• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح قیام پاکستان کے بعد زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہے۔ وہ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل اور قوم کے سب سے زیادہ قابل اعتماد سیاسی رہنما تھے۔ اس حیثیت سے پاکستان میں ہندوستان سے لٹ پٹ کر آئے ہوئے لاکھوں مسلمانوں کی آبادکاری اور نئی مملکت کے کاروبار کو صحیح بنیادوں پر قائم کرنے کےلئے انہیں جتنی مصروفیت رہی اس نے انہیں یہ مہلت نہ دی کہ وہ اپنی زندگی میں پاکستان کے لئے کوئی ایسا آئینی ڈھانچہ تیارکرجاتے جو ان سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظریات کی عکاسی کرتا جن کی بنیاد پران کی قیادت میں مسلمانوں نے حصول پاکستان کی جدوجہد کی تھی۔ یہ سیاسی، معاشی اورمعاشرتی نظریات قائد کی تحریروںمیں جابجا موجود ہیں اور پاکستان کےآئین کی بنیادی دستاویز ’’قرار داد ِ مقاصد‘‘ میں ان کی جھلک ملتی ہے لیکن بعض ملکی اورغیرملکی دانشور، بعض سیاسی گروہ تحریک پاکستان کو ایک نظریاتی تحریک کے بجائے ایک ایسی تحریک ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کامقصد مسلمانوں کو محض ہندوئوں کے سیاسی تسلط سے نجات دلانا تھا۔
آیئے ذرا اس بات پر غور کریں کہ پاکستان بننے کے ان 67برسوں میں جہاں سیاستدانوں نے حکومت کی وہاں فوجی جرنیلوں نے بھی حکومت کی مگر ہر دفعہ سیاستدان ہی ناکام کیوں ہوتے ہیں؟ کیا کوئی ایسی طاقت ہے جو سیاستدانوں کو حکومت نہیں کرنے دیتی؟ جو عوام کے ووٹوں سے آتے ہیں اور اچانک دھاندلی کا شور مچا دیا جاتا ہے اور کوئی آمر اقتدارپر قبضہ کرکے بیٹھ جاتا ہے!
عوام کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملتا جس کی وجہ سے قائداعظم محمد علی جناح کاپاکستان کمزورہوتا جارہا ہے۔ کیا قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان اس لئے حاصل کیا تھا کہ یہاں صرف سرمایہ داراور جاگیردار حکومت کرسکیں اورعوام مجبور ہوکرغلامی کی زندگی گزاریں۔
اگر ہم قائداعظم محمد علی جناح کی زندگی سے کوئی مقصد حاصل کرنا چاہیں تو دیکھیں کہ قائداعظم محمد علی جناح تو 1916 میں کانگریس اور مسلم لیگ کے مشترکہ اجلاس کی صدات کر رہے تھے اور انہیں ’’امن کے سفیر‘‘ کا خطاب ملا۔ جبکہ دوسری جانب قیادت گاندھی کے سپردتھی حتیٰ کہ 1920 میں تحریک ہجرت بھی ان کے حوالے کی گئی۔ اس طرح گاندھی سب کچھ سمیٹ کر لے گئے۔ قائداعظم محمد علی جناح کی آواز کوئی نہیں سنتا تھا۔ مسلم لیگ بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ قائداعظم محمد علی جناح اس خطے سے مایوس ہو کر لندن چلے گئے تھے۔ بستر مرگ سے علامہ محمداقبال نے قائداعظم محمد علی جناح کو علیحدہ وطن کامقصد دیا، وطن واپس آنے کاکہا۔ 1937تک مسلم لیگ کے بار ےمیں یہ کہا جاتاتھا کہ وہ قائداعظم اور ان کے ٹائپ رائٹر کے علاوہ کچھ نہیں ہے لیکن اقبال کےاصرار پر قائداعظم محمد علی جناح واپس آئے۔ اس وقت وہ یہی کہتے تھےکہ چھ ماہ ہندوستان میں اور باقی چھ ماہ لند ن میں گزاریں گے لیکن جب مقصد واضح ہو گیاتو ڈیڑھ سال کے اندر اندر قائداعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ کی شکل ہی بدل دی۔ یہاں منٹو پارک میں لاکھوں مسلمان قائداعظم محمد علی جناح کے قدموں تلے بیٹھے تھے۔اس سے سبق ملتا ہے کہ جب مقصد واضح اور قیادت درست ہوتی ہے تو پھر پتہ نہیں کہاں کہاں سے وسائل بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ دنیا میں کتنے لوگ ہیں جنہوں نے تاریخ اور جغرافیہ بدل ڈالا یاقومی ریاست کی بنیاد ڈالی لیکن ہمیں فخر ہےکہ اکیلے قائداعظم محمد علی جناح نے یہ تینوں کام بیک وقت انجام دیئے۔ آج حالت یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی منتقلی اورمالیاتی معاملات کے لئے ہم مارے مارے پھرتے ہیں لیکن جب تک آپ کے پاس مقصد نہیں ہوگا وسائل کچھ نہیں کرسکتے۔
قائداعظم محمد علی جناح کامقصد کیا تھا؟ انہوں نے ہمیں منظم کیا، سب دینی جماعتوں نے مخالفت کی۔ کسی نےکافراعظم قرار دیا۔ قائداعظم محمد علی جناح کااسلام سرسیداور اقبال کی تعلیمات پرمشتمل تھا۔ آج ہمیں غورکرنا ہے کہ ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو کس اسلام کی؟ قائداعظم محمد علی جناح کے اسلام کی نہیں۔قائداعظم محمد علی جناح ایک عالمگیر اسلام چاہتے تھے جس کے فوائدتمام انسانوں کو ملتے۔ کیا نبی ﷺ صرف مسلمانوں کےنبی ﷺتھے؟ قائداعظم نےساری انسانیت کی فلاح کے لئے اسلام کی بات کی اور 11ستمبر 1947کی تقریر میں انہوں نےواضح کردیا تھا کہ پاکستان صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ اس میں بسنے والا ہر شخص بلاتفریق مذہب و نسل کا وطن ہے۔
قائداعظم محمد علی جناح نے یہ نہیں کہا تھا کہ مغرب کا نظام ناکام ہو گیا ہے۔ ہم نے ایڈم سمتھ کے نظریہ پرعمل کرتے ہوئے سرمایہ داری کو قبول کیا حالانکہ یہ ایک ظالمانہ نظام ہے۔ آج پھر جھاڑ پونچھ کریہ ظالمانہ نظام ہمارے سامنے لاکھڑا کردیاگیا ہے ۔ ہم جمہوریت کی تو بات کرتے ہیں لیکن سوشلزم کی بات کرنے سے ڈرتے ہیں۔
قرآن پاک میں صاف لکھا ہے کہ جو رزق ہم نے انہیں دیا وہ اسے بھی تقسیم کرتے ہیں جب تک ’’رزق کی جمہوریت‘‘حاصل نہیں ہوگی قائداعظم محمد علی جناح کامقصد پورا نہیں ہوگالیکن ہم میں سے کوئی بھی یہ بات نہیں سوچتا۔ اگر آپ اسلام، جمہوریت اور قائداعظم کے ساتھ سچے ہیں تو ہمیں یہ مقصد حاصل کرنا ہوگا اگر ہمارا دل اور نیت صاف ہوجائے تو پھر اللہ تعالیٰ اور غریب لوگوں کی مدد سے ہم اس مقصد کواپنالیں گے۔ ایک ایسا پاکستان بنائیں گے جس میں بیک وقت آزادی بھی حاصل ہو اور رزق کا تحفظ بھی۔
تاریخ انسانی میں ایک نئے سماجی معاہدے کا قائداعظم کامقصدپوراہو جائے گا لیکن نہ تو حکومت اور نہ اپوزیشن اس مقصد پرسوچتی ہے۔پاکستان کو مضبوط کرنے کی کوئی فکر کسی کو نہیں ۔چند الفاظ عوام کو سبز باغ دکھانے کے ہیں ۔ کوئی پاکستان کو توڑ کر گھر چلا جاتا ہے اور کوئی عقل کل بن کر اقتدار پر بیٹھ جاتا ہے۔
براہِ کرم حکمرانو! قائدکے پاکستان پر رحم کرو، کوئی اچھا کام کر جائو کہ جانے کے بعد آپ کو بھی لوگ یاد کریں جیسے قائد کو کیا جاتا ہے۔جن لیڈروں نے عوام اور قائد کے پاکستان کے لئے قربانیاں دی ان کا نام تا قیامت زندہ رہے گا۔یہ ہی تاریخ کی سچائی ہے اس میں ہمارا کردار کیا ہے؟اب یہ عوام اور لیڈروں نے سوچنا ہے۔
تازہ ترین