• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جی ہاں، جس جلسے کا ہم ذکر کرنے جا رہے ہیں وہ کہیں اور نہیں پاکستان میں اور وہ بھی جاتی امرا میں وزیراعظم کی رہائش گاہ کے قریب منعقد ہو رہا تھا۔ ایسی اشتعال انگیز اور ایسی گمراہ کن مغلظات سننے کو ملیں گی، تو تحریکِ انصاف کے رائے ونڈ مارچ میں بطور صحافی جانے کی کوفت کیوں اُٹھاتا۔ ایسے میں جب لائن آف کنٹرول کے ساتھ ساتھ (Along the LOC) 250 کلومیٹر کے فاصلے پر 25 کلومیٹر علاقے میں LOC کی تاریخ میں سب سے بڑا شب خون مارا گیا ہو اور پاک افواج مزاحم ہوں تو کون ہے جو اپنے ملک کے کمانڈر انچیف (وزیراعظم) پر ’’بھارت اور را کا ایجنٹ‘‘ ہونے کا الزام لگائے؟ جی ہاں ایسے بدزبان، بدطینت اور پاگل لوگوں کی کمی نہیں۔ تحریکِ انصاف کے رہنمایانِ کرام تو اشاروں اور کنایوں میں اِسی قسم کی ہذیاں رسانی کرتے رہے۔ لیکن جو بھونپو اُنھوں نے سر کا تاج بنایا ہوا ہے، اُس نے تو کوئی حد نہ چھوڑی۔ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والا یہ بلند آہنگ نقادآمر حکومتوں کا حصہ رہا ہےاور جس کے ذمہ مخالف سیاستدانوں کی کردار کشی کی ڈیوٹی دہائیوں سے ہے، اُس نے وزیراعظم نواز شریف کا نام لے لے کر اُنھیں ’’بھارت، مودی اور را کا ایجنٹ‘‘ قرار دیا۔ اور آدھے ٹانگے کی پارٹی کا یہ لیڈر عمران خان سے وزیراعظم کی رہائش گاہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی اجازت طلب کرتا رہا۔ اُس نے وہی سازشی نظریہ دہرایا جو بہت سے خفیہ تنخواہ دار میڈیا پہ دہراتے ہیں کہ وزیراعظم پاکستان بھارت کے وزیراعظم مودی سے ملے ہوئے ہیں۔ وہ بھارتی سرمایہ داروں کے کاروبار میں حصہ دار ہیں اور یہ کہ بھارت اُن مواقع پر دبائو بڑھاتا ہے جب میاں نواز شریف مشکل میں ہوتے ہیں۔ البتہ فرزندراولپنڈی اس درفنطنی سے بھی باز نہ آیا کہ تحریکِ انصاف کی ریلی کو روکنے کے لئے وزیراعظم کے ایما پر لائن آف کنٹرول کو گرمایا گیا اور یہ تسلسل سے ہو رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے باقی رہنمائوں نے بھی کسر تو کوئی نہ چھوڑی، لیکن وہ اُس حد تک نہ گرے۔ البتہ شاہ محمود قریشی ٹھنڈے مزاج اور متین رویے کے باوجود آپے سے باہر ہوئے جا رہے تھے اور جانے کس قسم کے بچگانہ چیلنج دے رہے تھے کہ معلوم ہو کہ اصل میں وہ ہی ہیں جو بھارت کو کشمیر کی وکٹ پر شرمندہ کر سکتے ہیں۔ اور ہمیں معلوم ہے کہ جناب قریشی صاحب سے زرداری حکومت میں وزارتِ خارجہ کا قلمدان کیوں واپس لیا گیا تھا۔ البتہ عمران خان کا سارا زور پاناما لیکس کی کرپشن پر تھا اور اُنھوں نے وزیراعظم کے خاندان کے خلاف اپنے تئیں سارے ثبوت اسکرین پر پیش کرتے ہوئے مبینہ کرپشن کے کیس پر اپنی عوامی عدالت لگا کر فیصلہ بھی صادر فرما دیا۔ مودی سے اپنی ملاقات کا ذکر بھی اُنھوں نے کیا لیکن دھیمے اور میٹھے انداز میں اور ان باتوں کا بھی جو اُن کے مابین ہوئیں۔ امن کی آشا کا اظہار کرتے ہوئے اُنھوں نے پاک فوج کے شانہ بہ شانہ دفاعِ وطن کا عہد بھی کیا (بہت خوب!)۔ لیکن جو بم عمران خان نے آخر میں چھوڑا وہ یہ تھا کہ جلسے ختم اور محرم کے بعد حکومت چلنے نہیں دیں گے جس کے لئے اسلام آباد میں حکومت کو گرانے کی کال وہ جلد دیں گے۔
