• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلامی نظریاتی کونسل کے موجودہ چیئرمین اپنے بیانات کے سبب اکثر میڈیا کی خبروں میں نمایاں رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انہوں نے اپنی سفارشات میں یہ کہا تھا کہ کم سن یا نابالغ بچیوں کی شادیاں جائز ہیں وہیں یہ بھی فرمایا تھا کہ دوسری تیسری یا چوتھی شادی کیلئے پہلی بیوی یا بیویوں کی اجازت ضروری نہیں ہے اس پر ایک قومی مباحثے کا آغاز ہو گیا ،اب انہوں نے اپنے ادارے کی نئی سفارشات میں جہاں یہ کہا ہے کہ3طلاقیں اکٹھی دینا خلافِ شریعت ہے وہیں یہ بھی کہا ہے کہ قانوناً تینوں یکبارگی طلاقیں فوری طور پر نافذالعمل ہوجائینگی نیز طلاقیں دینے والے اور تحریر کرنیوالے کو تعزیر کا سامنا بھی کرنا ہوگا۔ اپنی سفارشات میں انہوں نے چالیس سال سے کم عمر کی خاتون کے جج بنائے جانے کو بھی خلافِ شریعت قرار دیدیا ہے نیز قانون انفساخ مسلم ازدواج 1939ء کے تحت دوسری شادی کی صورت میں تنسیخ نکاح کی شق خلافِ شریعت اور قابل استرداد ہے۔
عامۃ المسلمین کی کوتاہی یہ ہے کہ وہ ان امورو معاملات سے متعلق آگہی نہیں رکھتے اور مذہبی رہنما انہیں گورکھ دہندے میں الجھائے رکھتے ہیں۔ وہی پرانی روایتی مذہبی موشگافیاں ہیں جنہیں بڑے تدبر کیساتھ مسلم عائلی قوانین مجریہ 1961ء میں اجتہادی حکمت کیساتھ سمو دیا گیا تھا ۔ ہم عرض کریں گے کہ قانون اور معاشرت باہم چولی دامن کا ساتھ رکھتے ہیں۔ مصالحتی کونسلوں کے چیئرمین کی حیثیت سے ناچیز نے برسوں ایک دو نہیں بیک وقت ساٹھ ساٹھ کونسلوں میں طلاقوں کے سینکڑوں مقدمات نمٹائے ہیں اور اس تجربے کی بنیاد پر عرض ہے کہ کامن انسانی سائیکی کو طرح طرح کی موشگافیوں اور الجھنوں میں ڈالنا سماج کی خدمت نہیں ہے۔ مذہبی عقائد کی گرفت کے باعث بہت سے گھرانے بے وجہ ٹوٹتے دیکھے گئے ہیں جب انہیں سمجھایا جاتا ہے کہ بھائی صاحب یا بی بی صاحبہ تین یکبارگی طلاقوں کے باوجود آپ کی طلاق بائن نہیں ہوئی آپ صلح کرتے ہوئے رجوع کر سکتے ہیں تو وہ تمناو آرزو کے باوجود احساس گناہ میں گرفتار ہو کر کنبہ توڑ بیٹھتے ہیں، نتیجتاً ان کے بچے رل جاتے ہیں۔ فقہ حنفی جو کہ اس خطے کی طاقتور اکثریتی فقہ ہے اس کے علمبردار و پیرو کاران قطعی اجازت نہیں دیتے کہ وہ بدنصیب جوڑا اکٹھی تین طلاقیں دیے جانے کے بعد اپنا کنبہ بچا سکیں۔
ہمارے یہاں پر بعض مسالک میں تین طلاقوں کے بعد مصالحت کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے۔عرض مدعایہ ہے کہ پاکستان کی مسلم سوسائٹی کو تمام تر تنگنائوں اور الجھنوں سے نکالتے ہوئے عصری تقاضوں کی مطابقت میں عائلی قوانین کے اجتہادی فیصلے ہو چکے ہیں اور وہ اس وقت لاء آف دی لینڈ کی حیثیت سے پورے ملک میں نافذ العمل ہیں بالفعل قریباً پوری قوم انہیں قبول بھی کر چکی ہے اب حضرت مولانا ان میں الجھائو کیوں ڈالنا چاہتے ہیں؟ اس وقت اگر کوئی یکبارگی تین طلاقیںدے تو وہ ایک طلاق تصور ہوتی ہیں تاوقتیکہ قرآنی ہدایت کی مطابقت میں تین طہر پورے نہ ہوجائیں۔ آخر ان میں کونسی چیز ہے جو خلافِ قرآن یا سنت ہے؟ ان تین مہینوں میں فریقین یعنی لڑکے اور لڑکی دونوں کے ثالت لیے جاتے ہیں اورمصالحت کیلئے بھر پور کاوشیں کرنے کی قانون نے پوری گنجائش رکھی ہے۔ اس میں اگر کوئی مسلہ تھا بھی تو وہ اس قدر تھا کہ جو خواتین تین ماہ سے بھی زیادہ کا عرصہ لگا کر اور خجل خراب ہو کر عدالتوں سے خلع لیتی ہیں انہیں مزید لٹکانا، کیا انصاف کے اصولوں کی مطابقت میں ہے یا ان کے خلاف؟ نیز قانونِ انفساخ مسلم ازدواج 1939ء کے تحت مسلم خواتین کو جو حقوق دیئے گئے تھے بجائے مسلم خواتین کو ان کے ثمرات سے بہرہ ور کرنے کے نظریاتی کونسل آخر کیوں ان کے استرداد پر یکسو ہے۔ اس طرح ان لوگوں کو کیا حق ہے کہ چالیس سال سے کم عمر مسلم خاتون کے جج بننے پر قد غنیں لگاتے پھریں اور ہر وہ طریقہ ڈھونڈیں جس سے خواتین کے حقوق پر زد پڑتی ہو۔
تازہ ترین