ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے سیاسی حالات نے ایک بار پھر کروٹ لی ہے اور اسی حیلے بہانے سے نظریہ ضرورت پھرزندہ ہوگیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال حالیہ وہ فیصلہ ہے جو اکیسویں اور اٹھارہویں آئینی ترامیم کے حوالے سے متفرق درخواستوں کے فیصلے سے متعلق ہے جس میں اکیسویں اور اٹھارہویں آئینی ترامیم کو من و عن برقرار رکھا گیا ہے اور درخواستیں جس میں تمام بار کونسلز کی درخواستیں بھی شامل تھیں ، انہیں یکسر مسترد کردیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد بہت سے آئینی اور قانونی سوالات نے جنم لیا ہے کہ آیا آئین بالادست ہے یا پارلیمنٹ؟ اب تک یہ تسلیم کیاجاتا تھا کہ اگر آئین تحریری طور پر دستیاب ہے تو وہ ملک کی سب سے اعلیٰ ترین دستاویز ہے اور اختیار کا منبع ہے لیکن اس فیصلے کے بعد سے صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی ہے۔ گو کہ یہ فیصلہ کثرتِ رائے سے سامنے آیا ہے لیکن اب آئین کے بنیادی ڈھانچے کے حوالے سے بحث و مباحثہ طول پکڑ سکتا ہے۔ اور ریاست کے ستونوں کے متوازی ادارے بھی قائم ہوسکتے ہیں جیسا کہ اکیسویں ترمیم کے تحت فوجی عدالتوں کے قیام کو تسلیم کیا گیا ہے۔
یوں تو ماضی میں عدلیہ نے فردِ واحد کو پارلیمنٹ کا اختیار بھی تفویض کیا تھا۔ میرا اشارہ پرویز مشرف کی جانب ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان کے آئین کے بنیادی ڈھانچے کے ازسر نو تعین کی ضرورت پیش آسکتی ہے اور یہ مسئلہ بھی درپیش ہے کہ وہ اسلامی دفعات جو سابق فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں آئین کا حصہ بنائی گئی تھیں ، آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہیں یا پارلیمنٹ مادر پدر آزاد قانون سازی کرسکتی ہے جیسا کہ مغربی جمہوریت میں ہوتا ہے۔ ابھی تک یہ اصول مسلمہ طور پر تسلیم شدہ تھا کہ پارلیمنٹ قرآن و سنت کے تابع رہ کر ہی آئین سازی کرسکتی ہے اور جو دفعات قرآن و سنت سے متصادم ہیں انہیں بتدریج ختم کرنے کی پابندبھی تھی۔ لیکن اب یہ بحث ایک نیا رُخ اختیار کرسکتی ہے۔ پاکستان ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں اقتصادی ترقی و خوشحالی کا سارا دارومدار پاک چائنا اقتصادی کاریڈور پر ہے۔ یوں تو اقتصادی ترقی کے اشاریے بہتری کی طرف اشارہ کر رہے ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ کراچی سے لے کر پشاور تک ملک حالت جنگ میں ہے۔ مسلح افواج کہیں ضربِ عضب تو کہیں ٹارگٹڈ آپریشن کے نام پر مصروف ہیں۔ اقتصادی ترقی میں پختگی لانے کیلئے ہمیں اپنے اِن اداروں کو حالت جنگ سے بھی نکالنا ہے۔ جس وقت ضربِ عضب کے نتائج حاصل ہوجائیں گے تو پھر سیاسی راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ بالکل اسی طرح کراچی میں بھی ٹارگٹڈ آپریشن کو بتدریج ختم کرنے کیلئے سیاسی راستے کی راہ ہموار کرنا ہوگی۔ سردست تو ایسا نظر نہیں آتا ہے کیونکہ ضربِ عضب کے تحت ہونے والی کارروائی میں ابھی بہت سے مراحل طے ہونا ہیں۔ امریکہ ڈرون حملے برقرار رکھے ہوئے ہے۔ مسلح افواج طالبان اور دیگر عسکریت پسند گروہوں کے خلاف فضائی کارروائی تک محدود ہیں۔ زمینی جنگ میں بہت سخت مزاحمت دیکھنے میں آتی ہے۔ کراچی آپریشن بھی رفتہ رفتہ آگے بڑھایا جارہا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عیدالاضحی کے قریب ایک بار پھر اس آپریشن میں تیزی لائی جائے گی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ کھالوں کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم بھی دہشت گردی کیلئے استعمال ہوتی ہے۔
