کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کے نام ان کی زندگی ہی میں ان کی پہچان بن جاتے ہیں اور ان سے بھی زیادہ خوش قسمت وہ ہوتے ہیں جو اپنے قدموں کے نشان تاریخ کے صفحات پر چھوڑ جاتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ زندہ رہنا اورموت کے بعد بھی زندہ رہنا ہر انسان کا خواب اور خواہش ہوتی ہے اور یہ خواہش انسانی نفسیات کا حصہ ہے۔ دراصل فنا اور بقا اس کائنات کے دو رنگ اور دو متضاد پہلو ہیں۔ فنا انسان کا مقدر ہے اور رب کائنات نے اس سارے نظام کی بنیاد ہی فنا پر رکھی ہے۔ لیکن اس فنا میں ایک پہلو بقاء کا بھی ہے۔ وہ بقاء تھوڑے عرصے کیلئے ہو یا طویل عرصے کیلئے بہرحال اسے بھی ایک دن فنا ہونا ہے۔ آپ غور کریں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ جس روز بقاء فنا ہوگی دراصل وہ دن یوم حساب کا ہوگا اور یوم حساب تک فنا و بقا کا سلسلہ جاری رہے گا۔ یہ بھی ایک دلچسپ اور قابل غور معمہ ہے کہ اللہ سبحانہٗ تعالیٰ نے کائنات کی ہر شے کا مقدر فنا رکھا ہے اور انسان کو شعور کی آنکھیں کھولتے ہی علم ہوتا ہے کہ اسے بہرحال فنا ہونا ہے اور یہ کہ زندگی فانی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود انسان کی فطرت میں ایک جذبہ ہمہ وقت شمع بن کرروشن رہتا ہے بلکہ یوں کہیے کہ انسان کو مضطرب رکھتا ہے اور وہ جذبہ ہے بقاء کا یعنی خالق حقیقی نے انسان میں خیر و شر کے ساتھ ساتھ بقاء کی خواہش بھی رکھ دی ہے۔ انسان کی اولین خواہش ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح فنا کو شکست دے لیکن وہ فنا کو شکست نہیں دے سکتا کیونکہ یہ امر ربی ہے۔ چنانچہ وہ اپنی بقاء کے ذریعے امر ربی کی فنا کو شکست دینے کی کوشش کرتا ہے۔ سادہ الفاظ میں اس بات کو یوں کہا جاسکتا ہے کہ انسان یہ جانتے ہوئے کہ اسے ایک دن دنیا سے رخصت ہونا ہے، دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی زندہ رہنے کی خواہش اور تدبیر کرتاہے۔ یہی خواہش یا تدبیر انسان سے ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دلواتا ہے جو اسے مرنے کے بعد بھی لوگوں کی یادداشت یا تاریخ کے صفحات پر زندہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ انسان مر کر بھی زندہ رہتا ہے۔ غائب ہو کر بھی حاضر رہتا ہے اور اس کا ذکر یا اس کے کارنامے کا ذکر زندہ لوگوں کو گرماتا ہے۔ ان کی یادوں میں رشک کا گلاب بن کر خوشبو بکھیرتا رہتا ہے اور کبھی کبھی نشان منزل یا منزل بھی بن جاتا ہے۔ میں جب انسانی زندگی پر غور کرتا ہوں تو مجھے دنیا کی عظیم ایجادات، تخلیقات، انسانی خدمت کی عظیم خدمات، قوموں کے مقدر اور حیات، عبادات و مجاہدات اور انسانی زندگی کی حیران کن کرامات کے پس پردہ بقاء کا جذبہ نظر آتا ہے، جسے قدرت پیدائش کے وقت انسان کی فطرت میں ودیعت کردیتی ہے۔ گویا جو لوگ اس جذبے یا انسانی فطرت کو دبا کر عام سطح پر زندگی گزارتے ہیں وہ گویا اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود اشرف نہیں ہوتے۔ کیونکہ اشرف المخلوقات کی فطرت ہے فنا کو شکست دینا اور یہ شکست صرف بقاء کے ذریعے ہی دی جاسکتی ہے۔
