• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ کالم میں ہم نے کراچی کے حالات کا اس کے تاریخی اور سیاسی پس منظر میں جائزہ لیا تھا۔ اب اس کالم میں ہم کراچی کو جیو ’’ پولیٹکس ‘‘ کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ کراچی اس خطے کا ایسا شہر ہے، جس کی بہت زیادہ معاشی، جغرافیائی اور تزویراتی ( اسٹرٹیجک ) اہمیت ہے۔ یہ اہمیت اس کے محل وقوع، انسانی وسائل اور سرمایہ کاری کے بے پناہ مواقع کی وجہ سے ہے۔ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ اس خطے کے لئےیہ شہر بہت اہم ہے۔ باقی دنیا کے لئے یہ جنوبی ایشیا کا گیٹ وے ہے۔ اس لئے اندرونی سے زیادہ بیرونی عناصر اس شہر پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب تک کراچی میں جو کچھ ہوتا رہا، اس میں داخلی عوامل کے ساتھ ساتھ خارجی عوامل بھی کارفرما تھے۔ اسی طرح بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات میں کراچی کا کردار بھی بدل رہاہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کو کراچی کی اہمیت کا مکمل ادراک تھا۔ وہ جانتے تھے کہ یہ شہر نہ صرف پورے پاکستان کی ترقی کے لئے اہم کردار ادا کر سکتا ہے بلکہ اس میں اس خطے کی قیادت کرنے کی بھی صلاحیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھٹو نے اس شہر کی ترقی کےلئے اپنے خصوصی وژن کے ساتھ کام شروع کر دیا تھا۔ انتہا پسند حلقوں نے ان پر الزام عائد کیا کہ وہ کراچی میں ایک آزاد معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک بے ہودہ سیاسی الزام تھا۔ بھٹو کا وژن یہ تھا کہ کراچی کو اس خطے کا اقتصادی مرکز بنایا جائے اور یہاں عالمی معیار کا انفرا سٹرکچر تعمیر کیا جائے۔ اسٹیل مل، شاہراہِ فیصل اور Casino اسی سلسلے کی کڑی تھے۔ بھٹو کی اگر شہادت نہ ہوتی تو دبئی، ہانگ کانگ اور ممبئی نہ بنتے۔ پوری دنیا کے فضائی اور سمندری ٹریفک کا رخ کراچی کی طرف ہوتا۔ ناعاقبت اندیش لوگوں نے بھٹو کو شہید کرکے کراچی کی ترقی کو روکا اور کراچی کی بربادی پر دبئی، ہانگ اور ممبئی بنے۔ بھٹو کی مخالفت کرنے والے لوگوں کی اکثریت نے اب اپنی سرمایہ کاری دبئی یا ہانگ کانگ میں کر رکھی ہے اور ان میں سے زیادہ تر لوگوں کے اہل خانہ بھی دبئی میں رہتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے بھی کراچی کے حوالے سے بھٹو کے وژن پر دوبارہ کام کرنے کی کوشش کی لیکن اس وقت کراچی بدامنی کی آگ میں جھلس رہا تھا اور بیرونی عوامل یہاں بہت زیادہ مضبوط ہو چکے تھے۔ اس کے باوجود محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے کراچی میں جدید انفرا سٹرکچر کے قیام کے لئے 121 ارب روپے کا پیکیج دیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ملک میں اب کوئی وفاقی سیاسی جماعت نہیں رہی ہے اور ملک قد آور سیاسی قیادت سے محروم ہو گیا ہے۔ سب سیاسی جماعتیں علاقائی بن گئی ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ تقسیم ہو گئی ہیں اور وہ اپنے اپنے علاقوں میں توجہ دے رہی ہیں۔ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات اور سطح کے نیچے اٹھتی ہوئی لہروں کا ادراک نہ ہونے کی وجہ سے کسی کی توجہ کراچی پر نہیں ہے۔
ہماری سرحدوں پر پچھلے دو ہفتوں سے حالات میں بہت حدت ( Heat ) پیدا ہوئی ہے۔ بھارت نے جنگی جنون پیدا کر دیا ہے۔ بھارت کا میڈیا اور اس کی پارلیمنٹ میں جنگی جنون کی باتیں ہو رہی ہیں۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے ظلم و تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے باوجود کشمیری اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور کشمیر کی تحریک آزادی کی اونر شپ کشمیری عوام کے پاس ہے۔ دائیں بازو کے انتہا پسند بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی پالیسیوں نے اس خطے کو فلیش پوائنٹ بنا دیا ہے۔ پاکستانی قوم بھارت کے جارحانہ عزائم کو ناکام بنانے کے لئے متحد ہے اور قوم جنرل راحیل شریف کی قیادت میں پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے دھیمے لہجے لیکن بھرپور انداز میں پاکستان کا مقدمہ پیش کیا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے مظالم کو اجاگر کیا ہے لیکن بہتر ہوتاکہ جانے سے پہلے پوری قوم اور پارلیمان کو اعتماد میں لیتے، اپنی خارجہ وزارت کو فنکشنل بناتے اور کشمیر کمیٹی اور اپنے lobbyists کو صحیح خطوط پر منظم کرتے۔ وزیر اعظم نے حریت پسند کشمیری نوجوان برہان وانی شہید کا ذکر کرکے انہیں دنیا بھر کے لئے تحریک آزادی کی علامت بنا دیا ہے۔ پہلے جب بھی کشمیر میں حالات خراب ہوتے تھے، کراچی میں بھی حالات بگڑ جاتے تھے لیکن اس مرتبہ ایسا نہیں ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کراچی میں دہشت گردی کے خلاف ٹارگیٹڈ آپریشن بہت حد تک کامیاب رہا ہے اور بیرونی عوامل کراچی پر اثر انداز نہیں ہوپا رہے۔ صرف مقبوضہ کشمیر کے حالات کا کراچی میں ردعمل نہیں ہوتا تھا بلکہ عالمی اور علاقائی سیاست اس شہر کو متاثر کرتی تھی۔
سرد جنگ کے بعد جیسے جیسے نیو ورلڈ آرڈر نافذ کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں، ویسے ویسے دنیا خصوصاً مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں حالات بگڑتے گئے۔ یہ دونوں خطے نہ صرف بدامنی اور انتشار کا شکار ہوتے گئے بلکہ یہاں سیاسی، مذہبی، مسلکی، لسانی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم بڑھتی گئی۔ کراچی سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ اب حالات کروٹ لے رہے ہیں۔ دنیا میں نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ نئے معاشی بلاک بن رہے ہیں اور ایک سے زیادہ عالمی طاقتیں ابھر کر سامنے آ گئی ہیں اور وہ اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں۔ ایک زمانہ تھا، جب بہت سی بیرونی طاقتیں کراچی کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی تھیں کچھ خطے کے ممالک بھی کراچی کی ترقی کے خلاف ہیں کیونکہ اس سے انکی ترقی متاثر ہو گی لیکن اب ایسے حالات بھی پیدا ہو رہے ہیں کہ بعض بیرونی طاقتیں کراچی کی تزویراتی اور اقتصادی اہمیت کو بحال کرنا چاہتی ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری نے کراچی کی اس اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ دوسری طرف روس بھی نہ صرف اس خطے میں بلکہ عالمی سیاست میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کے لئے متحرک ہو گیا ہے۔ ان دنوں پہلی دفعہ روسی اور پاکستانی افواج کی زمینی exercises ہو رہی ہیں۔ ایران بھی اس خطے کی بڑی معاشی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے۔ چین اور روس کے بڑھتے ہوئے کردار کی وجہ سے نیو ورلڈ آرڈر والی صف بندیاں ٹوٹ رہی ہیں۔ اس تناظر میں کراچی کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔
جب ہم کراچی کے حالات کو جیو پولیٹکس کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم کراچی کو پاکستان کے دوسرے علاقوں یا شہروں سے الگ کرکے دیکھ رہےہیں۔ کراچی منی پاکستان ہے۔ یہاں سندھ کے دیگر اضلاع پنجاب، بلوچستان، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان، کشمیر اور قبائلی علاقہ جات کے ہر شہر، قصبے اور گاؤں کے لوگ موجود ہیں۔ یہاں دیگر ممالک خصوصاً بنگلہ دیش، سری لنکا اور برما وغیرہ کے لوگ بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ کراچی کے حالات کا پورے ملک پر اثر پڑتا ہے۔ جب ہم یہ بات کرتے ہیں کہ کراچی پر توجہ دی جائے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ملک کے دوسرے علاقوں یا شہروں پر توجہ نہ دی جائے۔ کراچی ملک کا معاشی مرکز ہے۔ کراچی اس ملک کی معیشت کو چلا سکتا ہے۔ یہ شہر پاکستان کے تمام جمہوری اور ترقی پسند تحریکوں کا مرکز رہا ہے۔ کراچی پاکستان کی سیاست کو چلا سکتا ہے۔ کراچی پاکستان کا دماغ ہے۔ اس لئے کراچی کے حالات کا صحیح اندازہ لگانا بہت ضروری ہے۔ تاریخ بانجھ نہیں ہوتی اس کی کوکھ سے ہی وسائل جنم لیتے ہیںجس سے انسانی معاشرہ اور قومیں ترقی کرتی ہیں۔ انسانی ترقی سے ہی انسانی فکر جلا پاتی ہے۔ کراچی کا اجتماعی شعور بہت بلند ہے کیونکہ کراچی کے لوگ تنوع اور اختلاف رائے کے ساتھ جینے کا سلیقہ سیکھ چکے ہیں۔ وہ دنیا میں ہونے والی انسانی ترقی، سیاسی، فکری، معاشی اور سماجی تبدیلیوں کا ادراک کرتے ہوئے نہ صرف پاکستان بلکہ اس خطے کی قیادت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔



.
تازہ ترین