افغانستان کی تعمیروترقی میں عالمی برادری کو شریک کرنے اور اسکا تعاون حاصل کرنے کیلئے چار اور پانچ اکتوبر کو یورپی یونین اور افغان حکومت مشترکہ طور پر برسلز کانفرنس کی میزبانی کرینگے۔ اعلیٰ نمائندگی رکھنے والی اس عظیم کانفرنس میں70سے زائد ممالک اور بیس عالمی تنظیموں کی شرکت افغانستان کی سیاسی اور معاشی طور پر ترقی کا ایک نیا باب رقم کرے گی۔ یورپی یونین ہائی ریپریزنٹیٹو فار فارن افیئرز اینڈ سیکورٹی پالیسی ؍یورپی کمیشن کی نائب صدر، فیڈیریکا موگرینی(Federica Mogherini) اور افغان صدر، اشرف غنی کی دعوت پر پاکستان کی نمائندگی وزیرِاعظم کے مشیر برائے امور خارجہ، جناب سرتاج عزیز کرینگے۔ اقوام ِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون اور امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ، جان کیری بھی اس کانفرنس میں شرکت کرینگے۔
اپنے مغربی ہمسائے، افغانستان سے پاکستان کے تعلقات بہت اہمیت کے حامل ہیں، نیز خطے کے استحکام کیلئے ان کی ضرورت ناگزیر ہے۔ پاکستان ایک طویل عرصے سے افغان عوام کی حمایت کررہا ہے۔ اس نے ہر قدم پر افغان عوام سے دوستی کا ثبوت دیا ہے۔ ان دونوں ممالک کے انسانی، معاشی اور ثقافتی سطح پر تعلقات یہ احساس دلاتے ہیں کہ انہیں اپنے روشن مستقبل کیلئے مل کر کام کرنا چاہئے۔ افغانستان کا استحکام اور خوشحال اور محفوظ پاکستان لازم و ملزوم ہیں۔ یورپی یونین افغانستان میں ایک فعال کردار ادا کررہی ہے۔ اس کی طرف سے افغانستان کو 2014-2020کے دوران ملنے والی ترقیاتی امداد کا حجم 1.4بلین یورو(1.6بلین ڈالر) ہے۔ اپنی رکن ریاستوں کے تعاون سے، یورپی یونین کی طرف سے افغانستان کو سالانہ ایک بلین یورو(1.1بلین ڈالر) کی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، یورپی یونین افغانستان میں پائیدار امن، سیکورٹی اور جمہوریت کو یقینی بنانے کیلئے اس کے اداروں کی تعمیر میں بھی سیاسی طور پر اپنا کردار ادا کررہی ہے۔ اس سلسلے میں ہماری ترجیحات طویل مدتی معاشی ترقی کیلئے مناسب ماحول پیدا کرنا، تعلیم اورصحت کے نظام کو ترقی دینا، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے تصورات کو آگے بڑھانا ہے۔ برسلز کانفرنس کی توجہ تین مختلف، لیکن مربوط پہلوئوں پر مرکوز رہے گی:پہلا، نئی ملنے والی عالمی فنڈنگ کو2020 تک یقینی بنانا، اور افغان قومی امن اور ترقی کے فریم ورک کی حمایت کرنا ہے۔ آنے والے برسوں میں عالمی برادری کی طرف سے اس عزم کا تسلسل افغانستان میں امن، استحکام اور اصلاحات کے عمل کی نئی راہ کھولے گا۔ افغان عوام، خاص طور پر نوجوان نسل کو اپنے ملک کے محفوظ مستقبل کی یقین دہانی کرانا ضروری ہے۔ غربت کو کم اور معاشی امکانات کو بڑھاتے ہوئے آبادی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کیلئے علاوہ اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ افغان لڑکے اور لڑکیاں اسکول جائیں اور ان کی بنیادی صحت کی سہولتوں تک رسائی ہو۔ درحقیقت ہم نے حالیہ برسوں کے دوران ملک کے بہت سے قابل ذکر حصوں میں اہم پیش رفت دیکھی کہ وہاں تعلیم اور صحت کی سہولتوں میں بہتری آئی ہے۔