مختصر یہ کہ بقاء انسانی جبلت کا جزو ہے لیکن بذات خود اس بقاء کے دو حصے ہیں۔ ایک دنیاوی اور دوسرا روحانی..... دنیا بقاء کی تحریک سائنسی ایجادات، ذہنی، ادبی و غیر ادبی تخلیقات اور انسانی خدمات کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور ہر تخلیقی سرگرمی کے لاشعور میں سرگرم نظر آتی ہے۔ جبکہ روحانی بقاء قرب الٰہی کے حصول کی خواہش کو جنم دیتی ہے اور عبادات و مجاہدات کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ دنیاوی بقاء غور و فکر، گہرے مطالعے، تحقیق اور حد درجہ محنت کی متقاضی ہوتی ہے، جبکہ روحانی بقاء ’’عشق‘‘ کی دین ہوتی ہے اور عشق کے ذریعے ہی سلوک کی منزلیں طے کر کے نصیب ہوتی ہے۔ کبھی کبھی یہ عبادات و مجاہدات سے حاصل ہوتی ہے اور کبھی کبھی یہ کامل مرشد کی نظر کا تحفہ ہوتی ہے لیکن اس میں دو شرطیں روحانی راہ کا سنگ میل ہیں۔ اول مرشد کا کامل ہونا، دوم دل و دماغ میں سچی خواہش کا روشن ہونا۔ کامل مرشد وہ ہوتا ہے جو اپنے محبی، طالب یا دنیاوی اصطلاح کے مطابق ’’مریدکے‘‘ کے احوال پر نگاہ رکھنے کا اہل ہو۔ اسکے معاملات سے باخبر رہے اور سچی خواہش وہ ہوتی ہے جسکی لگن انسان کی ہمہ وقت بیتاب رکھے۔ ہر وقت آنکھوں میں بسی رہے اور ذہن پر چھائی رہے۔ جب خواہش سچی خواہش بن جائے تو مرشد اس کی آبیاری کرتا، اس میں بیج بوتا اور فصل اگاتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ساری منازل فقط ’’نظر‘‘ کی تابع ہوتی ہیں اورر نظر ہی سے طے ہوتی ہیں۔ یہی نظر کایا پلٹتی اور تاریکیوں کو اجالوں میں بدل دیتی ہے اور ہاں یہ ساری باتیں کتابی نہیں بلکہ کتاب زیست کی حقیقت ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ان کو ملتی ہے جو سچی لگن سے اسے تلاش کرتے ہیں۔ ایک مرشد کامل کے پاس درجن دو درجن یا اس سے بھی زیادہ چاہنے والے حلقہ بگوش رہتے ہیں لیکن مرشد کی ’’نظر‘‘ اسے ملتی ہے جس کا قلب سچی خواہش سے منور ہوتا ہے یا جس کے قلب کی زمین بیج کیلئے تیار ہوتی ہے۔ باقی محروم رہتے ہیں اور اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں۔ مجھے ان لوگوں پر رحم آتا ہے جو روحانی بقاء کو جھوٹ کہتے ہیں۔ کیونکہ وہ پیدائشی اندھے ہیں۔ انہوں نے اجالا دیکھا ہی نہیں اور وہ کیا جانیں روشنی کیا شے ہوتی ہے۔
