فضول بحث ہے کہ جلسہ کتنا بڑا تھا۔اصل بات یہ ہے کہ جلسہ بھی تاریخی تھا اور جذبہ بھی۔کبوتر بلیوں اوربلوں کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلے تو یہ اس کی مرضی کہ آنکھیں بھی اس کی، انجام بھی اس کا۔ میں تو صرف اتنا سوچ رہا ہوں کہ کہیں یہ سب کسی انجام کا آغاز تو نہیں کیونکہ عوام کا موڈ، مزاج اور تیور تبدیل ہوچکے ہیں اور جب ایسا ہو جائےتو تبدیلی ناگزیر ہو جاتی ہے اور بے شک وہ انسانوں میں دنوں کو پھیرتا رہتا ہے اور بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ ’’اَت خدا دا ویر‘‘ ہوتا ہے اور اس کی جدید شکلیں یہ ہیں کہ مفلوک الحال عوام کے کروڑوں روپے اپنے گھروں کی حفاظتی دیوار میں چن دیئے جائیں اور یہ خبر بھی لرزا دینے والی ہے کہ شاہی خاندان نے گزشتہ 8 سال میں صرف اپنی سیکورٹی کی مد میں اس غریب ملک کے 7ارب 41کروڑ 48لاکھ روپے خرچ کئے یعنی غیرمحفوظ عوام کو اپنے ایک حکمران خاندان کی حفاظت تقریباً ایک ارب روپے سالانہ میں پڑی تو یہ ہیں ’’اَت خدا دا ویر‘‘ کی جدید ڈرائونی جمہوری شکلیں تو میں سوچ رہا ہوں کہ ڈریکولا نے اپنی پوری افسانوی زندگی میں زیادہ سے زیادہ کتنے انسانوں کا خون پیا ہوگا؟جلسے میں جو ویڈیوز چلائی یا دکھائی گئیں ان میں کوئی نیاپن نہیں تھا لیکن جس انداز میں ٹھہر ٹھہر کر عمران خان نے اپنی کومنٹری کے ساتھ شاہی تضادات، جھوٹ در جھوٹ در جھوٹ کو نمایاں کیا، اس کا امپیکٹ ہی اور تھا۔ خود مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں دروغ گوئی کی یہ داستان پہلی بار دیکھ اور سن رہا ہوں۔ اس کے بعد عمران خان کا کہنا کہ یہ ’’پاناما‘‘ الزام نہیں ثبوت ہے اور یہ ’’اوپن اینڈ شٹ‘‘ کیس ہے..... آپ ایسی سچائی ہے جسے جھٹلانے کے لئے تاریخی قسم کی ڈھٹائی اور بے شرمی درکار ہوگی۔مجھے خوف ہے کہ اگر اب بھی یہ معاملہ اپنے منطقی انجام کو نہ پہنچا تو لوگوں کااپنے اداروں کیا ریاست ہی سے ایمان اُٹھ جائے گا جس سے بڑی ٹریجڈی ممکن ہی نہیں لیکن میرا وجدان کہتا ہے کہ میزان عدل کب کا اٹھ چکا۔ قدرت اک عرصہ سے حرکت میں ہے اوریہ حرکت ایسی ہے جیسے سلوموشن میں چاند یا سورج کے طلوع و غروب کا پراسرار عمل مکمل ہوتاہے، جیسے کوئی کونپل پھوٹتی ہے، پھول کھلتا ہے، نئی شاخ نکلتی ہے یا گلیشیر پگھلتے پگھلتے اس طرح معدوم ہو جاتا ہے کہ آپ لگاتار دیکھنے کے باوجود اسے دیکھ نہیں پاتے۔ انجام کا آغاز تو تب ہی ہو گیا تھا جب نیم مردہ بلکہ مردہ تحریک ِ انصاف میںجان پڑنا شروع ہوئی۔ یہ کسی معجزہ سے کم نہیں تھا لیکن اسے دیکھنے کے لئے کسی تیسری آنکھ کی ضرورت تھی۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی بری طرح فلاپ ہوچکی فلم سیکنڈ، تھرڈ، فورتھ یا ففتھ رن میں سپرہٹ ہوگئی ہو۔ ہم جیسے ملکوں میں سیاسی پارٹی بنتے ہی فلاپ ہو جانے کے بعد بھی ٹیک آف نہیں کرتی..... پیپلزپارٹی بن جاتی ہے یا تحریک استقلال کی طرح تاریخ ہو جاتی ہے۔ مردہ تحریک ِ انصاف نے جب مینار ِ پاکستان پر پہلی توبہ شکن انگڑائی لی تھی، ن لیگ کو اسی وقت چونک جانا چاہئے تھا، اپنے اعمال کو ’’ری وزٹ‘‘ کرنا چاہئے تھا، اپنے رویوں پر نظرثانی کرنی چاہئے تھی لیکن طاقت، مقبولیت اور اجارہ داریت کے نشے میں دھت ن لیگ مست رہی اور اب بھی اپنے آپ کو مسلسل دھوکہ دے رہی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ ان کی نچلی صفوں میں سخت بے چینی اور ہلچل ہے لیکن اعلیٰ قیادت کے اطوار میں تکبر اسی طرح موجود ہے اور اگر رویئے تبدیل نہ ہوئے، ترجیحات کا ازسر نو تعین نہ کیا گیا تو اگر پیپلزپارٹی اس المناک انجام سے دوچار ہوسکتی ہے تو ن لیگ کس کھاتے میں؟ کیونکہ پیپلزپارٹی کی جڑیں ن لیگ سے زیادہ گہری اور مضبوط تھیں۔کبھی میں نے پیپلزپارٹی کیلئے لکھا تھا ’’ترا لٹیا شہر بھمبور نی سسیئے بے خبرے‘‘ آج یہی کچھ ن لیگ کے لئے لکھ رہا ہوں۔ بینظیر بھٹو اس اعتبار سے خوش بخت تھی کہ زوال دیکھنے سے پہلے زندگی سے گزر گئی کیونکہ خود اپنی آنکھوں سے اپنا زوال دیکھنا، خود اپنی قبر پر پھول چڑھانا بہت اذیت ناک ہوتا ہے۔ مجھے جب کوئی کسی کی خوش نصیبی بارے کچھ کہتا ہےتو میں ہمیشہ یہی جواب دیتا ہوں کہ ...... ’’دعا کرو اس خوش نصیب کا انجام بھی بخیر ہو،‘‘ انجام دیکھے بغیر کسی پر ’’خوش نصیبی‘‘ کا ’’الزام‘‘ لگانا عجلت پسندی ہے۔میرے قارئین روز ِ اول سے جانتے ہیں کہ میں ہمیشہ سے سیاست میں ’’تیسری قوت‘‘ کا حامی رہا کہ اگر صرف دو قوتیں ہوںتو لوگوں کے پاس چوائس بہت محدود ہونے کے نتیجہ میں وہ بلیک میلنگ پر اتر آتی ہے۔اپنے ہی لوگوں کے لئے فرعون بن جاتی ہیں۔ پیپلزپارٹی کے بعد تو ن لیگ کی مکمل مناپلی تھی اور اب اگر یہ بھی پیپلزپارٹی کے نقش قدم پر چل نکلی تو نتیجہ؟؟؟؟تحریک انصاف کی مستند ترین مقبولیت کے ساتھ ساتھ ’’پاناما‘‘ ہی نہیں سانحہ ماڈل ٹائون کی 14 لاشیں بھی میرے دھیان میں ہیں تو حکمران دھیان کریں اور سوچیں کہ یہ سب سلوموشن میں انجام کا آغاز تو نہیں؟
.