یہ حجت بھی جلد یا بدیر تمام ہوگی، لیکن سیاسی قیادت نے اگر راستوں کو بند کردیا تو افواج پاکستان کی یہ کوششیں رائیگاں جاسکتی ہیں کیونکہ کسی بھی نظام ریاست میں حتمی استحکام سیاسی نظام سے ہی آسکتا ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو دیوار سے لگا کر آپ نتائج حاصل نہیں کرسکتے۔ بالکل اسی طرح شمال مغربی صوبے میں بھی عسکریت پسندوں کے راستے مسدود کرنے کیلئے سیاسی عمل کو تیز کرنا ہوگا۔ آئی ڈی پیز کو ان کے گھروںکوواپس بھیجنے کا بندوبست بھی کرنا ہوگا۔ اس کے بعد اگر امن برقرار رہتا ہے تو ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ شمال مغربی علاقوں سے عسکریت پسند اور آئین شکن عناصر کی بیخ کنی ہوچکی ہے جبکہ شہر کراچی کا معاملہ اس کے برعکس نظر آتا ہے۔ یہاں کا معاملہ ہر گزرتے دن کے ساتھ پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں مبینہ چائنا کٹنگ کے معاملات بھی سر اُٹھا رہے تھے۔ جب ان معاملات کے رُخ سے پردہ اُٹھے گا تو پھر یہ سوال بھی جنم لے گا کہ کراچی میں چائنا کٹنگ کا آغاز کب، کیسے اور کیونکر ہوا؟ یہ بات ہمارے آپ کے مشاہدے میں ہے کہ شہر کراچی کے داخلی راستوں پر آباد کچی آبادیاں اور ان میں موجود منشیات اور اسلحے کے بیوپاری اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے چائنا کٹنگ کرکے اس شہر کراچی کی زمینوں پر قبضہ کیا۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے سرکلر ریلوے کی پوری زمین اپنے قبضے میں لے لی اور موجودہ حکومت گیارہ برس کی کوششوں کے باوجود بھی اسے واگزار نہ کراسکی اور شہر کراچی اس بہترین سہولت سے آج محروم ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان راستوں پر الیکٹرونک لائٹ ریل چلتی ، نہ کہ ان کے اسٹیشن منشیات فروشوں اور استعمال کرنے والوں کی آماجگاہ بنتے۔ ان کی لائنوں پر پختہ عمارتیں کھڑی کردی گئیں۔ یہ بھی چائنا کٹنگ کی ایک شکل ہے۔ اس کے خلاف بھی تحقیقات کا آغاز ہونا چاہئے۔ آج شہر کراچی تقریباً ٹرانسپورٹ سے محروم ہوچکا ہے۔ چنگ چی اور سی این جی رکشے سڑکوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ لہٰذا ترقی اُسی وقت ممکن ہے جب سیاسی راستے کھلے رکھے جائیں۔ موجودہ حالات میں سیاسی راستوں کا بند ہونا یقینا ایک تکلیف دہ اور تشویش ناک عمل ہے۔ گزشتہ دنوں راقم کو گلشن اقبال کی ایک مسجد میں جمعے کی نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں منبر سے مقرر یہ فرما رہے تھے کہ طالبان رہنما ملا عمر اور ان کے پیشرو ملا منصور جیسے حکمران اللہ ہمیں عطا کرے۔ وہ کتنے سادہ اور اللہ والے لوگ ہیں۔ اس ضمن میں جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کا خاتمہ کر رہے ہیں۔ ان کیلئے اس قسم کے واقعات ایک لمحہ فکریہ ہیں اسی طرح بعض مساجد کے باہر جہاد کے نام پر چندہ اکٹھا کیاجارہا ہے۔ تو کیا یہ پیسہ واقعی جہاد پر خرچ ہوگا یا دہشت گردی پر؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ریاست کو دینا ہے اور اس کا حل سیاسی راستے سے ہی نکالا جاسکتا ہے۔