یہ امر باعثِ تشویش ہے کہ خود عمران خان نے نام لئے بغیر سامعین سے پوچھا کہ وہ دو چینل کون سے ہیں جو بکے ہوئے ہیں اور جواب میں کچھ نام آئے۔ کیا عمران خان الطاف حسین کی طرح اپنے کارکنوں کو مجوزہ چینلز پر حملے کے لئے اُکسا رہے تھے؟ اُن بہروپیوں اور کرائے کے مبصرین اور خفیہ تنخواہوں پر کام کرنے والے حضرات کے بارے میں اُن کا کیا کہنا ہے جو ’’مفت‘‘ میں نہ صرف اُنھیں بے تحاشہ کوریج دیتے ہیں اور اُسی طرح کے سازشی اور گمراہ کُن نظریات پیش کرتے ہیں جس کا اظہار شیخ رشید کرتے رہتے ہیں اور اُنھیں خصوصی طور پر بلوایا بھی جاتا ہے کہ گالی گلوچ میں اُن کا کوئی ثانی نہیں۔ یہ تو کھلی فسطائیت ہے خان صاحب جبکہ آپ صبح و شام مغرب کی جمہوریت کی مالا جپتے نہیں تھکتے۔
قطع نظر اس کے کہ مقررین نے کیا ہذیان ہے جو نہیں بکا، عمران خان کرپشن اور پاناما لیکس میں وزیراعظم کے خاندان کے ملوث ہونے کو ایک بڑا عوامی ایشو بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ یقینا کرپشن کے بڑے سوراخ بند کرنے سے قومی ذرائع کا ضیاع رُک سکتا ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ اس سے پاکستان اور اس کے عوام کی ان گنت ضروریات پوری ہو سکیں گی، لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے والی بات ہے۔ کرپشن افراد کا کم نظام کا معاملہ زیادہ ہے، جسے ٹھیک کرنے کی طرف کوئی سنجیدگی سے پیش قدمی نظر نہیں آتی۔ یہ فقط ایک اخلاقی (Moralist) پاکیزگی کا نعرہ بن کے رہ گیا ہے جو پارسا لوگوں کو تو خوب بھاتا ہے جس کا تعلق متوسط طبقے سے ہے، لیکن لٹے پٹے عوام کے لئے تحریکِ انصاف کے پاس نہ تو کوئی پروگرام ہے، نہ نعرہ۔ میں تحریکِ انصاف کے کارکنوں کے ساتھ بہت گھلا ملا، اُن سے پوچھا کہ تم کیا چاہتے ہو، کسی کے پاس سوائے اس کے کوئی بات کرنے کو نہ تھی کہ ہم عمران خان کے ساتھ ہیں۔ لیڈر سے اتنی والہانہ وابستگی میں نے بھٹو صاحب اور بے نظیر شہید کے بعد پہلی بار دیکھی۔ لیکن اِس فرق کے ساتھ کہ بھٹو کے جیالوں کے پاس ایک نیم سوشلسٹ عوامی نظریہ تھا اور وہ جمہوری کایا پلٹ کے داعی تھے۔ جو بات عمران خان کے لئے باعثِ طمانیت ہونی چاہئے کہ بار بار ایجی ٹیشن کے باوجود اُن کے ماننے والے تھکے نہیں اور وہ پھر سے اسلام آباد پہ یلغار کے لئے فائنل شو ڈائون کے لئے تیار ہوں گے۔
جلسہ بہت پُرجوش تھا اور ملک کے ہر کونے سے لوگ آئے تھے، کہیں سے کم کہیں سے زیادہ۔ تین تین لائنوں والی ڈبل سڑک پہ یہ لامتناہی سلسلہ تھا۔ اور یہ کہ کار والوں کی قطاریں تھیں کہ موٹروے بھی جام ہو کر رہ گیا۔ کار والوں کے اضافے سے ظاہر ہوا کہ پنجاب کے خواص کا بڑا حصہ اب عمران خان کی جانب راغب ہو گیا ہے۔ غریب غربا کم کم نظر آئے۔ جس علاقے میں یہ ریلی کی گئی، وہاں کے لوگوں نے کمال مہمان نوازی کی انتہا کر دی۔ ہزاروں لوگوں کو اُن لوگوں نے ٹھہرایا جن کے رائے ونڈ کے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے علاقے میں یا تو فارم ہیں یا پھرجن کی دُکانیں اور گھر سڑکوں کو کشادہ کرنے کے لئے بار بار گرائے گئے ہیں اور جنھیں معاوضہ بھی واجبی ادا کیا گیا ہے۔ تاریخ کی آنکھ نے ایک بے مقصد تحریک کبھی کبھار دیکھی ہوگی۔ کاش اسے روشن آنکھیں اور کھلا جمہوری ذہن بھی دستیاب ہوجائے۔ ایک بات جو کھل کے سامنے آ گئی ہے وہ یہ ہے کہ عمران خان اب پنجاب میں شریف راج کےلئے واحد چیلنجر ہیں کہ پیپلز پارٹی ماضی کی شاندار یادوں میں کہیں گم ہو کر رہ گئی ہے۔ وقت قومی اتحاد اور جمہوری تسلسل کا ہے۔ یہ رہے گا تو عمران خان وزیراعظم بن پائیں گے وگرنہ وہ بھی ایک مذاق بن کر رہ جائیں گے۔ اور عمران خان کو یاد رکھنا چاہئے کہ اگر وہ بھی کل وزیراعظم بن جائیں اور انھیں کوئی غدار قرار دے تو میں اِسی بات کا اعادہ کروں گا جو میں نے وزیراعظم نواز شریف کے حوالے سے کہی ہے۔ شرم کی بھی کوئی انتہا ہوتی ہے وگرنہ بے شرمی کو شرم آنے سے رہی۔

.
تازہ ترین