کیا یہ درست نہیں کہ وحشی بھی مہذب ہوتے ہیں۔
بالکل ہوتے ہیں وحشی اپنی اولاد اور بالخصوص لڑکوں کو قبیلہ کی روایات ،ضروریات ، اخلاقیات، معاشیات،سیاسیات اور ذہنی ارتقا اور وہ سب کچھ جو زندہ رہنے کےلیے بتاتا ہے جس کی ان کو ضرورت ہوتی ہے۔اگر وحشی اپنے قبائل اور خاندان کے بارے میں حساس ہوسکتا ہے تو پھر کیا باقی بچتا ہے کہ اس پر بات کی جائے ۔ تہذیب اور تمدن کی بنیاد میں وحشی اور وحشت دونوں موجود ہیں ان سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا وحشی بھی اپنی بھوک مٹانے کا اہتمام کرتے تھے وہ کبھی بہت زیادہ کھاتے یا پھر فاقے کیا کرتے تھے ،بھوک قدرتی امر ہے یہ کئی طرح کی ہوتی ہے ہوس اور عرص کی بھوک اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے ۔جب انسان کے زبان نہ تھی ، تب بھی اس کو بھوک لگتی تھی ،جب سوچنے کی صلاحیت پیدا نہ ہوئی تھی تب بھی بھوک اور پیاس کی کوئی کمی نہ تھی ۔جب انسان نے سوچنا شروع کیا تو پھر اس کی بھوک اس کو وحشت کی طرف ذرا ذیادہ لے گئی خوراک کی تلاش میں وحشت جنون بن گئی درجات بدلتے رہے اورپھر انسان حیوان ناطق نے آنے والے کل کے بارے سوچنا شروع کیا تو اس میں خوف بھی پیدا ہوا ۔ مستقبل کا ڈر حوصلہ توڑ ڈالتا ہے خوشیاں غم میں اور غم المناک واقعات میں تبدیل ہونا شروع کر دیتے ہیں ۔ آنے والے کل کی سوچ قبضہ ، لالچ، حرص اور حسد سب کچھ پیدا کر دیتی ہے ۔ دور دیکھنے کےلیے دو طرح کی بینائی کی ضرورت ہے ایک فاصلہ دیکھنے کےلیےاور دوسری فہم اور فراست کیساتھ در پیش آنے والے واقعات سے برد آزما ہونے کی۔ اسی بینائی نے خطرات کو بھانپتے ہوئے خاندان اور پھر معاشرہ کی بنیاد رکھی تھی انسانوں نے اپنی بھوک کو ختم کرنے کےلیے شکار کی عادت اپنائی تھی۔ جنسی بھوک کی تسکین کےلیے زور آور اپنی پسند پر اختیار کرتا تھا ، بعض علاقوں،تہذیبوں اور زمانوں میں بہن کو بیوی بنا لیا جاتا تھا ۔ تاریخ عالم یہ بھی بتاتی ہے کہ عورت بھی کبھی زورآور تھی اس کا حکم چلتا تھا خیر جو بھی تھا خاندان کے بعد معاشرہ تشکیل پایا اور اصول یہ تھا کہ زور آور حکم دے گا کمزورپورا کرے گا اور ضروریات بھی کمزور پوری کرکے اپنی جان کی امان حاصل کر سکے گا۔ کھیتی باڑی ، مال برداری ،جنگ،غلامی بے بسی ،غرض ہر سب کچھ جو ایک کمزور کرکے زورآور کو دے سکتا تھا ،دیا کرتا تھا،کسی کی بیٹی ،بیوی، ماںزور آور کو پسند آگئی تو کمزور کچھ نہیں کر سکتا تھامعاشرہ کی تشکیل کوئی ماہ و سال کی بات نہ تھی اس کے ارتقا کو صدیاں بیت چکی ہیںابھی بھی معاشرتی ناہمواری ہر جگہ پر موجود ہے ۔تہذیب اور تمدن تو بہت ہی بعد کی بات ہے جنگ وجدل ،وحشت بربریت ،خون خرابہ، چوری ڈاکہ ،لوٹ مار ، جنسی ضروریات کے لیے زور آوری ،غرض معاشرہ اور آج کے معاشرہ میں موجود ہر خرابی کوئی آج کی نہیں تب سے ہے جب انسان پتھر کے زمانہ میں رہتا تھا ۔ جنگلی حیوانوں کی طرح اپنی ضروریات اور شہوت کو پورا کرتا تھا ۔ بچیوں کا قتل عام ،ان کو زندہ درگور کردینا، ابھی ان دنوں عظیم چین میں چونکہ ہر شادی شدہ جوڑے کو صرف ایک بچہ پیدا کرنے کی اجازت ہے اور اگر لڑکی پیدا ہوجائے تو ماں باپ اس کو گٹر میں پھینک دیتے ہیں ہر شخص اور شادی شدہ جوڑے کی خواہش ہے ان کہ ہاں بیٹا پیدا ہو ۔ بڑھاپے میں سہارا بنے ، نسل آگے چل سکے ۔ فخر کے ساتھ لوگوں کو بتایا جا سکے کہ میرا بیٹا ہے۔ گویا آج کی دنیا میں مہذب دنیا،غالباًمہذب تو نہیں ہے ۔ جانے کیسی ہے۔ ایک بار پھر ارتقاء کی منازل کو طے کرکے دیکھنا ہوگا کہ تہذیب کیا ہے ۔تمدن کیسا ہونا چاہیے، معاشرتی زندگی کےلیے کیا ضروری ہے۔نسل انسانی کو آگے بڑھانے مہذب ہونے، تمیزدار، حیا اور آبرومند ہونے کےلیے کیا کیا کچھ ابھی معاشرہ میں سرایت کرنے کی ضرورت ہے۔ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مسلمان اپنے تمدن، تہذیب ،اخلاق، رواداری ،صبر استقامت تعلیم وتربیت پر فخر کرنے والے ۔ آج کیونکر شرمندہ نہیں ہو رہے ، کیونکہ بعض افراد ڈھیٹ بلکر ذرائع ابلاغ کے ذریعہ قصور میں ہونے والے افسوسناک ،شرمناک،ڈوب مرنے کے قابل واقعہ پر پردہ ڈال کر کیا کرنا چاہتے ہیں۔ قصور میں جو کچھ ہوا یہ خدا کے عذاب کو دعوت دینے کےلیے کافی ہے واقعہ تو ہو چکا مگر ایسے واقعات معاشرہ میں کب ختم ہوںگے ۔جزا اور سزا کا جو تصور ہمارے دین بر حق نے دے رکھا ہے اس پر ریاست کب عمل کرے گی برائی تو ہوتی رہتی ہے مگر اس طرح اجتماعی برائی ،گویا کوئی دین بر حق کی ہدایت پر عمل کرنے والا ہی اس علاقہ میں ذمہ دار نہ تھا۔ سالوں سال یہ واقعات ہوئے کوئی پوچھنے والا نہیں ۔لوگ بچیوں کی درندوں سے حفاظت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اب لڑکوں کو کیسے محفوظ رکھاجائے گا یہ ایک لمحہ فکریہ ہےخاندانوںکے خاندان معاشرتی طور پر اور ذہنی اعتبار سے تباہ و برباد ہوگئے ہیں۔ ہمارے ہاں تو گائوں کے لوگوں کو بھی ایک ہی خاندان سے بھی تعبیر کیا جاتاہے چونکہ خاندان ایک زندہ اور متحرک ادارہ ہے۔ یہ کبھی بھی ایک حال میں نہیں رہتا جس طرح معاشرہ ترقی کی راہوں کو عبور کرتا ہے اس طرح خاندان بھی نیچے سے اوپر کی طرف ترقی کرتا رہتا ہے ۔قصور کے ظالموں نے اب ان خاندان کو نہ صرف غیر متحرک کر دیا ہے بلکہ ان پر ترقی کی راہیں بھی مسدود کر دی ہیں کس ذہنی کرب کا شکار ہیں یہ خاندان جو اپنے بچوں کو خاندان کی عزت بچانے کےلیے چوری پر مجبور ہونے پر عاق کر رہے تھے۔گھروں کا سکون غارت ہوا ،معاشرہ میں ہمسایوں اور گائوں والوں کا اعتبار اٹھ گیا پورا پاکستان حالت کرب میں ہے ابھی پشاور کے اسکول کے واقع کے زخموں سے خون رس اور درد ہو رہا تھا کہ درندگی کی ایک نئی صورت ہمارے سامنے آگئی ہے خاندان کبھی جامد اور مردہ حالت میں ترقی نہیں کر سکتا ، بحیثیت مسلمان ہم ایک ہی گھر کے فرد ہیں ایک ہی امت ہیں ایک دوسرے کے سہارا اور آئینہ ہیں کیسے ہم مرداروں کی طرح جی سکتے ہیں کیسے ہم ترقی کی سیڑھی پر چڑھ سکتے ہیں ۔کب تک ہم اپنی روح کی قربانی تک دیتے رہیں گے ،ہم اپنی زندگیاں تو ہر روز اپنی ارض پاک کےلیے پیش کر رہے ہیں ،وہ بھی ہمارے بچے ہیں جو دہشت گردی اور دشمنوں کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں یہ قصور والے بھی ہمارے بچے اور مستقبل ہیں ان کو مرنے سے بچانا ہماری ذمہ داری ہے اور یہ ہمارا فرض ہے کہ ریاست کو مجبور کریں کہ ہماری زندگیوں کو داغ دار کرنے والوں کو نشان عبرت بنا دیا جائے ہمارے معاشرہ میں ہر طرف منفی منفی نظر آتا ہے اگر اس منفی کو مثبت کرنا ہے تو کلیہ موجود ہے اور اس کو ہم سب جانتے ہیں فطرت کے قانون کو ہم تبدیل بھی نہیں کر سکتے اور دین حق پر عمل کر کے ہم معاشرہ کو بہتر بنانے میں کردار تو ادا کرسکتے ہیں آواز اٹھانا ہوگی کہ خدا کے باغی مت بنو اور فساد پھیلانے والوں کو ان کے عبرت ناک انجام سے دو چار کیا جائے قصور کے ان وحشیوں کو نشان عبرت ہی بننا چاہیے کیونکہ یہ نہایت ہے غلیظ اور غیر مہذب ہیں ۔