اسلام وہ واحد دین ہے جو اپنے ماننے والوں سے ہر قدم پر یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ خالق کائنات کی نازل کردہ ہدایات و احکام کو غور، فکر اور تحقیق کرنے کے بعد اختیار کریں۔ اسی بنا پر قرآن و حدیث اسلام کو مذہب نہیں بلکہ دین قرار دیتے ہیں۔’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے‘‘ (آل عمران۱۹) ین قرآن کریم کی ایک جامع اصطلاح ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ کی بندگی اور اللہ کی حاکمیت قائم کرنے سے عبارت ہے۔یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ قرآن کریم میں خلافت کی اصطلاح اپنی مختلف شکلوں میں ۱۴ مقامات پر استعمال ہوئی ہے۔ سورۃ النور،سورۃ الاعراف اور سورۃ الانعام میں استخلاف کی اصطلاح کی وضاحت قرآن کریم خود کر رہا ہے کہ اللہ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ایک قوم کو خلافت یا حکمرانی کا دیا جانا۔
دیگر مقامات پر اور خود تخلیق آدم کے واقعہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ملائکہ سے انسان کا تعارف خلیفہ کی اصطلاح سے کرایا ۔ ظاہر ہے کہ قرآن کریم ایک نہیں ۱۴ مقامات پر اس اصطلاح کو اس کی مختلف شکلوں میں استعمال کر رہا ہے تو اسے اسلامی اصطلاح ہی ہونا چاہئے۔یہ سوال اٹھانا بھی ہر غیرمسلم اور مسلمان کے لیے ممنوع نہیں کہ ’’کیا اسلام میں ریاست کا کوئی مذہب ہے؟‘‘ یا دوسرے الفاظ میں کیا اسلامی ریاست ایک سیکولر ریاست ہے؟ یا ایک وقت میں یورپ میں پائی جانے والی کلیسائی ریاست (Theocracy) کے مماثل ہے؟گو یہ سوال نہ تو نیا ہے اور نہ اس بات کا مستحق ہے کہ اسے ایک نئی بحث یا ردِّبیانیہ یا صرف بیانیہ کا عنوان دے کر ندرت خیال تصور کر لیا جائے۔ یہ بات سینکڑوں مرتبہ مستشرقین اور مغربی جامعات سے اسلامیات میں ڈاکٹریٹ کرکے آنے والے دانشور دہراتے رہے ہیں۔ غیرمحسوس طور پر وہ تجربی طریق تحقیق پر ایمان باالغیب لانے کے بعد اسی عینک سے اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو انہیں یا اسلام سیکولر نظر آتاہے یا تھیوکریٹک۔ اس لیے ہم نے یہ گزارش کی کہ اسلام اور ریاست کے موضوع پر ایک معروضی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔یہ مفروضہ کہ ’’اسلام کی دعوت اصلاً فرد کے لیے ہے‘‘ ایک بنیادی مغالطہ ہے۔ کم از کم قرآن کریم اور سنت مطہرہ اس تصور کو پیش نہیں کرتے۔ اسلام کا تصور عبادت دیگر مذاہب سے جوہری طور پر مختلف اس بنا پر ہے کہ یہاں مسئلہ محض ذاتی نجات کا نہیں ہے بلکہ اپنے ارد گرد کے افراد کی اصلاح اور اخروی کامیابی کی فکر کا ہے۔ اسلام کے تصور عبادت کی روح اجتماعیت میں ہے اور توحید کا مطالبہ ہے کہ کاروبار حیات کے تمام شعبوں میں اللہ کی حاکمیت اور حتمی اقتدار کو نافذ کیا جائے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اسلام فرد کا تو دین ہو لیکن جس نظام سیاسی میں وہ رہے وہ مشرکانہ، جاہلانہ یا مادہ پرست ہو۔ اگر ہم قرآن کریم سے اس کا جواب پوچھیں تو صاف طور پر یہ بات کہی گئی ہے مقتدرِ اعلیٰ صرف خدا کی ذات ہے۔ حاکمیت کا دائرہ اثر صرف ذاتی معاملات میں نہیں بلکہ یکساں طور پر سیاسی، معاشی، معاشرتی، ثقافتی، قانونی اور بین الاقوامی معاملات میں بھی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ مسجد میں تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اعظم، اعلیٰ اور اکبر ہو لیکن پارلیمنٹ میں پارلیمان اعلیٰ، اکبر اور اعظم بن جائے اور پارلیمان طے کرے کہ اسلام کےکس حکم کو ماننا اور نافذ کرنا ہے اور کس کو نظر انداز کر دینا ہے۔ نہ یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سبحانہ و تعالیٰ مسجد میں تو سجدہ کا مستحق ہو لیکن تھوک بازار میں کھوٹے سکے سجدے کے مستحق بن جائیں یا نام نہاد ثقافتی دنیا تہذیب کا معیار بن جائے۔