کیا شمالی وزیر ستان میں فوجی آپریشن سے گریز ہی، جنرل کیانی کے خلاف مشرف کے غصے کا باعث ہے یا سبب کچھ اور ہے؟ اس سے قبل آئی ایس پی آر کے سابق سربراہ میجر جنرل(ر) اطہر عباس بھی بی بی سی سے انٹرویو میں یہی بات کہہ چکے تھے، 2011کے اواخر میں شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی تیاری مکمل تھی لیکن جنرل کیانی کو تذبذب نے آلیا۔ (یہاں تک کہ ریٹائرمنٹ کی ساعت آپہنچی)۔ اب ایک انگریزی اخبار سے انٹرویومیں جنرل (ر) پرویز مشرف نے اِسی الزام کا اعادہ کیا ہے۔
جنرل کیانی نے 29نومبر2007کو فوج کی کمان سنبھالی۔ پرویز مشرف کے لئے وردی اُتارنے کا فیصلہ آسان نہ تھا، اِسے طوطے اور دیو کی کہانی یاد تھی، جو دلّی کی لال حویلی میں اس کے بچپن میں نانی امّاں سنایا کرتی تھیں۔ وہ کہانی جس میں دیو کی جان طوطے میں ہوتی ہے۔ڈکٹیٹر اس حقیقت سے آگاہ تھا کہ اس کے اقتدار کے دیو کی جان اس کی وردی کے طوطے میں ہے۔ چیف جسٹس کے حق میں 2007کی ملک گیر مہم کے دوران جب وردی اُتارنے کا مطالبہ بھی شدت اختیار کرتا جارہا تھا، اس نے وردی کو اپنی ’’دوسری کھال‘‘ (سیکنڈ سکن) قرار دیا تھا۔ اِسے مطلق العنان صدر کے تمام اختیارات بخشنے، وزیراعظم کو کٹھ پتلی اور پارلیمنٹ کو اس کے آگے بازیچۂ اطفال بنا دینے والی 17ویں ترمیم کی منظوری کے عوض متحدہ مجلسِ عمل (ایم ایم اے) نے جو کچھ حاصل کیا، وہ اگلے سال(2004) کے دسمبر تک وردی اُتارنے کا وعدۂ فردا تھا لیکن وقت آیا تو اسے اس سے منحرف ہونے میں کوئی عار نہ تھی۔ اس ڈِیل میں بروکر کا کردار ادا کرنے والے ایس ایم ظفر نے یہ ساری کہانی اپنی کتاب میں بیان کردی ہے۔
’’سب سے پہلے پاکستان‘‘کے دعویدار، ڈکٹیٹر کی اوّل و آخر وفاداری اپنی ذات کے ساتھ تھی۔ اس سے پہلے تینوں ڈکٹیٹروں نے ایک ایک بار آئین توڑااور اس میں بھی قومی سلامتی ، قومی مفادات کا جھوٹا سچا جواز بنایا تھا لیکن اس نے تو دوبار آئین توڑا اور دونوں بار صرف اور صرف اپنی ذات کیلئے، اپنے ذاتی مفاد کیلئے ۔
12؍اکتوبر کو ایک منتخب وزیراعظم اور اس کی آئینی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے بعد بی بی سی سے انٹرویومیں کس فخر کے ساتھ اس نے کہا تھا، ’’وہ مجھے برطرف نہ کرتا تو آج بھی وزیراعظم ہوتا‘‘۔ پھر ایڈیٹروں سے ایک ملاقات میں فرمایا، اُس نے مجھے دھکا دینے کی کوشش کی تھی، میں نے اِسے دھکا دے دیا(حالانکہ آرمی چیف کا تقرر(اور برطرفی) وزیراعظم کا آئینی اختیار تھا لیکن اس نے اِسے ’’ادارے‘‘ کی عزت اور وقار کا مسئلہ بنا لیا۔ یہ الگ بات کہ اِسے ادارے کے چیف کی عزت اور وقار کا خیال اس وقت نہ آیاجب اس کا پیشرو ایک سیاسی بیان کی پاداش میں استعفے پر مجبور ہوگیا اور وزیراعظم نے تین سینئر جرنیلوں کو سُپرسِیڈ کر کے اِسے آرمی چیف بنادیا تھا)۔
