• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنرل پرویز مشرف باغباں کو بزور شمشیر چمن سے بے دخل کرنے کے بعد پاکستان کے سیاہ وسفید کے مالک بن بیٹھے تھے ۔ شمع جمہوریت گل کرکے وہ تقریباً نوبرس تک وطن عزیز میں من مانی کرتے رہے ۔ جسے چاہا اسے نواز دیا اور جسے چاہا اس کی کردار کشی کردی ۔ بری حکمرانی کی بدترین مثال قائم کرنے کے بعد اب وہ فرماتے ہیں کہ پاکستان کے لئے جمہوریت موزوں نہیں۔ جنرل صاحب پر ہی کیا منحصر ہے دنیا کے ہر آمرمطلق نے اپنی وحشت ناک اور دہشت ناک آمرانہ حکمرانی کا محل جمہوریت کے ملبے پر ہی تعمیر کیا تھا ۔ اپنے مشرق وسطیٰ میں یہی ہوتا رہا مصر میں صدر حسنی مبارک تقریباً29برس آمریت کے مزے لوٹتے رہے۔ لیبیا میں کرنل قذافی نے آمریت کی بدترین مثال قائم کی عراق میں صدام حسین نے اور شام میں حافظ الاسد نے آمریت کے آہنی شکنجوں سے عوام کی گردنوںکو دبوچ رکھا تھا ۔ جنرل پرویز مشرف کا ہر فیصلہ جمہوریت کی نفی اور آمریت کامنہ بولتا ثبوت تھا ۔ انہوں نےایک فون کال پر امریکہ کے قدموں میں وہ کچھ نچھاور کردیا جس کا اس نے مطالبہ بھی نہیں کیا تھا ۔ اب وہ کہتے ہیں کہ امریکہ نے پاکستان کو اپنی سہولت کے لئے استعمال کیا اور دھوکا دیا اور پھر پھینک دیا ۔ پرویز مشرف کے اس اعتراف جرم پر صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا جو کچھ جنرل صاحب نے کیا ایسا کسی جمہوری حکومت میں ہرگز نہیں ہوسکتا۔جنرل صاحب نے کئی غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کو یہاں اپنے ٹھکانے قائم کرنے کی اجازت دی جو پاکستان کے لئے بہت نقصان دہ ثابت ہوئیں۔ اپنے انٹرویو میں جنرل صاحب نے اپنے تئیں ساری فوج کا ترجمان بننے کی کوشش کی ہے۔ یقیناً پاکستانی فوج کا ہرگز وہ نقطہ نظر نہیں جو جنرل صاحب جیسے چند طالع آزمائوں کا رہا ہے۔ جنرل صاحب کی اچھی حکمرانی کی چند جھلکیاں دیکھ لیجئے۔ جنرل صاحب نے قانون کی دھجیاں اڑکرانصاف کو پابہ زنجیر اور منصفوں کو پابہ جولاں کردیا تھا ۔ انہوں نے بزور بازو منصف اعلیٰ سے آرمی ہائوس میں استعفیٰ لینے اور اسے معزول کرنے کی کوشش کی تاہم اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے آہنی اعصاب اور پختہ عزم و ارادے کا ثبوت دیا اور آمرکے سامنے سرتسلیم خم کرنے سے انکار کردیا اور یوں انہوں نے انصاف کوسربازار رسوا ہونے اور متاع عدل کو لٹنے سے بچا لیا ۔جنرل صاحب کی بدترین حکمرانی کا نقطہ عروج ان کا نام نہاد این آر او تھا ۔ اسی قانون افہام وتفہیم کے تحت دوڈھائی سو ایسے افراد کو کلین چٹ دی گئی جو کرپشن، قتل وغارت گری اور بھتہ خوری جیسے سنگین جرائم میں ملوث تھے۔ 12مئی2007کو جنرل صاحب کی شخصیت کا ایک انتہائی خوفناک پہلو آشکارا ہوا جس نے سب کو ہلا کررکھ دیا ۔ اس روز انہوں نے کراچی میں ایم کیو ایم کو معصوم انسانوں کے خون سے ہولی کھیلنے اور انہیں چڑیوں کی طرح پھڑکانے اور خاک وخون میں نہلانے کی کھلی چھٹی دے رکھی تھی جس کے نتیجے میں کم ازکم50افراد کراچی کی سڑکوں پر پہروں بے گوروکفن پڑے رہے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ اس پر انہوں نے مکے لہرالہرا کر ایم کیو ایم کو شاباشی دی ۔ کیا یہی وہ اچھی حکمرانی ہے جس کا نیا ایڈیشن لے کر جنرل صاحب ایک بار پھر پاکستان پر کرم فرمائی کرناچاہتے ہیں۔
پاکستانی عوام سوجان سے جمہوریت پر فدا ہیں انہوں نے ایک بار نہیں کئی بار جمہوریت کی بحالی کے لئے تحریکیں چلائیں۔ جنرل ایوب خان کا بھی وہی موقف تھا جو جنرل پرویز مشرف کا ہے کہ یہ سرزمین جمہوریت کے لئے موزوں نہیں ۔ انہوں نے 1956کا متفقہ دستور منسوخ کرکے اس کی جگہ اپنا شخصی دستور 1962میں نافذ کرکے پاکستان کی شکست و ریخت کی بنیاد رکھ دی تھی۔ جنرل ایوب خان ون مین ون ووٹ کی جگہ بنیادی جمہوریتوں کا غیرجمہوری نظام لے آئے اور دھن، دھونس اور دھاندلی سے انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی واجب صد احترام بہن مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو ’’شکست‘‘ سے دوچار کیا۔ جنرل یحییٰ خان بھی فوجی آمرتھے انہوں نے 1970کے انتخابات میں کامیاب جماعت عوامی لیگ کو اقتدار نہ سونپ کرپاکستان کودو لخت کردیا اور ہمارے 90ہزار قیدی بھارت کی تحویل میں چلے گئےآج پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے۔ اسی لئے بھارت ہمیں گیڈر بھبکیاں تودیتا ہے مگر پاکستان پر حملہ کرنے کاسوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ آج پاکستان کا دفاع انتہائی مضبوط اور وطن عزیز نا قابل تسخیر بن چکا ہے۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا آغاز ایک جمہوری حکمران ذوالفقار علی بھٹو نے کیا اور ایٹمی دھماکوں کا اعزاز بھی ایک جمہوری حکمران میاں نواز شریف کو حاصل ہوا ۔ اب ذرا سیاست دانوں اور جمہوری حکمرانوں کاجائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ ہمارے ہاں اکثر سیاسی پارٹیوں کے اپنے اندر جمہوریت نہیں۔ وہ جمہوریت کے لئے بے نوازی تو کرتی ہیں مگر جمہوری رویے کا ہرگزمظاہرہ نہیں کرتیں۔ اکثر سیاسی پارٹیاں موروثی اور ون مین شو کے طور پر چلائی جاتی ہیں۔ ان کے ہاں پارٹی انتخابات بھی نہیںہوتے سوائے جماعت اسلامی کے جس میں پارٹی انتخابات بھی ہوتے ہیں اور عام ارکان میں سے لوگ اوپر آتے ہیں مگر جماعت اسلامی کو عوامی تائید حاصل نہیںہماری سیاسی پارٹیاں بظاہر انتخابی منشور توبناتی ہیں مگر اندر خانے کوئی پارٹی ملک کی تقدیر بدلنے کا کوئی ایجنڈا نہیں رکھتی ان کی منزل مقصود کسی نہ کسی طرح انتخابی کامیابی اور اقتدار کا حصول اور پھر ملکی خزانہ لوٹ کر اپنا بینک بیلنس اور اپنے ملکی وغیر ملکی اثاثوں میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے۔ اچھی حکمرانی، عدل وانصاف، تعلیم، صحت، روزگار اور ہر شہری کے لئے خوب صورت وخوشگوار زندگی کو یقینی بنانا ہرگز ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ۔ پاکستانی ووٹروں کی ایک بڑی تعداد نے جناب عمران خان سے امیدیں وابستہ کررکھی ہیں ۔ خان صاحب کے دامن پر کسی بڑی مالی کرپشن کا داغ نہیں۔ تاہم جس کرپشن فری پاکستان کا خواب خان صاحب دکھاتے ہیں اس کے لئے جس سنجیدگی کی ضرورت ہے وہ ان کے ہاں دکھائی نہیں دیتی ۔ سیاست اور اچھی حکمرانی متانت وسنجیدگی اور شائستگی کا تقاضا کرتی ہے اسلام آباد کے دھرنوں کے بعد عمران خان کی مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے گراتھا ۔ مگر چند روز پہلے لاہور کے رائے ونڈ جلسے میں2011والا جذبہ اور ولولہ دیکھنے کو ملا۔ یہاں عمران خان نے اپنی طویل تقریر کے بعض مقامات پر ثقاہت سے فروتر الفاظ سیاسی مخالفین کے لئے استعمال کئے شیخ رشید تو غیر ثقہ زبان استعمال کرنے کی شہرت رکھتے ہیں مگر سب سے زیادہ حیرانی وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کے انتہائی ناروا اور نامناسب الفاظ پر ہوئی پرویز خٹک کو یقیناً معلوم نہ ہوگا کہ اللہ کے رسول نے ’’ لعنت‘‘ کا لفظ استعمال کرنے کو سخت ناپسند کیا ہے سیاست دانوں کے لئے اہانت آمیز الفاظ استعمال کرنے کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا اور پھر2013کی انتخابی مہم کے دوران میاں شہباز شریف نے علی بابا اور چالیس چور کا شور مچایا اور سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کو کراچی اور لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹنے کا دعویٰ کیا ہمارے سیاسی حکمرانوں نے عالمی تاریخ تودور کی بات ملکی تاریخ سے بھی کچھ نہیں سیکھا فوجی طالع آزما سیاست دانوں کی بری حکمرانی ، ان کی سر پھٹول اور مالی کرپشن کو بنیاد بناکر حکومت پر قبضہ کرتے ہیں سیاست دانوں کو اپنے گریباں میں جھانکنا چاہئے
اپنا محاسبہ خود بھی کرناچاہیے۔ سیاست دان جب تک عوامی خدمت کو اپنی اولین ترجیح قرار نہیں دیتے اور اپنے قول وفعل کے لئے کوئی ضابطہ اخلاق تشکیل نہیں دیتے اس وقت تک آمرانہ انقلابات آتے رہیں گے ۔ رہی بات کہ پاکستان کیلئے کیا موزوں ہے تو پاکستان کے لئے وہی موزوں ہے جس کا اعلان بار بار بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے کیا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی، فلاحی اور جمہوری مملکت ہوگی یہی اعلان متفقہ طور پر1973کے آئین میں کیا گیا ہے۔ اس آئین سے ہم سرموانحراف نہیں کرسکتے۔


.
تازہ ترین