شہر کراچی کے باسی اپنی ایک طویل تاریخ کے ساتھ ایک اذیت ناک زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ شہر کراچی وہ شہر ہے جو پورے ملک کی آبادی کا حسین گلدستہ کہاجاتا ہے۔ 1856ء میں یہ شہر57ہزار نفوس پر مشتمل تھا جبکہ قیام پاکستان کے وقت اس کی آبادی تقریباً 11لاکھ کے لگ بھگ تھی لیکن آج یہ شہر تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور انتقال آبادی کے باعث 3کروڑ کے لگ بھگ ہوچکا ہے۔ اس کے برعکس اگر ہم ترقیاتی منصوبوں اور ان پر خرچ ہونے والی رقوم کا تخمینہ لگائیں تو یہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ یہ ایک کثیر اللسان اور کثیرالنسل شہر ہے۔یہاں خیبر پختونخوا، بلوچستان، اندرونِ سندھ ، پنجاب اور اب جنوبی پنجاب سے بھی بڑا طبقہ آبادی کسب معاش کے لئے اس شہر کا رُخ کر رہا ہے۔ کچی آبادیاں تواتر سے قائم ہو رہی ہیں جو تمام تر سہولیات خواہ وہ فراہمی و نکاسی آب ہو، بجلی و گیس ہو ، اس سے فیضیاب بھی ہو رہے ہیں لیکن ماسٹر پلان میں یہ آبادیاں شامل نہ ہونے کے باعث ہر قسم کا بندوبست یہاں ناکام نظر آتا ہے۔ کے۔تھری کا منصوبہ جو فراہمی آب کے لئے کافی عرصے تک کے لئے بہت سمجھا جارہا تھا، اب کے۔فور اور کے۔فائیو کی ضرورت بھی اس شہر کو درپیش ہے۔ گلی کوچوں میں نکاسی آب کے گٹر ابلتے دکھائی دیتے ہیں۔ پانی کی بوند بوند کو شہری ترس رہے ہیں۔ کچی آبادیاں تو روشن ہیں لیکن باقاعدہ آبادی بجلی اور گیس سے محروم دکھائی دیتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس شہر کا المیہ یہ رہا ہے کہ یہاں مخصوص مفادات کے حصول کے لئے کبھی ریاستی ادارے تو کبھی لینڈ مافیا ، ڈرگ مافیا اور دیگر مافیاز ایسے حالات پیدا کردیتے ہیں کہ ان تکالیف کو بھلا کر عوام اپنے تحفظ کو ہی غنیمت سمجھتے ہیں۔ دنیا کے دس بڑے شہروں میں شمار کیا جانے والا شہر کراچی آج ٹریفک کے نظام سے ہی محروم ہوچکا ہے۔ ٹوٹی پھوٹی بسیں اور کچھ جگمگاتی سبز بسیں اس کی سڑکوں پر دوڑتی نظر آتی تھیں اب وہ بھی خواب ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔
1991ء میں اس شہر کے لئے ماس ٹرانزٹ منصوبہ منظور کیا گیا تھا لیکن افسر شاہی اور حکومتی تعصب کی نذر ہوگیا اور وہ آج تک روبہ عمل نہ لایاجاسکا۔ شہر میں سرکلر ریلوے، طلبا اور ملازمت پیشہ افراد کو کبھی بہتر سروس فراہم کیا کرتی تھی، لیکن آج اس کے راستے میں ناجائز تجاوزات ہیں اور ریاست کے پاس اتنی طاقت نہیں کہ وہ سرکلر ریلوے کو بحال کروا سکے۔ اس کے برعکس جاپان کو سرکلر ریلوے کی بحالی کے منصوبے پر معذرت کرنی پڑ گئی۔ جرائم کی بیخ کنی کرنے والا ادارہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ غیر مقامی افراد کے ہاتھوں میں ہونے کے باعث اپنے فرائض منصبی سرانجام دینے سے قاصر ہے جبکہ دوسری جانب اس شہر کا سیاسی نقشہ قیام پاکستان سے لے کر 80ء کی دہائی تک جمود کا شکار رہا۔ پاکستان کی دائیں بازو کی مذہبی سیاسی جماعتوں کا غلبہ اس شہر میں رہا لیکن ترقی کا کوئی ایک ایسا دور بھی نہیں گنوایا جاسکا جس میں یہ کہاجاسکے کہ کراچی نے شہری ترقی کی منازل طے کی ہیں۔
