ہم جن چند میدانوں سے کرکٹ کو باہر سمجھتے تھے ان میں عشق کا میدان بھی شامل تھا، لیکن احمد شہزاد نے ہماری یہ غلط فہمی بھی دور کردی۔ انھوں نے ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ کے دوران گلی کے فیلڈر کو اتنے پیار سے کیچ تھمایا جیسے وہ گلی نہ ہو بلکہ کوچہ ء یار ہو اور وہ کیچ نہیں بلکہ اپنا دل تھما رہے ہوں۔ ایسے ہی ایک عشق پیشہ کرکٹر یونس خان بھی ہیں جو وکٹوں سے باہر جاتی گیندوں سے چھیڑ چھاڑ کئے بغیر رہ ہی نہیں پاتے۔ کوئی نوجوان کھلاڑی ہوتا تو اسے سمجھایا بھی جا سکتا تھا۔ مگر اس عمر میں یونس خان کو کون سمجھائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یونس خان پر گیندوں سے چھیڑ چھاڑ کا الزام بھی غلط ہے۔ ان کی خواہش تو یہ ہوتی ہے کہ گیند کو چھوئیں ہی نہیں۔ اگر بولر شروع کے اوورز میں انھیں آف سائیڈ پر گیندیں کراتا رہے تو وہ ان گیندوں سے کوئی تعارض نہیں کرتے اور انھیں وکٹ کیپر کے پاس جانے دیتے ہیں۔ اس پر تماشائیوں کو جتنا مرضی غصہ آتا رہے، کمنٹیٹر یہی کہتے ہیں کہ وہ شروع کے اووروں میں گیند کی لائن اور لینتھ سے متعارف ہو رہے ہیں۔ ہمیں ان کا یہ انداز ایسا لگتا ہے جیسے کوئی نیا نویلا عاشق اپنی محبوبہ کی آمد و رفت کا گہری نظروں سے جائزہ لے رہا ہو۔ بس جائزہ ہی لے رہا ہو اور مزید کچھ نہ کر رہا ہو۔ یہ عشق کی اولین منزل ہے۔ جیسے عاشق اپنے دل کی نگرانی کے لئے حضرتِ ناصح کو متعین کرتے ہیں ویسے ہی یونس خان ایل بی ڈبلیو سے بچنے کے لئے اپنے بلے کو نگران بناتے ہیں۔ اس دوران کوئی کم بخت بولر ایسی گیند پھینک دیتا ہے جو جاتی تو ٹانگوں کی سمت محسوس ہوتی ہے لیکن درحقیقت آف اسٹمپ سے ذرا سا باہر کو نکلتی ہے۔ یونس خان اپنی ٹانگیں بچانے کے چکر میں اپنا بلا لئے اس کی سمت بڑھتے ہیں تو گیند کسی نٹ کھٹ حسینہ کی طرح ان کے بلے کا ہوائی بوسہ لیتی ہوئی وکٹ کیپر کے گلوز کی پناہ لیتی ہے۔
جیسے ناکام عشاق خود کسی پیش رفت کی کوشش کے بجائے گھر بیٹھ کر ستارے گننے کو ترجیح دیتے ہیں اسی طرح ہمارے کھلاڑی بھی اپنی جیت کے لئے حریف کو زیر کرنے کے بجائے آسمان کی جانب دیکھتے زیادہ نظر آتے ہیں۔ویسے تو کسی شاعر نے یہ بھی کہہ رکھا ہے کہ
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
لیکن افلاک کی جانب سے کبھی کبھی کیچ بھی آجاتا ہے۔ فیلڈر کی جانب کسی کیچ کے آنے میں ویسے تو کوئی برائی نہیں، لیکن ایک قباحت ضرور ہے۔ اور وہ یہ کہ کرکٹ کے قانون سازوں نے ایک پخ یہ لگا رکھی ہے کہ اس کیچ کو لینا بھی ہوتا ہے۔ ورنہ ہمارے فیلڈروں کی آرزو یہ ہوتی ہے کہ اول تو گیند ان کی طرف آئے ہی نہیں، اور آئے تو دور پار سے گزر جائے یا سر کے اوپر سے پھلانگ جائے۔
بھارت اور ویسٹ انڈیز سے ہونے والے میچوں میں کیچ سے نمٹنے کے لئے کچھ نئے انداز بھی سامنے آئے ہیں جن کی داد نہ دینا سراسر زیادتی اور بد ذوقی ہوگی۔ مثلاً بھارت کے خلاف میچ میں ویرات کوہلی کا ایک کیچ یاسر شاہ کی جانب بڑھا۔ پہلے تو انھیں یقین نہ آیا کہ ویرات کوہلی یہ کرم نوازی ان پر بھی کر سکتے ہیں کہ اپنا کیچ ان کی سمت اچھال دیں۔ وہ تو انھیں اپنی بولنگ پر آئوٹ کرنے کی خواہش لئے میدان میں وارد ہوئے تھے۔ خیر، کیچ ان کی سمت تیزی سے بڑھا اور ان کے قدموں میں سجدہ ریز ہو گیا۔ یاسر شاہ نے آخری لمحے میں اپنے ہی قدموں میں غوطہ لگا کر جونٹی رہوڈز کو ڈائیو لگانے کے ایک نئے طریقے سے متعارف کرادیا۔ اور یوں عشق کی ایک جست نے کیچ کا قصہ تمام کردیا۔ عمر اکمل کو جب سے وکٹ کیپر بنایا گیا ہے، ان کی خواہش ہے کہ کیچ ان کی سمت آئے تو سیدھا گلوز میں آئے۔ گیند ذرا بھی صراطِ مستقیم سے اِدھر اُدھر بھٹکے، وہ اسے کیچ کرنے کے روادار نہ ہوئے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ گیند اگر بیٹسمین کے بلے سے چھوتی ہے تو ذرا سا زاویہ بھی بدلتی ہے۔ اب اس زاویے پر نظر رکھنا عمر اکمل کے لئے عذاب ہوجاتا ہے۔ نظر رکھنا ہوتی تو وہ ٹریفک کے اشاروں پر نہ رکھ لیتے، جن کی پامالی پر لاہور میں ٹریفک والوں نے ان کا چالان کر ڈالا تھا۔ حارث سہیل کی گیند پر جب انھوں نے پہلی مرتبہ کیچ چھوڑا تھا تو حارث سہیل ایسے شرما گئے تھے جیسے نئی نویلی دلہن اپنے ستم فرما یعنی دولہا کا نام لیتے ہوئے شرما جاتی ہے۔ ان کے اس ردعمل پر ہمیں جوش صاحب کا وہ مصرعہ یاد آ گیا کہ:
بدی کرتا ہے دشمن، اور ہم شرمائے جاتے ہیں۔
لیکن جب حارث کی ایک گیند، بلے باز کے بیٹ سے چھوتی، عمر اکمل کے قریب سے ہوتی، باونڈری لائن کو روانہ ہو گئی تو وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور ان کے چہرے پر ناگواری کا تاثر ابھر آیا۔ اس پر عمر اکمل نے اپنے گلوز کی پوزیشن انھیں دکھاتے ہوئے واضح کیا کہ گیند کا فرض تھا کہ اگر اس نے حریف کے بلے کو چھو ہی لیا تھا تو سیدھی ان کے گلوز میں آتی۔ اِدھر اُدھر جاتی ہوئی گیندوں کو تو اسپیشلسٹ وکٹ کیپر پکڑتے ہیں۔سنا ہے کہ حارث سہیل بھٹکی ہوئی روحوں سے ڈرتے ہیں ۔ اگر ایسا ہے تو عمر اکمل کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ بھٹکی ہوئی گیندوں کے راستے میں نہ آئیں۔ کیچ کرنے کی ایک اور منفرد کوشش ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ میں شاہد آفریدی کی جانب سے سامنے آئی۔ وہ مڈوکٹ پر کھڑے تھے جب کیچ ان کی سمت بڑھا۔ گیند ان سے کچھ دور تھی سو انھوں نے اپنے طاقت ور پھیپھڑوں کا زور لگا کر ہوا کو اپنی سمت کھینچا تاکہ ہوا کے ساتھ ساتھ گیند بھی ان کی سمت یوں کھنچی چلی آئے جیسے پرانے زمانے میں کچے دھاگے سے سرکار بندھے آتے تھے۔ یہ ایک منفرد طریقہ تھا اور اس طریقے سے اگر وہ کیچ پکڑنے میں کامیاب ہو جاتے تو کرکٹ کی تاریخ میں اس کیچ کا ذکر سنہری الفاظ میں ہوتا۔ مگر سوئے اتفاق سے ہوا یہ کہ جب ان کا چہرہ گیند کے قریب پہنچا تو ان کے منہ میں بھری ہوئی ہوا کے باہر کی سمت رختِ سفر باندھنے کا وقت ہو چکا تھا۔ سو ہوا ان کے منہ سے نکلی اور کیچ ہاتھوں سے نکل گیا۔ محمد عرفان کے سرو قامت سے لوگ ویسے بھی قیامت کے فتنے کو بس اک قدِ آدم کم سمجھتے ہیں۔ انہی کے مشہور کئے ہوئے فسانے خود محمد عرفان کے کانوں تک بھی پہنچے جن پر یقین کر کے انھوں نے کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کیں۔ انھیں خدشہ ہے کہ ایسا نہ ہو کہ وہ ڈائیو کریں اور قد کی طوالت کے سبب گیند سے بھی آگے پہنچ جائیں۔ اس لئے گیند کو بائونڈری لائن کی سمت بڑھتے دیکھ کر بہت پہلے ڈائیو کردیتے ہیں۔ مگر گیند ہے کہ ہر بار انھیں چکما دے جاتی ہے۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ کے دوران ایک کیچ بھی ان کی سمت آیا۔ کیچ ان کی قدم بوسی کی تمنا لئے بڑھا تو عرفان نے یہ سوچتے ہوئے پہلے سے ہی ڈائیو لگا دی کہ انھیں اپنے قدموں تک پہنچتے ہوئے دیر نہ ہوجائے۔ اپنے قدموں تک تو وہ جلد ہی پہنچ گئے لیکن کیچ کچھ تاخیر سے پہنچا۔ اس دوران ان کا وہ عالم ہو چکا تھا کہ :پا بدستِ دگرے، دست بدستِ دگرے۔ تاہم یہ تمام ہاتھ اور پائوں خود انہی کے تھے۔