3نومبر 2007کا دوسراPCO سپیریئر جوڈیشری کے خلاف coup تھا، اس میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت تقریباً 60 جج نہ صرف برطرف ہوئے بلکہ چیف سمیت اس کے بعض برادر جج گھروں میں نظر بند بھی کر دیئے گئے جسے 31جولائی 2009 کے فیصلے میں سپریم کورٹ ایک آئین شکن اقدام قرار دے چکی ۔ اِسی الزام میں اُسے اب سنگین غداری والے آرٹیکل 6کے تحت مقدمے کا سامنا ہے۔ 3نومبر کا یہ شب خون اپنی صدارت کے تحفظ کیلئے تھا کہ کہیں سپریم کورٹ اس کے 6اکتوبر2007کے باوردی صدارتی انتخاب کو غیر آئینی قرار نہ دیدے۔لیکن حالات کا اپنا جبر ہوتا ہے، سفاک حالات کا بے رحم جبر۔۔۔ اور ڈکٹیٹر کو اب اسی جبر کا سامنا تھا۔ عدلیہ بحالی مہم نے اِسے اتنا کمزور کر دیا تھا کہ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ این آر او کی ڈیل پر مجبور ہوگیا۔(اس میں جنرل کیانی (تب آئی ایس آئی چیف) نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ کہنے والے انہیں این آر او کا مصنف بھی کہتے ہیں)۔ حالات کا یہی جبر تھا جس نے اِسے اپنی سیکنڈ سکن اُتارنے پر بھی مجبور کردیا۔ وہ اب این آر کو اپنی غلطی قرار دیتا ہے اور اس احساس(پچھتاوے ) کا اظہار بھی کہ اس کے جانشین کے طور پر جنرل طارق مجید ، کیانی سے بہتر انتخاب ہوتے۔ مشرف دور میں (خصوصاً نائن الیون کے بعد) پاکستان کی ساورنٹی جس طرح پامال ہوئی، کشمیر کی تحریک جس سانحہ سے دوچار ہوئی اور پاکستان میں تشدد، عسکریت پسندی اور دہشت گردی کی زہریلی فصل جس طرح شراروں کے پھل پھول لائی، وہ ایک الگ موضوع ہے، پوری کتاب کا موضوع۔ برسبیل ِ تذکرہ ، ملالہ کی کتاب کا حوالہ، پاکستانی طالبان کا نشانہ بننے والی یہ بچی بھی اس حقیقت کا اظہار کئے بغیر نہیں رہی کہ اکتوبر 2006 میں باجوڑ کے ایک مدرسے پر ڈرون حملے میں جو80افراد مارے گئے، ان میں سوات والے مولوی فضل اللہ کا بھائی مولانا لیاقت اور 12سال سے کم عمر والے اس کے 3بچے بھی شامل تھے۔ اس حملے کے بعد انتقام کی قسمیں کھائی گئیں اور صرف دس دِن بعد درگئی میں پاک فوج کے ٹریننگ سینٹر پر خودکش حملے میں 42 فوجی شہید ہوگئے۔ ملالہ نے جولائی 2007میں لال مسجد /جامعہ حفصہ آپریشن کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس کے مطابق یہاں ماری جانے والی طالبات میں بعض کا تعلق سوات سے تھاجس کے بعد یہاں کے طالبان بدل گئے اور اُنہوں نے پاکستانی حکومت کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا۔ ملالہ نے اپنی کتاب میں لاپتہ افراد اور ان کے لواحقین کے رنج و الم کا ذکر بھی کیاہے۔