اس کے برعکس 1987ء میں ایک طالع آزما کے دور میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ایک نئی سیاسی جماعت نے قدم رنجہ فرمائے اور اس نے اس شہر سے دائیں بازو کی مذہبی سیاسی جماعتوں سمیت تمام سیاسی جماعتوں کا تقریبا ً صفایا کردیا اور اپنے پانچ سالہ بلدیاتی دور میں اس نے ثابت کیا کہ وہ بہتر طریقے سے عوام کو سہولیات فراہم کر سکتی ہے۔ اس کے بعد وہ سیاسی جماعت جس کا ذکر کیاجارہا ہے جسے ہم آج ایم کیو ایم کے نام سے جانتے ہیں وہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی پہنچی۔ اقتدار کا حصہ بھی رہی اور علیحدہ بھی رہی۔ اقتدار میں رہتے وقت بھی اور اس کے باہر بھی اسے بے اختیار ہونے کا شکوہ رہا جو اس لئے درست سمجھاجاتا ہے کہ جب دوبارہ 2005ء میں بلدیاتی نظام کی عنان ایم کیو ایم کے پاس آئی تو ا س نے کراچی، حیدر آباد، سکھر، میر پور خاص اور نواب شاہ میں بہتر انداز میں ترقیاتی کام سرانجام دئیے اور ایک ایسی مثال قائم کی جو آج تک برقرار ہے۔ اسی جماعت کا شکوہ ہے کہ اس کے کارکنان نادیدہ قوتوں کے ہاتھوں شدید تشدد کے بعد قتل کردئیے جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اپنے کارکنان کے اجلاس سے انتہائی بے تکلف خطاب میں اس بات کا عندیہ دیا کہ جہاں حکومت اس قتل و غارت گری کی ذمہ دار ہے وہیں پاکستان کے سلامتی کے اداروں کے بعض افراد بھی اس میں ملوث ہیں۔ وہ یہ بات بڑی سنجیدگی سے کہہ رہے تھے کہ کارکنان اور ہمارے سینوں میں پلنے والے طوفان کی پرورش ہمارے خون سے نہ کرو۔ اگر یہ طوفان پھٹ پڑا تو پھر کچھ نہیں بچے گا۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ سیاسی قیادت ہی اپنے کارکنان کو اعتدال پر رکھتی ہے اور اس کو انتہا پسندی کی جانب نہیں جانے دیتی لیکن اگر اس قسم کی کارروائیاں طول پکڑتی ہیں جس میں قتل کرنے والوں کا سراغ نہ لگایاجاسکا اور نوجوان گھروں سے اغوا یا گرفتار ہونے کے بعد قتل کیے جاتے رہے تو پھر قیادت ایک موقعے پر آکر بے بس ہوجائے گی جب متاثرہ لوگ خودرو پودوں کی مانند پرورش پائیں گے اور معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیں گے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کا یہ الزام کہ سلامتی کے اداروں کے بعض افراد اس قسم کی کارروائیوں میں ملوث ہیں جبکہ یہ ان اداروں کی شاید پالیسی نہ ہو لیکن ایسا ہو رہا ہے۔ اس بات میں وزن اس لئے ہے کہ ماضی میں بھی اس قسم کے معاملات ایم کیو ایم سمیت کئی سیاسی جماعتوں کے ساتھ رہے اور جب تاریخ اپنے جبر سے باہر آئی تو یہ راز عوام کے سامنے افشا ہوئے۔
اگر کراچی میں سیاسی ماحول کودرمانا ہے تو یہاں کی قیادت کو آزادی کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دینا ہوگی۔ بعض عناصر یہ بھی کہتے ہیں کہ کراچی میں سیاسی آزادی نہیں ہے جبکہ راقم کا یہ مشاہدہ ہے کہ جتنی سیاسی جماعتیں اس شہر میں کام کرتی ہیں پاکستان کے کسی شہر میں موجود نہیں۔ سب کے دفاتر بھی موجود ہیں۔ سب جلسے جلو س بھی کرتے ہیں ۔ انتخابات میں حصہ بھی لیتے ہیں، پھر بھی شکوہ کرتے ہیں۔ کراچی کے امن کیلئے صرف ایک جماعت کو موردِ الزام ٹھہرانا انصاف نہیں ہے۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ وسائل کی عدم دستیابی ، امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور آبادی کا بہت بڑا انتقال شہر کراچی کی جانب اس امر کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ بعض قوتیں شہر کراچی کو انتظامی بنیادوں پر تقسیم کرنا چاہتی ہیں اور وہ بڑے شہر ہونے کا سہارا لے کر بہتر نظم و نسق فراہم کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے اس شہر کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