• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نئی دہلی ریاستی انتخابات کے غیر متوقع نتائج نے مودی سرکار کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ نریندر مودی بی جے پی کی شناخت بن چکے ہیں بھارت میں اب بی جے پی کو مودی کی وجہ سے جانا جا رہا ہے ۔حالیہ لوک سبھا کے انتخابات میں مودی کی قیادت میں بی جے پی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اس کے بعد مہاراشٹرا ، ہریانہ کے ریاستی انتخابات میں بھی بی جے پی نے مخالف جماعتوں کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا اور جموں و کشمیر کے انتخابات میں بھی دوسری بڑی جماعت کے طور پر اُبھر کر سامنے آئی ۔ مقبوضہ جموں کشمیر کے انتخابات میں واضح اکثریت نہ ملنے کے باوجود مودی یہ پراپیگنڈا کرتے رہے کہ مقبوضہ جموں کشمیر کے چناؤ میں 70 فیصد سے زائد لوگوں نے حق رائے دہی استعمال کرکے ثابت کردیا ہے کہ وہ نہ صرف بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں بلکہ سسٹم کا حصہ بننا چاہتے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے ریاستی انتخابات میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت نے پولنگ اسٹیشن کا رُخ اس لئے کیا کہ کہیں بھارتیہ جنتا پارٹی وادی میں اپنی حکومت نہ بنالے ۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد ایک بار پھر دو قومی نظریہ مضبوطی سے اُبھرا ہے ۔ مقبوضہ جموں کشمیر کے ریاستی انتخابات میں مسلمان اکثریت والے تمام حلقوں سے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کے اُمیدواروں نے کامیابی حاصل کی اسی طرح ہندو اکثریت والے حلقوں سے ہندوئوں کی نمائندہ جماعت کے اُمیدوار کامیاب ہوئے ۔
دہلی کے ریاستی انتخابات نے مودی سرکار کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے ۔بھارتیہ جنتا پارٹی کو تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ عام آدمی پارٹی جسے بنے ہوئے صرف دو سال ہوئے ہیں اس نے حیران کن نتائج دے کر پورے بھارت میں ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ۔ کیجروال کی جماعت نے ریاستی اسمبلی کی 70 میں سے 67 نشستوں پر کامیابی حاصل کی بھارتی جنتا پارٹی صرف 3 نشستوں تک محدود رہ گئی ۔ کانگریس جو 100 سال سے بھی زائد عرصے تک بھارت کی سیاست پر چھائی رہی دہلی میں اُس کا مکمل صفایا ہو گیا ۔ BJP کی نامزد وزیر اعلیٰ کرن بیدی بھی اپنی نشست نہ بچا سکیں ۔ تاریخی شکست کے بعد کرن بیدی نے ایک پریس کانفرنس کی اور تمام ذمہ داری بھارتیہ جنتا پارٹی پر عائدکردی ۔ بی جے پی کی عبرتناک شکست پر بھارتی میڈیا پر ہونے والے بحث و مباحثے سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی سرکار کی غلط پالیسیوں کے باعث دہلی کے عوام نے اُنہیں مسترد کردیا ہے۔ مسلمانوں سمیت اقلیتوں نے بی جے پی کی ہار میں بھرپور کردار ادا کیا ۔دہلی کے انتخابات میں عبرتناک شکست کے بعد مودی کے تھنک ٹینکس نے سوچ وچار شروع کردیا ہے کہ دہلی کی عوام نے ہمارے امیدواروں کو کیوں مسترد کیا ہے ۔ حالانکہ الیکشن سے پہلے عام آدمی پارٹی کے مضبوط اُمیدواروں کو چمک دکھا کر خریدا گیا لیکن وہ بھی الیکشن ہار گئے ۔ یہ تمام صورتحال مودی کےلئے انتہائی پریشانی کا باعث ہے ۔ مودی آج کل اپنے سیاسی و سیکیورٹی مشیران سے تفصیلی صلاح و مشورہ کر رہے ہیں اور پلاننگ میں مصروف ہیں کہ کیسے کھوئی ہوئی ساکھ بحال ہو سکے ۔عام آدمی کو سہولتیں فراہم کرنے کے لئے کیسے پروگرام شروع کئے جائیں ۔ دہلی کے الیکشن میں مختلف ایشو کے ساتھ یہ معاملہ بھی اُٹھایا کہ بھارت کی نسبت پاکستان میں پیٹرول زیادہ سستا ہے ۔ مرکزی سرکار عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود عام آدمی کو وہ ریلیف نہیں دے رہی جو اُن کاحق ہے۔