میں کہہ رہا تھا فنا اور بقاء قدرت نے انسانی فطرت میں ودیعت کردی ہے اور یہ دونوں تحریکیں پیدائش سے لے کر موت تک انسانی زندگی میں سرگرم اور متحرک رہتی ہیں۔ دنیاوی بقاء کے حوالے سے بڑے بڑے سائنس دان بلب کی ایجاد سے لے کر ایٹمی قوت تک، ملیریا اور تپ دق سے لے کر کینسر کے علاج تک، بڑے بڑے شاعر، ادیب، فلاسفر، عالمی رہنما، قوموں کا مقدر بدلنے والے اور انسانوں کو پستیوں سے اٹھا کر بلندیوں پر لے جانے والے وغیرہ وغیرہ اپنے شعبوں میں خدمات کے سبب تاریخ میں بھی زندہ ہیں، انسانی حافظے میں بھی موجود ہیں اور بڑے بڑے انعامات سے بھی فیض یاب ہو چکے ہیں۔ ان کے نام ان کے کام کی پہچان ہیں۔ ان میں کچھ ضرب المثل تو کچھ خود مثال ہیں۔ زندہ تھے تو لوگوں نے عقیدت کے پھول نچھاور کئے، حکمرانوں نے اعزازات بخشے، لکھنے والوں نے قصیدے لکھے اور مر گئے تو تاریخ کا حصہ بن گئے۔
روحانی بقاء کے مسافر عام طور پر زندگی میں گمنام یا گوشہ نشین یا عوامی نظروں سے اوجھل رہے۔ عسرت اور غربت کو اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ ہر لمحہ شکر و صبر کا عملی نمونہ بنے رہے۔ بعض اوقات لوگوں کے ہاتھوں سختیاں بھی برداشت کیں لیکن دنیا سے پردہ کیا تو حاکم بن کر لوگوں کے دلوں اور روحوں پر حکمرانی کرنے لگے۔ ان میں بہت کم تھے جنہیں زندگی میں پذیرائی ملی اورر بہت بڑی اکثریت دنیاوی پذیرائی سے کنارہ کش رہی۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ منصف اور انصاف کرنے والا اور اجر دینے والا ہے۔ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے جو اس کی راہ میں اور عشق میں زندگی گزار دیں یا زندگی گنوا دیں، وہ انہیں اجرنہ دےاور کئی گنا زیادہ انعام نہ دے۔ یہاں تک لکھ چکا ہوں تو ایک واقعہ میرے ذہن پر زور زور سے دستک دے رہا ہے۔ کئی برس گزرے میں نے یہ واقعہ ایک کتاب میں پڑھا تھا پھر ایک ولی اللہ کی زبانی سنا۔ حضرت صابرؒ کلیر شریف ایک عظیم روحانی ہستی تھے۔ کلیر شریف دہلی سے کچھ فاصلے پر واقع ہے۔ آپ حضرت بابا فریدؒ کے بھانجے اور کامل ولی اللہ تھے۔ انتقال کا وقت قریب آیا تو وصیت کی کہ میری میت دفنانے کے لئے تیار کر کے جناز گاہ میں رکھ دینا۔
ایک گھڑ سوار آئے گا اور وہ میری نماز جنازہ پڑھائے گا۔ ان کی میت نہلا کر کفن پہنا کر رکھ دی گئی اور حاضرین انتظار کرنے لگے۔ اتنے میں انہیں دور سے ایک گھڑ سوار نظر آیا۔ نزدیک آیا تو ان کے چہرے کو کپڑے نے اس طرح ڈھانپ رکھا تھا کہ صرف آنکھیں نظر آرہی تھیں۔ وہ گھوڑے سے اترے، نماز جنازہ پڑھائی اور پھر گھوڑے پر سوار ہو کر چلے گئے۔ جب وہ گھوڑے پر سوار ہورہے تھے تو چہرے سے کپڑا ایک طرف سرکا اور قریب کھڑے لوگوں نے دیکھا کہ یہ خود حضرت صابرؒ تھے جن کا انتقال ہوا تھا۔ ایسا ہی واقعہ حضرت باقی باللہ اور میاں شیر محمد شرق پوریؒ کے جنازے کا بھی ہے۔ وہ ان کی فنا تھی اور یہ ان کی بقاء تھی۔ قرآن حکیم کا فرمان ہے کہ شہیدوں کو مردہ مت کہو۔ وہ زندہ ہیں اور اسی طرح کھاتے پیتے ہیں۔ کبھی کبھی روحانی بقاء کا طالب اور نور الٰہی کا پروانہ اور عشق رسولؐ کا ’’دیوانہ‘‘ شہادت کے مرتبے پر فائز کردیا جاتا ہے اور مردوں سے زندوں کی فہرست میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ یہ میرے رب کی رضا ہے سبحان اللہ۔ (مصنف کی زیر طبع کتاب امانت سے ایک باب)