اگلے روز ایک دوست بہت پریشان تھا۔پوچھا کیا بجلی کا بل زیادہ آگیا ہے ؟ بولا نہیں، یہ بات نہیںہے ۔ہم نے کہا تو پھر کیا ملازمت کے حوالے سے کوئی مسئلہ آڑے ہے، جواب دیا: ایسی کوئی بات نہیں۔اصل بات یہ ہے کہ میں اپنے موبائل پر ’’اَن چاہے‘‘ اشتہارات سے ’’ناکوں ناک ‘‘ تنگ آیا ہوا ہوں۔
تفصیل بتاتے ہوئے بولا : ’’ چند ماہ قبل اپنی گاڑی کا اشتہار انٹر نیٹ کے ذریعے ایک ویب سائٹ کے علاوہ مقامی اخبارات میں دیا تھا اور غلطی سے اشتہار میں گھر کا نمبر دینے کی بجائے اپنا موبائل نمبر بھی دے ڈالا۔بس اُسی د ن سے ایک عجیب و غریب عذاب میں گھر گیا ہوں۔میرا نمبر نجانے کتنی ہی نام نہاد ’’ اشتہاری کمپنیوں ‘‘ کے ہتھے چڑھ چکا ہے۔ رات دن میرے موبائل پر دنیا جہان کے اشتہارات آتے رہتے ہیں جن سے میرا دُور کا واسطہ بھی نہیں ۔ خیر سے میری گاڑی تو آج تک نہ بکی البتہ مجھے رات دن ہمہ اقسام گاڑیوں کے اشتہارات آتے چلے جاتے ہیں۔یہی نہیں ،نسلی کتوں،وفادار بلیوں،خوبصورت پرندوں سے لے کر ڈینگی ا سپرے ،ٹیوٹرز ،ڈاکٹرز ،سستے ہوٹل ،تربیت دینے والے ادارے،رنگ و روغن ،کھانے پینے اور قسطوں پر سستے مکانات و پلاٹ بیچنے والوں کے اشتہارنما پیغامات مسلسل ’’ بن چاہے ‘‘ میرے موبائل پر موصول ہوتے رہتے ہیں۔ میں موبائل پر یہ میسجز ڈیلیٹ کرتے کرتے تھک جاتا ہوں۔ میں نے دوست کو تسلی دی اور کہا یہ اشتہارات کا دور ہے۔اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ اس سہولت کو حاصل کر کے اس مشکل سے نجات پائی جاسکتی ہے ۔جہاں تک ایسے اشتہارات نما پیغامات کا تعلق ہے تو یہ تو گھر گھر کی کہانی ہے۔ایسے میسجز تو میرے موبائل پر بھی آتے ہیں۔چلیں دوست احباب تو ایک دوسرے کو ’’ایس ایم ایس ‘‘ کے ذریعے کوئی پیغام ارسال کریں لیکن اجنبی افراد بھی نجانے کیسے موبائل نمبر حاصل کر کے اپنی غیر ضروری خبریں ، اشتہارات اور اشعار ارسال کرتے رہتے ہیں۔اور تو اور اگر آپ کی’’ ای میل ‘‘ کسی کے ہتھے لگ گئی ہے تو ای میل پر بھی ہر قسم کے بیانات ،پریس ریلیز ، غزلیات ،مضامین ،کہانیاں،آپ کی منشا کے خلاف ارسال کی جانے لگتی ہیں۔۔ ’’ فیس بُک ‘‘ کے ’’اِن باکس ‘‘ میں غیر ملکی خواتین کے ناموں سے ای میلز بھی آتی ہیں ۔ علاوہ ازیں موبائل پرانعامات کے چکمے پر مبنی پیغامات بھی آتے ہیں ۔بہت سے سادہ لوح حضرات اِن پیغامات کی بھینٹ بھی چڑھ چکے ہیں ۔ایس ایم ایس پیکیج کے فائدے بھی ہوں گے مگر اس سے غیر ضروری ’’لطائف‘‘، اشعار ،اقوال، بعض اوقات پریشانی کا باعث بنتے ہیںاور بیشتر حضرات وہ لطائف یا اشعار، یہ جانے بغیر کہ وصول کرنے والا کون ہے ،آگے فارورڈ کردیتے ہیں۔ رابطے کا ایک اور رجحان بھی معاشرے میں جڑ پکڑ رہا ہے کہ صبح شام کے سلام یا دعائوں پر مبنی میسج بھی عام ہو گئے ہیں اور فون کرنے کی بجائے میسج کرنا زیادہ با سہولت محسوس کیا جاتا ہے۔ہمارے ایک معصوم دوست تو رات بارہ بجے ہی ’’گڈ مارننگ‘‘ یا ’’صبح بخیر‘‘ کا پیغام ارسال کر دیتے ہیں ۔ اب چونکہ ہم رات قدرے دیر سے سوتے ہیںسو اُن کا پیغام بھی قبل از وقت وصول کر لیتے ہیں لیکن اس عنایت کا شکریہ ہم صبح جاگ کر ادا کرتے ہیں تا کہ دوست کو شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔اب تو موبائل پر ٹویٹر اور فیس بک کی سہولت بھی موجودہے ،سو لوگ ہر وقت آن لائن رہتے ہیں ۔