• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے لے کر بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج تک اور وہاں کی پارلیمنٹ سے لے کر میڈیا تک جسے دیکھو وہ شعلے اگل رہا ہے، دھمکیاں دے رہا ہے۔ جنگ کی آگ بھڑکانے او ر پاکستان کو سبق سکھانے کی باتیں کر رہا ہے۔ علم نفسیات سے معمولی سی شناسائی بھی آپ کو بتائے گی کہ انسان ایسی گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ کا اظہار کب کرتا ہے۔ ایسا وہ اس وقت کرتا ہے جب اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے پاس فریق مخالف کی بات کا کوئی مدلل جواب نہیں اور اس کے پاس مد مقابل کی قوت کا کوئی توڑ نہیں۔
یہ حقیقت یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قوت صرف اسلحہ و بار ود کی کثرت کا نام نہیں بلکہ اصلی قوت حریف کی اخلاقی برتری اور اس کا پہاڑ جیسا حوصلہ ہوتا ہے۔اور بھارت اس میدان میں سو بار پاکستان کا امتحان کر چکا ہے اور منہ کی کھا چکا ہے۔ تمام تر دھمکیوں اور دشنام طرازیوں کے جواب میں قومی، عسکری ،عوامی اورسیاسی سطح پر پاکستان کا رویہ نہایت مدبرانہ، جرات مندانہ اور دانشمندانہ ہے۔
بھارت کی تازہ ترین دھمکی یہ ہے کہ وہ پاکستان کا پانی بند کر دے گا۔پاکستان کے بڑے حصے کو بنجر بنا دے گا ،اسے ریگستان میں بدل دے گا اور اقتصادی طور پر اسے بے بس و لاچار کر دے گا۔ ’’انڈس بیسن ٹریٹی‘‘ کی اوریجنل دستاویز میرے سامنے رکھی ہے۔ بھارت نے خبث باطن کا مظاہرہ کرتے ہوئے1948میں بھی ہمارا پانی بغیر کسی دلیل کے بند کر دیا تھا جو بہر حال اسے کھولناپڑا۔ اب بھی بھارت کسی قیمت پر ایسا نہیں کر سکتا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کے لئے 1960میں ورلڈ بنک کے اس وقت کے صدر مسٹر یوجین بلیک کی کو ششوں اور ورلڈ بینک کی ضمانت سے ایک معاہدہ تشکیل پایا۔ اسی معاہدے پر بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اور پاکستانی صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے دستخط کئے۔ اس معاہدے کے مطابق بھارتی سرزمین سے نکلنے والے تین دریائوں ،راوی، ستلج، اور بیاس کا پانی بھارت کو ملے گا اور جموں و کشمیر سے نکلنے والے تین دریائوں سندھ، جہلم اور چناب کا پانی پاکستان کے حصے میں آئے گا۔ ورلڈ بنک کی ضمانت والے اس معاہدے کو ختم یا معطل کرنے کی کوئی بھی کوشش عالمی سطح پر ناقابل قبول ہو گی۔ بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کر کے مکر جانے والے ملک کی دنیا میں ساکھ صفر ہو جاتی ہے عالمی ضمیر کتنا ہی بے حس کیوں نہ ہو چکا ہو مگر وہ ایک عالمی معاہدے اور تاریخی حقیقت کی پامالی کو ہرگز برداشت نہ کرے گا۔
مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے بالکل درست ردعمل کا اظہار کیا ہے انہوں نے بجا کہا ہے کہ پاکستان کا پانی روکنا اعلان جنگ کے مترادف ہو گا۔ جب آپ کسی کا گلا دبائیں گے تو پھر وہ بچائو کے لئے سب کچھ کرے گا۔ سشما سوراج نے یواین او جنرل اسمبلی کے فورم پر کھڑے ہو کر جس دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے جھوٹ کا طومار باندھا اس کے بارے میں فارسی والے بہت پہلے کہہ چکے ہیں۔
چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد
کہ چور کتنا دلیر ہے کہ ہاتھ میں چراغ پکڑ کر چوری کر رہا ہے۔ انہوں نے یواین او میں کہا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے،جبکہ اسی یو این او کی سیکورٹی کونسل اس کے متنازع ہونے اور وہاں کے لوگوں کو حق خود ارادیت دینے کے بارے میں 1948سے لے کر 1957تک کئی قراردادیں منظور کر چکی ہے اور کئی بار کشمیر میںرائے شماری کا انتظام بھی کر چکی ہے۔ ان انتظامات کو بھارت نے ہر بار سبو تاژ کیا اور وہاں رائے شماری کرانے کے بجائےزیادہ سے فوج بھیج دی۔ سشما سوراج نے کذب بیانی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی وزیراعظم نے کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کا ذکر کیا ہے۔ وہ انسانی حقوق کی بات کس منہ سے کررہےہیں ان کے اپنے ہاں بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔ یہاں سوال تو یہ تھا کہ کشمیر میں بھارت نے انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائیں اور نہتے کشمیریوں پر گولیوں کی بوچھار کر دی۔ 78روز سے وہاں کرفیو نافذ ہے۔ 8؍جولائی سے اب تک بھارتی فوجی درندگی سے 120کشمیریوں کو شہید کرچکے ہیں۔ درجنوں کو بینائی سے محروم کرچکے ہیں۔ سینکڑوں زخمی ہیں اور ہزاروں کو بغیر کسی جرم کے جیلوں میں ٹھونس دیا گیا ہے۔ چونکہ جنرل اسمبلی میں خلاف واقعہ تقاریر پر بھی روکنے ٹوکنے کا کوئی نظام نہیں نہ وہاں سوال وجواب کا کوئی اہتمام ہے اور نہ ہی نقد و جرح کاکوئی انتظام ہے ورنہ سشما سوراج سے پوچھنے والا سوال یہ ہے کہ پاکستان سے بھی جواب مانگا جائے گا مگر پہلے آپ نے نہتے کشمیریوں پر جو قیامت ڈھائی ہے اور انسانی حقوق کو پائوں تلے روندا ہے اس کا حساب تو دیں۔ یو این او میں پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی کو کہنا چاہئے کہ ہیومن رائٹس کمیشن کو بھارت کشمیر جانے کی اجازت دے ہم اسے بلوچستان آنے کی دعوت دیتے ہیں پھر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ بلوچستان میں علیحدگی کی کوئی تحریک نہیں۔ جب مودی نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کا ذکر کیا تو سارا بلوچستان سڑکوں پر امڈ آیا جن میں ہندو ، سکھ اور عیسائی بھی شامل تھے۔ انہوں نے مودی کو للکارا کہ آئو دیکھو ہم سب پاکستانی ہیں۔ علیحدگی کا یہ راستہ دکھا کر مودی صاحب نے اپنے ہاں علیحدگی کی درجنوں تحریکوں کو خود شہہ دی ہے۔ اس وقت بھارت میں آسام ، میزو رام ، نا گالینڈ ، جموں و کشمیر ، مشرقی پنجاب اور تری پورہ وغیرہ میں بھارت کے مظالم سے چھٹکارا پانے کے لئے علیحدگی کی بھرپور تحریکیں چل رہی ہیں۔ جموں و کشمیر تو متنازع ہے جبکہ باقی صوبے بھارت کا حصہ ہیں۔
نریندر مودی نے جوش خطابت میں کہا کہ وہ دنیا میں پاکستان کو تنہا کردیں گے ۔ انڈیا بچشم خود دیکھ لے دنیا میں تنہا کون ہے۔ چین اور پاکستان یک جان دو قالب ہیں۔ روس کے فوجی پاکستانی فوجیوں کے ساتھ مل کر پاکستان میں مشقیں کررہے ہیں ، 56 اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی نے جنرل اسمبلی میں پاکستان کی بھرپور حمایت کی۔ اس کے علاوہ وزیراعظم پاکستان نے قیام نیویارک کے دوران بہت سے ممالک کے سربراہان سے ملاقاتیں کیں اور انہیں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے آگاہ کیا۔ بھارت تو شاہ کا مصاحب بن کر پھر ے ہے اتراتا ہے وگرنہ ہر کوئی بھارتی مظالم سے آگاہ ہے۔
ملکی حالات پر اظہار خیال بھی بہت ضروری ہے مگر کالم کی تنگ دامانی اس کی اجازت نہیں دیتی۔ سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ آنے کے بعد میاں نواز شریف کو چاہئے کہ وہ خود اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کریں تاکہ وہاں سے کلین چٹ لے کر اپنی اخلاقی و سیاسی ساکھ کو قومی بین الاقوامی سطح پر مستحکم کرلیں۔ بھارت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس کی جارحیت کے مقابلے کے لئے تمام پاکستانی سیاست دان یک آواز ہیں۔
نریندر مودی نے تین چار روز پہلے پاکستانی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آئو لڑنے کے بجائے اپنے اپنے ملک میں غریبی ، بے روزگاری ، ناخواندگی اور بیماری کے خلاف جنگ کریں اور اس سلسلے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں۔ چشم ماروشن دل ماشاد۔ مگر اس بارے میں اسد اللہ غالب پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ
خوشی سے مر نہ جاتے گر اعتبار ہوتا
اگر وزیراعظم بھارت اس خواہش کے لئے مخلص ہیں تو ساتھ ہی اعلان کریں کہ وہ عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق مسئلہ کشمیر بھی حل کرنے کے لئے تیار ہیں۔ نریندر مودی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان گیدڑ بھبکیوں سے ڈرنے والا نہیں۔ جنگ یا امن پاکستان دونوں کے لئے تیار ہے۔ اب فیصلہ بھارت کو کرنا ہے کہ وہ بربادی چاہتا ہے یا خوش حالی۔


.
تازہ ترین