اگر پھر بھی اصرار کیا جائے تو معروضی طور پر اس دور کے معروف مفسر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کی تالیف ’’اسلامی ریاست‘‘ کامطالعہ کر لیا جائے۔ کم از کم وہ حضرات جو مجازی طور پر انہیں کسی وقت اپنا استاد مانتے رہے ہوں اس کتاب کا مطالعہ ان کے تصور خلافت کے خطوط پر چھائی ہوئی دھند کو بآسانی دور کر دے گا۔یہ کہنا بھی کہ’’اسلام میں قومیت کی بنیاد اسلام نہیں ہے جس طرح کے عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ تحریک پاکستان کے مخالفین کا استدلال یہی تو تھا کہ مسلمان کوئی الگ قوم نہیں ہیں چنانچہ مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم، مولانا حسین احمد مدنی مرحوم اور جمعیت علماء ہند کے دیگر زعماء نے اس تعبیر پر ایمان رکھتے ہوئے انڈین نیشنل کانگریس کا ساتھ دیا جبکہ علامہ اقبال، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا عبد الحامد بدایونی اور مولانا مودودی نے مسلمانوں کے ایک الگ قوم ہونے کے تصور کی نہ صرف حمایت کی بلکہ مولانا مودودی نے اپنی کتاب ’’مسئلہ قومیت‘‘ میں جمعیت علماء ہند کے تصور قومیت کو قرآن و سنت کی روشنی میں رد کیا اور مسلم لیگ نے اس کتاب کو بڑے پیمانے پر ملک میں تقسیم کیا۔ مسلمانوں کے ایک قوم ہونے کے حوالہ سے قائد اعظم محمدعلی جناح کی ایسوسی ایٹڈ پریس امریکہ کے نمائندہ سے گفتگو تصور کی وضاحت کرتی ہے۔
The difference between the Hindus and Muslims is deep-rooted and ineradicable, we are a nation with our own distinctive culture and civilization, language and literature, art and architecture, names and nomenclature, sense of value and proportion, legal laws and moral codes, customs and calendar, history and traditions, aptitude and ambitions, in short we have our own distinctive outlook on life and of life. By any canons of international law we are a nation. [Interview to Preston Crom of Associated Press of America, Bombay, July 1, 1942, K.A.K Yusufi, edit, "Speeches, Statements and Messages of the Quaid-e-Azam", Lahore, Bazm-e-Iqbal, 1996, Vol III, P. 1578.
قرآن کریم اہل ایمان کو ایک دوسرے کا بھائی اور ایک سیسہ پلائی دیوار اور ــ’’خیر امت‘‘ یا ’’امت وسط‘‘ کے نام سے پکارتا ہے۔ اس امت کی بنیاد نہ رنگ ہے، نہ نسل، نہ زبان، نہ جغرافیائی سرحدیں۔ علامہ اقبال کی مولانا حسین احمد مدنی مرحوم پر شدید تنقید اور یہ سوال کہ ہند میں مسلمان سید بھی ہیں مرزا بھی ہیں افغان بھی ہیں لیکن یہ بھولے ہوئے ہیں کہ وہ مسلمان بھی ہیں، نسل اور ذات پر مبنی قومیت کے علمبرداروں کے موقف کو مسترد کرتا ہے۔قرآن کریم نے مختلف مقامات پر اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں کا تذکرہ کرکے اس غلط فہمی کی اصلاح کر دی ہے کہ ’’ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا‘‘ چنانچہ فرمایا گیا:’’یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ (نظام) نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔‘‘ (الحج ۲۲:۴۱)
ان چار اہم کاموں کو کون کرے گا؟ کون زکوٰۃ وصول کرکے تقسیم کرے گا؟ محصلین زکوٰۃ کا تقرر کون کرے گا؟ امر باالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انفرادی ہے تو پھر یہ کیوں کہا کہ جب انہیں اقتدار بخشیں گے تو وہ یہ کام کریں گے؟ تحقیق کی دیانت کا تقاضا ہے کہ خلط مبحث نہ کیا جائے اور قرآن کریم اور سنت مطہرہ کے واضح احکام کو بلا کسی دلیل کے مختلف فیہ نہ بنا یا جائے۔ اس طرزِ فکر کو نہ تو جدت سے اور نہ اجتہاد سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اختلاف رائے بلا شبہ امت کے لیے رحمت ہے لیکن جب تک وہ ادب اختلاف کے دائرہ میں ہو۔