عالمی برادری کو دوسرا پرعزم وعدہ یہ کرنا ہوگا کہ وہ قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق اور انسداد ِ بدعنوانی، جو کہ طویل مدتی ترقی اور استحکام کی ضمانت ہیں، کیلئے ضروری اصلاحات لانے میں افغان حکومت کی مدد کرے گی۔ افغان عوام کے حال اور مستقبل کی بہتری کیلئے یہ اصلاحات ناگزیر ہیں۔ افغان ریاست کی تعمیروترقی کیلئے سیاسی استحکام، جمہوری طریقے سے قائم ہونے والی حکومت اور اس عمل پر عوام کا اعتماد درکار ہے۔ اب یہ افغان حکومت اور اس کے شہریوں پر ہے کہ وہ ان ضروری اصلاحات کا تعین کریں اور انتخابی ٹائم لائن مقرر کریں تاکہ منصفانہ اور قابل ِ اعتماد انتخابات کا انعقاد ممکن بنایا جا سکے۔ اصلاحات کے ایک مربوط ایجنڈے کے ذریعے افغانستان نے پہلے ہی انسانی حقوق کے میدان میں اہم پیش رفت کے علاوہ قانون کی حکمرانی اور بدعنوانی کے خاتمے کیلئے خاطرخواہ اقدامات اٹھائے ہیں مگراس کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ ان کوششوں کو جاری رکھنے اور ان کے ٹھوس نتائج کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کرتی رہے۔
آخر میں، اس کانفرنس کا تیسرا پہلو علاقائی حمایت پر فوکس کرے گا تاکہ ملک کو درپیش سیکورٹی کے مسائل سے نمٹا جاسکے۔ سیکورٹی اور پائیدار ترقی کا عمل باہم مربوط ہیں۔ افغانستان کی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے یورپی یونین اس کے علاقائی تعاون کو فروغ دینے کی اہمیت سے واقف ہے، اور یہ بات اس کے ایجنڈے میں سر ِ فہرست ہے۔ افغانستان کے ہمسایوں، بشمول پاکستان، کی حقیقی حمایت اور تعمیری کردار اس خطے کو محفوظ اور خوشحال بنانے کیلئے ضروری ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے عوام کے درمیان سیاسی، معاشی اور ثقافتی روابط مضبوط بنانے کا دونوں ملکوں کو زبردست فائدہ ہوگا۔ دنیا کو درپیش بہت سے مسائل، جیسا کہ دہشتگردی، غیرقانونی تجارت، اسمگلنگ، انسانی اسمگلنگ وغیرہ سے مل کر ہی نمٹا جاسکتا ہے۔ اسی طرح توانائی اور پانی کی تقسیم اور ماحولیاتی تحفظ کیلئے بھی مربوط کوششیں درکار ہیں۔ خطے میں اعتماد سازی اور علاقائی تعاون کے مثبت اشارے موجود ہیں۔ TAPI پائپ لائن اور CASA 1000 بجلی پیدا کرنے کے منصوبے اس تعاون کو ایک ٹھوس شکل دیتے ہیں۔
افغانستان کے استحکام اور ترقی کیلئے درکار مشترکہ کوششوں میں پاکستان اور یورپی یونین کا سیاسی اور معاشی طور پر کردار بہت اہم ہے۔ افغانستان کو نظرانداز کرنا، یا کوششوں میں کمی لانا حاصل کردہ نتائج کو ضائع کرنے کے مترادف ہوگا۔ اس سے پیدا ہونیوالا منفی ردِعمل کسی نہ کسی طریقے سے پاکستان کی سیکورٹی کو متاثر کرے گا۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ سیکورٹی کے بغیر کوئی ترقی ممکن نہیں۔ چنانچہ کوتاہ بینی، اور محدود امکانات کو دیکھنا کسی کے مفاد میں نہیں۔ افغانستان پر ہونیوالی برسلز کانفرنس ایک ایسا منفرد موقع پیش کررہی ہے جسے ضائع نہیں جانا چاہئے۔ اس کانفرنس میں صرف چند ایک ممالک نہیں بلکہ عالمی برادری کا ایک بڑا حصہ شریک ہورہا ہے، تاکہ افغانستان کی سیکورٹی، امن، استحکام اور پائیدار معاشی ترقی کو یقینی بنایا جاسکے، اور اس عمل کے اثرات خطے کے دیگر ممالک تک بھی پہنچائے جائیں۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کا تعمیری اور پرعزم فعال کردار افغان عوام، افغان حکومت، غیر حکومتی عناصر اور دیگر عالمی برادری کو وسیع تر پیغام دےگا۔ یہ کانفرنس علاقائی امن اور تعاون کا ایک اہم سنگ ِمیل ہے۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستان سب سے زیادہ اس بات سے آگاہ ہے کہ اس ضمن میں ناکامی سے کیا خطرات لاحق ہوںگے اور ایک مستحکم اور پرامن ہمسائے سے کیا فائدہ حاصل ہوگا۔ ہم اس منزل کے حصول کیلئے مل کر کام کرنے کیلئے پرعزم ہیں۔
( صاحب مضمون پاکستان میں یورپی یونین کے سفارتکار ہیں)
.