مودی کو اُن کے مشیران ایک حساس اور خطرناک مشورہ دے رہے ہیں جس کا تعلق پاکستان کے ساتھ ہے ۔ جس پہ بھارتی میڈیا میں بالعموم جبکہ بین الاقوامی میڈیا میں بالخصوص تبصرے کئے جا رہے ہیں ۔ مودی کو تجویز دی گئی ہے کہ اگر بھارت میں بمبئی طرز کے دوبارہ حملے ہوں جس کے جواب میں بھارت پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کرے اور خطے میں اپنی طاقت منوائے اگر ایسا ہوتا ہے تو بھارت میں رائے عامہ مودی سرکار کے حق میں ہو سکتی ہے ۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ یہ اسٹرائیکس آزاد کشمیر تک محدود کرنے کی تجویز ہے ۔ کراچی کی بندرگاہ کا محاصرہ کرنے کی بھی تجویز زیرِغور ہے جب یہ ایشو عالمی سطح پر شدت اختیار کرجائے تو عالمی طاقتوں کی مداخلت کے بعد پاکستان کے ساتھ معاملات طے کئے جائیں ۔ اس سارے منصوبے کے بارے میں امریکہ کے سابق سفارتکار سٹیفن کوہن اور بلیک ویل اپنی ایک رپورٹ میں خدشات کا اظہار کر چکے ہیں ۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مودی سرکار کو فوج کی طرف سے ایک بریفنگ دی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں آئندہ ہونے والے دہشت گرد حملوں میں پاکستان کے ملوث ہونے کے بارے میں کوئی بھی شواہد ملتے ہیں تو بھارت کو پاکستان پر حملہ کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہئے۔ اس رپورٹ میں ان سفارتکاروں نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی شہریوں کی رائے میں بھی تبدیلی آئی ہے وہ بھی طاقت کے استعمال کو موثر سمجھتے ہیں ۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایسا ہونا انتہائی خطرناک ہو گا اور خطے میں ایٹمی جنگ ہونے کے خدشات انتہائی حد تک بڑھ جائیں گے ۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق بی جے پی کی قیادت میں شامل اہم رہنمائوں نے پاکستان کے ساتھ انتہائی حد تک قدم اُٹھانے کی مخالفت کی ہے ۔ اُن کا موقف ہے کہ پاکستان کی سول و فوجی قیادت یہ کبھی بھی قبول نہیں کرے گی کہ بھارت ایسا قدم اُٹھائے پاکستان بھرپور جواب دے گا اور بات ایٹمی جنگ تک جاپہنچے گی جو کہ بھارت کی ترقی کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ بحرحال اطلاعات ہیں کہ مودی ابھی تک کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچے لیکن یہ قوی امکان ہے کہ بھارت میں دہشت گردی کا کوئی بڑا واقع کروا کر اُس کا الزام پاکستان پر عائد کردیا جائے ۔
امریکی صدر باراک اوباما نے وزیر اعظم پاکستان کو فون کیا ہے اس فون میں اُنہوں نے علاقائی صورتحال کے حوالے سے نہ صرف تبادلہ خیال کیا بلکہ اپنے دورہ بھارت کے حوالے سے بھی وزیراعظم پاکستان کو اعتماد میں لیا ۔ امریکی صدر نے خطے میں کشیدگی کے خاتمہ کے لئے بھی بھرپور کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے ۔امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان اوربھارت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لایا جائے۔ اطلاعات ہیں کہ امریکہ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان بداعتمادی ختم کرنے کے لئے سنجیدہ کوششیں شروع کر دی ہیں ۔ اس حوالے سے ڈپلومیسی کا آغاز ہو چکا ہے ۔ جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ چند روز پہلے تک پاکستان کے ساتھ بات چیت سے انکاری مودی پاکستان کے ہم منصب نوازشریف کو فون کرتے ہیں اور اپنے سیکرٹری خارجہ کو پاکستان بھجوانے کا عندیہ دیتے ہیں۔بہر حال یہ خطے اور پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے اہم پیش رفت ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بھارت میں موجود پاکستان مخالف طاقتوں کا مودی پر اثر کم ہوگیا ہے۔اس تمام صورتحال کے پیش نظرمودی سرکار کو جذبات کی بجائے ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے ۔ اپنی غلط پالیسیوں کے باعث گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لئے خطے میں جارحانہ رویہ اپنانے سے باز رہنا چاہئے۔ دہشت گردی اب ایک عالمی مسئلہ ہے ایک دوسرے کے خلاف بلیم گیم کی بجائے اس ناسور کے خاتمے کے لئے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر بھارت نے طاقت کے گھمنڈ میں پاکستان کے کسی کونے میں ایک بھی راکٹ پھینکا تو اس خطے کو ایٹمی جنگ سے کوئی نہیں بچا سکے گا ۔ پاکستان کبھی برداشت نہیں کرے گا کہ بھارت اِس کی سر زمین میں ایک انچ بھی داخل ہو۔ فیصلہ مودی کو کرنا ہے کہ وہ اپنی گرتی ہوئی مقبولیت کو بچانے کے لئے پاکستان کے ساتھ کشیدگی کو بڑھاوا دیتے ہیں جس سے خطرناک جنگ کا ماحول پیدا ہو یا پھر اپنی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لیں گے کیونکہ حکومت سنبھالنے کے9 ماہ بعد ہی بی جے پی بھارت کی سب سے مقبول جماعت سے غیر مقبول جماعت ہونے کا سفر تیزی سے طے کر رہی ہے۔
تازہ ترین