ہمیں وہ لوگ انتہائی فضول اور بیہودہ لگتے ہیں جو صبح شام پاکستان کی برائیاںاور بدخویاں کرتے پائے جاتے ہیں۔ یہ وہ احمق ہیں جو چھوٹی چھوٹی باتوں کو دل پر لگا لیتے ہیں۔ ان کے خیال میں پاکستان گھامڑوں کا مسکن ہے جہاں ایک سے ایک پرلے درجے کا نااہل اعلیٰ سے اعلیٰ عہدے پر فائزہے۔ ہر عضو معطل یہاں پر حکمران ہے۔ اسی بنا پر ہم آج سے ایک نیا کالمی سلسلہ شروع کررہے ہیں جس کامقصد دنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ پاکستان کے حکمران اور عوام نہایت ذہین و فطین بھی ہیں اور بہترین بھی۔ ذرا مندرجہ ذیل معاملات پر غور کیجئے!!
سنہ 2060 میں کراچی سمندر برد
ہمارے ہاں ایک ادارہ ہے جسے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشنو گرافی (NIO) یعنی قومی ادارہ برائے اوشنو گرافی کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے، یہ ادارہ سمندری معاملات میں مہارت رکھتا ہے۔ اس ادارے کے ڈائریکٹر جنرل نے پچھلے دنوں سینٹ کمیٹی کو مطلع کیا کہ سنہ 2060 تک کراچی شہر سمندر برد ہو جائے گا۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ، گلیشیئر کا پگھلنا اور سیلاب وغیرہ، اس کی بنیادی وجوہات بتائی جاتی ہیں۔ گزشتہ 35 برسوں میں صوبہ سندھ کا دو لاکھ ایکڑ سے زائد رقبہ سمندر برد ہو چکا ہے۔ بدین، سجاول، ٹھٹھہ اورکراچی سب سے زیادہ متاثر اضلاع ہیں۔ تقریباً 8 لاکھ خاندان یہاں سے ہجرت کرچکے ہیں۔
اب کہایہ جاتا ہے کہ اس مسئلے کا سیدھا سادہ علاج تو یہی ہے کہ یہاں لاتعداد چھوٹے بڑے ڈیم بنا کر نہ صرف پانی جیسی عظیم نعمت کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکتا تھا بلکہ عروس العباد کراچی سمیت سندھ کے دیگر تین اضلاع کو بھی زیر سمندر جانے سے روکا جا سکتا تھا مگر ہمارے نااہل حکمرانوں، بے خبر میڈیا اور بے وقوف عوام کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، وغیرہ وغیرہ۔
تاہم یہ سراسر الزام تراشی اور چغل خوری کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ ہمارے حکمران، میڈیا اور عوام اپنےاپنے معاملات میں بہت تیزطرارواقع ہوئے ہیں۔ یہ لوگ معمولی سےمعمولی فائدے کے لئے مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ کراچی کے سمندر برد ہونے پر یوں چپ سادھے رکھیں۔ ہیں جی؟حقیقت یہ ہے کہ یہ احباب اس معاملے میں بوجوہ خاموش ہیں۔ اور اس خامشی کے پیچھے حکمت یہ ہے کہ کراچی کے مسائل اب حد سے تجاویز کر چکے ہیں۔ یہاں پر قتل و غارت، بھتہ خوری، دہشت گردی اور فرقہ پرستی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اسے ختم کرنا انسانی طور پر ممکن نہیں۔ چنانچہ اس سارے فتنہ و فساد کو جغرافیائی طور پر ختم کرنا قدرےآسان ہے۔
سبحان اللہ، گھمبیر مسائل کا ایسا آسان اور دائمی حل، کوئی بلا کی ذہین اور مخلص قوم ہی تلاش کرسکتی ہے۔ واہ ،واہ، واہ، چشم بددور!
