزادی کی اس ہر آن بڑھتی ہوئی لہر کو دبانے کے لئے110افراد کو شہید کر چکے ہیں۔ پیلٹ گنوں سے 600سے اوپر نوجوانوں کو اندھا کر چکے ہیں۔ لوگوں کو ان کے گھروں سے اٹھا کر تعزیب خانوں میںانہیں بدترین ٹارچر کا شکار بنا چکے ہیں مگر آزادی کے متوالوں کا کہنا ہے کہ ہم منزل پر پہنچے بغیر رکنے والے نہیں۔
بھارت ہماری بات نہیں سنتا تو نہ سنے مگر تحریک آزادی ہند میں پیش پیش دوبار کانگریس کا صدر رہنے والے قائد سبھاش چندر بوسی کی بات توسنے۔ جس نے کہا تھا ’’تم مجھےخون دو میں تمہیں آزادی دوں گا‘‘ تنگ نظر، تنگ دل، بلکہ بزدل نریندر سنگھ مودی تحریک آزادی کشمیر کو دبانے کے لئے مسلسل دو چیزوں کا سہارا لے رہا ہے۔ ایک ظلم اور دوسرا جھوٹ، فریب اور دھوکہ، آزادی کشمیر کے لئے کشمیریوں کی پرجوش جدوجہد سے بدحواس ہو کر بھارت نے کشمیری ضلع بارہ مولا میں اوڑی کے مقام پر ایک بھارتی فوجی چھائونی پر حملے کا ڈرامہ رچایا ہے۔
بھارت کا خیال ہے کہ وہ جھوٹ کا ایک ایسا طومار باندھے گا کہ دنیا اس کی بات کو سچ سمجھے گی۔ بھارت کو شاید یہ حقیقت معلوم نہیں کہ اب میڈیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے جس میں مجرم فرد ہو یا بھارت جیسی کوئی ریاست اس کا جرم چھپ نہیں سکتا۔ اس موقع پر امریکہ کا یہ بیان کہ پاکستان اور بھارت دو طرفہ طریقے سے مسئلہ کشمیر کا حل نکالیں اور اس کے لئے بات چیت کریں۔ پرفریب ڈپلو میسی کے علاوہ کچھ نہیں۔ ایک طرف امریکہ، بھارت کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے اور دوسری طرف پاکستان کو اپنا نیوکلیئرپروگرام محدود کرنے کی نصیحت کر رہا ہے۔ایسی تجاویز امریکی دوغلی پالیسی کی معراج ہیں۔ پاکستان کئی بار امریکہ سے اپیل کر چکا ہے کہ وہ بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کرے اور پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کو منصفانہ طریقے سے حل کروائے مگر امریکہ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔
بعض تجزیہ کار حیرت سے پوچھتے ہیں کہ امریکہ کو بھارت کی بدترین ریاستی دہشت گردی اور انسانی حقوق کی پامالی کیوں نہیں دکھائی دیتی۔ اس لئے نہیں دکھائی دیتی کہ امریکہ نے آنکھوں پر مفادات کی پٹی باندھ رکھی ہے۔ انسانی حقوق کی معمولی سی خلاف ورزی اگر چین کے کسی دیہات میں ہو یا سعودی عرب کے کسی صحرا میں ہو وہ امریکہ کو نظر آ جاتی ہے مگر بھارت جس وحشیانہ و بہیمانہ طریقے سے کشمیر میں انسانی حقوق کی دھجیاں مسلسل کئی برس سے اڑا رہا ہے وہ اسےدکھائی نہیں دیتیں۔ گزشتہ روز معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر اکرم چوہدری نے دوران گفتگو ایک خوب صورت قرآنی آیت کا حوالہ دیا جس کے مطابق ایسے لوگ آنکھوں کے نہیں دل کے اندھے ہوتے ہیں۔ اور جب کوئی دل کا اندھا ہو جائے تو پھر اسے انسانی بالخصوص مسلمانوں کے حقوق کی پامالی دکھائی نہیں دیتی۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مگر پرجوش عوام جذبہ آزادی سے سرشار ہو کر تحریک آزادی چلا رہے ہیں۔کشمیر نوجوانوں کے لہو سے سینچی ہوئی اس تحریک نے نہ صرف تحریک آزادی میں نئی روح پھونک دی ہے۔ بلکہ اس تحریک سے کچھ چیزیں روز روشن کی طرح نکھر کر سامنے آ گئی ہیں۔ اب اہل کشمیر نے متحد و متفق ہو کر پاکستان سے اپنی کمٹمنٹ کا اعلان کردیا ہے۔ ہر جلسے اور جلوس میں سبز ہلالی پرچموں کی بہار آ جاتی ہے اور شہیدوں کی وصیت یہ ہوتی ہے ان کی میت کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا جائے۔ مظفر وانی اور ناصر شفیع کے خون سے جواں ہونے والی تحریک آزادی نے سینئر کشمیری قائدین کو متحد کردیا۔ حریت کانفرنس کے دو دھڑے ہو گئے تھے۔ اور یاسین ملک کا جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ الگ تھا اب سید علی گیلانی میر واعظ عمر فاروق اور یاسین ملک حریت کانفرنس کے مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو گئے ہیں۔
کشمیری عوام اب صرف اپنے زور بازو اور اپنے خدا پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ ان کا صرف ایک مطالبہ ہے کہ اگر ضمیر عالم میں حق وانصاف کی کوئی رمق باقی ہے تووہ ہمیں ہمارا وہ حق خود ارادیت عملاً فراہم کرے جو 1948سے1957تک سیکورٹی کونسل کی متعدد قرار دادوں نے ہمیں دیا تھا اور جس پر بھارتی قائدین کے دستخط بھی ثبت ہیں۔ اہل کشمیر کی اخلاقی ،سفارتی اور قانونی مدد کے لئے ایک اہم ذمہ داری پاکستان کے کندھوں پر آن پڑی ہے۔ مجھے آزادی کشمیر کی پارلیمنٹ کے رکن رشید احمد ترابی نے بتایا کہ امریکہ روانگی سے پیشتر وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے مظفر آباد آ کر حریت کانفرنس کے غلام محمد صفی ، فاروق رحمانی، محمود احمد ساغر اور کشمیری ارکان اسمبلی سے ملاقاتیں کیں اور یقین دلایا کہ وہ امریکہ میں اہل کشمیر کے موقف کی جرات مندانہ انداز میں ترجمانی کریں گے اللہ کرے کہ وزیر اعظم اس یقین دہانی پر پورے اتریں۔
کاش وزیر اعظم امریکہ روانگی سے پیشتر حزب مخالف کی تمام جماعتوں کے قائدین سے بھی ملاقات کرتے اور اعلان کر تے کہ پانامہ لیکس کے بارے میں وہ اپوزیشن کے مطالبات کی روشنی میں ہر فورم پر انکوائری کے لئے تیارہیں۔ اور پھر کشمیر پالیسی کےبارے میں پاکستانی قائدین کو بھی اعتماد میں لیتے۔ اس کے برعکس اپوزیشن کو سبق سکھانے کے لئے ن لیگ کی ڈنڈا فورس قائم ہو گئی ہے۔
گزشتہ دو تین ماہ کے دوران ساری دنیا میں مسئلہ کشمیر سے آگاہی کے لئے جس بھرپور مہم چلانے کا اعلان کیا گیا تھا وہ مہم زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھی۔ اس کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ خطبہ حج میں شام و فلسطین کا ذکر تو کیا گیا مگر گزشتہ ڈھائی ماہ سے بھارتی ریاستی دہشت گردی کا شکار ہونے والے مظلوم کشمیری مسلمانوں کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔ یہ ہماری سفارتی ناکامی ہے۔
آج کل بھارتی چینلز پر مسلسل پاکستان کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے۔ایک ریٹائرڈ بھارتی جرنیل کہہ رہے تھے کہ اگر ہم نے ایٹم بم چلا دیا تو پاکستان میں800برس تک کوئی فصل نہیں ہو گی۔ ان عقل کے اندھوں کو یہ معلوم نہیں کہ پاکستان بھارت کی طرح گیدڑ بھبکیوں تک محدود نہیں رہے گا اگر ضرورت پڑی تو ایک نہیں کئی ایٹم بم چلا دے گا۔ بھارت ہوش کے ناخن لے اوراچھی طرح سمجھ لے کہ آزادی کے جو چراغ جوان لہو سے روشن ہوتے ہیں وہ جھوٹ ،مکر اور فریب کی آندھیوں سے نہیں بجھائے جا سکتے۔


.
تازہ ترین