چو بیس گھنٹے کی ٹی وی نشریات ،انٹرنیٹ،موبائل اور پھر ان پر اشتہارات اور لمحہ بہ لمحہ’’باخبری ‘‘ نے لوگوں کو ڈپریشن کا مریض بنا دیا ہے۔ انسان کی پرائیویسی عنقا ہو گئی ہے۔لوگ سکون سے کھانا بھی نہیں کھا سکتے ۔اوپر سے زندگی اِس قدر تیز رفتار ہے کہ کسی کو اپنا ہوش ہی نہیں۔معاشرے میں تصنع،بناوٹ، ریاکاری اور بے حسی وبا کی صورت میں پھیل رہی ہے۔ فلموں ،ڈراموں ، میں دکھائے جانے والے رسم و رواج اور بیہودہ مکالمے ، ہماری،نئی نسل پر گہرے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔بچوں کی زبان بگڑ رہی ہے۔شائستگی،برداشت ،محبت اور اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے۔ہم رات دن حکومتی پالیسیوں کا رونا روتے ہیں ۔ یہ بھی درست ہے کہ مسائل ہی مسائل ہیں ۔مگر ہمیں اپنے رویّوں اور روز مرّہ کی عادات و خصائل پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔بعض چھوٹی چھوٹی باتیںغور طلب ہوا کرتی ہیں ۔اب کسی اشتہار میں آپ زبان سے ناک چھونے کی باتیں کر کے بھلا کسی پراڈکٹ کی طرف لوگوں کو کیسے مائل کر سکتے ہیں؟ کیا یہ انتہائی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں؟ اشتہارات تخلیق کرنے والے کیا اس معاشرے کا حصہ نہیں ہیں؟ کیا ایسے اشتہار ان کے بچے نہیں دیکھتے؟ کیا ہم تخلیقی طور پر اس قدر بانجھ ہو چکے ہیں کہ ہم سے اپنی روایات و اقدار کے مطابق اشتہارات بھی نہیں بن پاتے؟میڈیا کے ذمہ داران کو بھی اس پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔تخلیق کاروں کو بھی ہر قسم کا اسکرپٹ لکھتے وقت ہوش کے ناخن لینے چاہیں۔ ہمیں آس پاس کے ملکوں کی ثقافت اور اقدار سے متاثر ہونے کے بجائے اپنے آپ کو اتنا مضبوط کرنا چاہیے کہ دوسرے ہماری پیروی کرنے میں فخر محسوس کریں اور کیا عورت کے بغیر کوئی اشتہار مکمل نہیں ہوسکتا؟؟اس سوال پر بھی تخلیق کاروں اور دانشوروں کو ضرور غور کرنا چاہیے۔ چلتے چلتے ایک جدید حکایت بھی ملاحظہ کیجیے: ’’ امریکہ کے بہت بڑے جنرل ا سٹور کا مالک اپنے سٹور کا معائنہ کر رہا تھا۔ اس نے دیکھا تمام سیلز گرلز چاق و چوبند اور خوبصورت تھیںمگر ان کے شعبے میں اتنا رش نہیں تھا جتنا مارٹینا کے اسٹال پر تھا حالانکہ اس بدصورت لڑکی کو تو اس نے یونہی رکھ لیا تھا مگر اسے خبر نہ تھی کہا اسٹور کی آدھی سے زیادہ آمدنی صرف اس کی وجہ سے تھی۔اس نے کچھ دیر بعد اس کے ہاں رش کی وجہ پوچھی تو مارٹینا نے بتایا کہ میں جب کسی گاہک کو چینی دیتی ہوں تو اندر سے پون کلو چینی لاتی ہوں اور گاہک کے سامنے اس میں مزید اضافہ کر کے ایک کلو پورا کر دیتی ہوں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ میں زیادہ چینی دے رہی ہوں۔ جبکہ دیگر لڑکیاں اندر سے ایک کلو سے زیادہ چینی لاتی ہیں اور گاہک کے سامنے نکالتی ہیں اور ایک کلو کر دیتی ہیں۔ گاہک کے خیال میں وہ انہیں کم دیتی ہیں۔ہم سامان اتنا ہی دیتے ہیں جتنا گاہک مانگتا ہے لیکن سامان دینے کا طریقہ مختلف ہے۔ ہمیں بھی دوسروں کو متاثر اور قائل کرنے کے لئے لوگوں کی نفسیات کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ کیا خیال ہے آپ کا۔