ہندو سکھ میرج ایکٹ
وطن عزیز میں ہندو اور سکھ شادیاں رجسٹر کرنے کا قانون سرے سے ہے ہی نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ قانون آج تک بنا ہی نہیں۔ اسی وجہ سے ہندو اور سکھوں کو شناختی کارڈ، ویزا، وراثت اورطلاق وغیرہ کے معاملےمیں شدیدمسائل کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔ نوازلیگ اور پیپلز پارٹی کے اقلیتی ممبران نے بل ڈرافٹ کرکے جون 2014 سے سیکرٹری قومی اسمبلی کے حوالے کر رکھا ہے مگر آفرین ہے اس محب وطن پاکستانی پارلیمینٹ پر کہ اس نےکسی دور میں بھی یہ غیر ضروری قانون پاس نہیں کیا۔ ہمیں ہندو بنیے کی سازشوں اور وحشی سکھوں کی بربریت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ہندو ہی تھے کہ جنہوں نے آریا سماج، شدھی اور سنگٹن جیسی مسلم مخالف تنظیموں کے پرچم تلے ہمارے آبائو اجداد کا جینا حرام کئے رکھا۔ ولابھ بھائی پٹیل، بال ٹھاکرے، ایل کے ایڈوانی اور نریندر مودی کی قیادت میں ہمیں تگنی کا ناچ نچائے رکھا اور پھر یہ سردار صاحبان ہم سے کسی خیر کی توقع رکھتے ہیں۔ امرتسر سے آنےوالے مہاجرین قافلوں کے ساتھ ان ظالموں نے کیا سلوک کیا یہ پوری دنیا جانتی ہے۔ اور جو لوگ یہ کہیں کہ لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ، انار کلی اور گردو نواح میں مسلمانوں نے بھی سکھ اور ہندو مہاجروں کے ساتھ یہی سلوک کیا، وہ بکواس کرتے ہیں، غدار ہیں اور جاہل مطلق ہیں۔ انہیں یہ علم نہیں کہ مسلمان کسی انسان پرایسا ظلم ڈھا ہی نہیں سکتا۔ چنانچہ اس تناظر میں مشہور پارسی مصنفہ بیپسی سدوا نے اپنے ناول آئس کینڈی مین (ICE CANDY MAN) میں جو جو بہتان طرازی کر رکھی ہے، اس پر اس بڑھیا کو شرم کرنی چاہیے۔ حیرت ہے کہ ابھی تک ہماری حکومت نے اس خاتون کی شہریت منسوخ کیوں نہیں کی، ہیں جی؟
قانونی کتابیں اور اردو ترجمہ
ہمارے پاک وطن کی قومی زبان تو اردو ہے مگر دفتری زبان آج بھی انگریزی ہی ہے۔ قوانین کی کتابیں انگریزی میں ہیں اور ترجمہ کرنے کرانے کے جھنجھٹ میں کبھی کوئی پڑا ہی نہیں۔ عوام اور خواص میں فرق کی خلیج اسی لئے بڑھتی جارہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ عام آدمی یہاں اوقات میں رہتا ہے اور مغربی ممالک کے شہریوں کی طرح ہمہ وقت حقوق مانگ مانگ کر حکومت کو بور نہیں کرتا۔ پھرسیدھی سی بات ہے کہ اگر دفتری زبان انگریزی ہی ہے تو یہ کمبخت غریب غربا انگریزی سیکھتے کیوں نہیں؟ یعنی تساہل اور تن آسانی کی انتہادیکھئے کہ انگریزی نہیں سیکھنی، ترجمے کاشور ڈالے رکھنا ہے۔ پچھلے دنوںسپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ’’اگر پانچ حکومتیں قوانین کا قومی زبان میں ترجمہ نہیں کرسکتیں تو انگریز کی غلامی اختیار کرلیں۔‘‘ ویسے آپس کی بات ہے، ہم پچھلے اڑھائی سو سال سے پیہم انگریز کی ہی غلامی میں چلے آ رہے ہیں۔ آخر امریکی بھی تو ایک طرح کے انگریز ہی ہیں، وہ کون سے وڑائچ ہیں۔ اس پوری بحث کا حاصل یہی ہے کہ ہماری اشرافیہ اور حکومتیں قانون کی انگریزی کتابوں کا ترجمہ اردو میں اس لئے نہیں ہونے دیتیں کہ اس طرح ایک تو وکلا کی اکثریت بے روزگارہو جائے گی ، دوسرا عام آدمی جو یہاں نیم انسانی حیثیت میں زندہ ہے، خواہ مخواہ حقوق مانگنے لگے گا اور تیسرا یہ کہ عوام اور خواص کا فرق مٹنے لگے گا جس سے پورا معاشرتی ڈھانچہ لرز اٹھے گا۔ چھوٹے بڑے، امیر غریب اور آقا غلام کا درمیانی فاصلہ ختم ہو جائے گا۔ آپ کو بالاخر تعلیمی نصاب یکساں کرنا پڑےگا۔ بیورو کریسی بے چاری آنے سیر ہو جائے گی جبکہ برائون صاحب کی مٹی گلی گلی پلید ہوتی پھرے گی۔ پس ثابت ہوا کہ یہ عوام اور حکومت ، دونوں ہی سٹیٹس کو کے علمبردار ہیں کہ صدیوں پرانے اس روایتی معاشرے کو یہی سسٹم سوٹ کرتا ہے اور جو لوگ اس کے برعکس سوچتے ہیں وہ یا تو پاگل ہیں یا جاہل اور یا پھر غدار، ہیں جی؟