آرمی چیف کے طور پر کیانی کے لئے پہلا چیلنج عوام میں پاک فوج کے وقار کی بحالی تھا۔ اس کے لئے اس نے فوج کو سیاست سے علیحدہ کرنے اور سول محکموں سے فوجیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا، فوجی افسروں کے لئے فرمان تھا کہ سیاستدانوں سے دور رہیں۔
مشرف کو کیانی سے اصل تکلیف یہ ہے کہ انہوں نے 2008 کے عام انتخابات میں فوج کو غیر جانبدار رکھا اور اِسے مشرف کے سیاسی اہداف کا آلۂ کار نہ بننے دیا (گجرات کے بڑے چوہدری صاحب شاید اسی کو 2008 کے الیکشن میں جنرل کیانی کی دھاندلی کہتے ہیں)۔ وفاق اور صوبوں میںانتقالِ اقتدارکے بعد بھی مشرف ایوانِ صدر میں موجود تھا۔ آصف زرداری ، میاں نوازشریف کے اصرار کے باوجود ایوانِ صدر سے بگاڑ کے حق میں نہیں تھے لیکن مشرف ایک نئے خطرناک کھیل کا سوچ رہا تھا (رسی جل گئی، لیکن بل نہیں گیا تھا) تب پارلیمنٹ اور حکومت کی برطرفی کے صدارتی اختیار والی 17ویں ترمیم موجود تھی لیکن فوج کی تائید کے بغیر عملاً یہ ’’مہم جوئی‘‘ ممکن نہیں تھی اور کیانی اس پر آمادہ نہ تھے۔ میاں صاحب کے دوسرے دور میں، ایوانِ صدر اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی ساز باز سے پیدا ہونے والے عدالتی بحران کے دوران، چیف جسٹس موصوف نے حکومت/ قومی اسمبلی کی برطرفی کا صدارتی اختیار بحال کردیا تھا( جسے کچھ ہی دیر بعد جسٹس سعید الزماں صدیقی کے فل بنچ نے کالعدم قرار دے دیا )۔ فاروق لغاری سے پوچھا گیا، آپ نے اس وقفے کے دوران یہ صدارتی اختیار استعمال کیوں نہ کیا؟ سابق صدر کا جواب تھا، اس میں بریگیڈیئر ٹرِپل ون کی مدد درکار تھی لیکن فوج اس پر تیار نہ تھی۔
مشرف کو کیانی پر یہ بھی غصہ ہے کہ آصف زرداری اور نوازشریف نے اِس کے مواخذے کا فیصلہ کیاتو کیانی اسے بچانے کیلئے آگے کیوں نہ بڑھے۔ (آخرکار اِسے ایوانِ صدر سے رخصت ہونا پڑا)۔ اسے یہ بھی غصہ ہے کہ15اپریل 2009 کو میاں نوازشریف عدلیہ کی بحالی کیلئے لانگ مارچ لے کر نکلے تو کیانی نے ایوانِ صدر پہنچ کر جنابِ زرداری اور وزیراعظم گیلانی کو یہ مشورہ کیوں دیا کہ عدلیہ کی بحالی ہی میں عافیت ہے، مزاحمت مناسب ہے، نہ ممکن۔
اسے یہ بھی گِلہ ہے کہ وہ 2013 کے الیکشن میں حصہ لینے کے لئے وطن آیا اور آتے ہی اپنے سابق کرتوتوں کی بناپر دھر لیاگیا، تو کیانی اس کے کام کیوں نہ آئے؟(کہا جاتا ہے، کیانی ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اِسے وطن واپس نہ آنے کا خیر خواہانہ مشورہ دیا تھا)۔
ہم کیانی کے وکیل نہیں، انہوں نے سوات سمیت چھ، سات جگہ آپریشن کئے ، شمالی وزیرستان میں آپریشن سے گریز کے حق میں ان کے اپنے دلائل ہوں گے۔ ہم نے تو ان پر مشرف کے غصے کے کچھ حقیقی اسباب بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
ہم سخن فہم ہیں، غالب کے طرفدار نہیں