کراچی شہر کی تاریخ بہت قدیم ہے۔یونانی تاریخ کے مطابق ماضی میں کراچی کے مختلف نام رہے ہیں۔ایک نام کروکولاہے ،جہاں سکندر اعظم وادی سندھ میں اپنی مہم کے بعد ،اپنی فوج کی بابل روانگی کی تیاری کے لئے یہیں خیمہ زن ہوا تھا۔جبکہ کراچی کے نزدیک ایک جزیرہ منوڑہ ہے ۔جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سکند ر کا سپہ سالار نیار خوس(نییرچس)اسی جزیرے سے واپس اپنے وطن روانہ ہوا تھا۔جبکہ عرب تاریخ دان اس علاقے کو دیبل کے نام سے منسوب کرتے ہیں۔جہا ں سے محمد بن قاسم نے 712میں اپنی فتوحات کا آغاز کیا۔برطانوی تاریخ دان ایلیٹ کا ماننا ہے کہ موجودہ کراچی کے چند علاقے اور جزیرہ منوڑہ دیبل میں شامل تھے۔کراچی کی بنیادی ترقی کا آغاز1772میں اس وقت ہواجب گاؤں کولاچی جوگوٹھ کو مسقط اور بحرین کے ساتھ تجارت کرنے کے لئے بندر گاہ منتخب کیا گیا۔ اسی وجہ سے یہ علاقہ تجارتی مرکز میں تبدیل ہونا شروع ہوگیا۔اس دور میں شہر کی حفاظت کا مسئلہ کھڑا ہوا تو شہر کے گرد فصیل بنائی گئی اور مسقط سے توپیں بر آمد کرکے شہر کی فصیل پر نصب کردی گئیں۔فصیل میں دو دروازے لگائے گئے۔ایک دروازے کا رخ سمندر کی طرف جسے کھارادراور دوسرے کا رخ لیاری ندی کی طرف تھا جسے میٹھا در کہا جاتا تھا۔1795تک یہ شہر خان آف قلات کی ملکیت رہا۔مگر جلد ہی سندھ کے حکمرانوں نے اس پر قبضہ کرلیا۔مرکزی بندر گاہ کا درجہ حاصل ہونے کے بعد انگریزوں کی نگاہیں بھی اس شہر کی طرف مرکوز ہوگئیں۔ انگریزوں نے 3فروری 1839کو کراچی شہر پر باقاعدہ قبضہ کیا۔تین سال بعد اسے متحدہ ہندوستان کا حصہ قرار دے کرایک ضلع کی حیثیت دیدی گئی۔برطانوی راج کے دوران کراچی کی آبادی اور بندرگاہ نے تیزی سے ترقی کی۔1936میں جب سندھ کو صوبے کی حیثیت دی گئی تو کراچی کو اس کا دارالحکومت منتخب کیا گیا۔وطن عزیز کے معرض وجود میں آنے کے بعد1947میں کراچی کو پاکستان کے دار الحکومت کا درجہ دے دیا گیا۔اس وقت شہر کی آبادی صرف 4لاکھ تھی۔چونکہ 1947میں کراچی کو نو آموز مملکت کا دار الحکومت منتخب کیاگیا توشہر میں لاکھوں مہاجرین کاآئے۔دارالحکومت اور بین الاقوامی بندر گاہ ہونے کی وجہ سے شہر میںصنعتی سرگرمیاں دیگر شہروں سے قبل ہی شروع ہوگئیں۔ملک کا سب سے بڑا ہوائی اڈہ اور بندر گاہ بھی کراچی کے حصے میں ہی آئی۔ 1959میں پاکستان کے دارلحکومت کی اسلام آباد منتقلی کے باوجود کراچی کی آبادی اور معیشت میں ترقی کی رفتار کم نہیں ہوئی۔
3527مربع کلومیٹر پر پھیلا کراچی شنگھائی کے بعد آج بھی دنیا کا آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا شہرہے مگر گزشتہ چند سالوں سے کراچی کو کسی آسیب کی نظر لگ گئی ہے۔دریائے سندھ کے مغرب میں بحیرہ عرب کی شمالی ساحلی پٹی پر واقع کراچی ہمیشہ ہی تاریخی اعتبار سے انتہائی اہم رہا ہے۔لیکن چند ایسے محرکات تھے جنہوں نے کراچی کا امن تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔چونکہ پورے ملک سے لوگ روزگار کی تلاش میں اس شہر کا رخ کرتے ہیں اسی وجہ سے یہاں مختلف مذہبی ،نسلی اور لسانی گروہ آباد ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسے منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔انہی گروہوں کی باہمی کشیدگی کی وجہ سے80اور 90کی دہائی میں کراچی لسانی فسادات، دہشت گردی اور تشدد کا ایسا شکار ہوا کہ حالات کو سنبھالنے کے لئے پاک فوج کو مداخلت کرنا پڑی۔ آپریشن کے بعد وقتی طور پر تو حالات بہتر ہونا شروع ہوئے مگر 12اکتوبر 1999کو جب ایک آمر نے جمہوریت پر شب خوں مارا تو جس سیاسی جماعت کے خلاف چند سال قبل فوج نے آپریشن کیا تھا ۔اسی سیاسی جماعت سے آمر نے اپنی پینگیں بڑھانا شروع کردیں۔حالات یہاں تک پہنچے کہ ایم کیو ایم سندھ میں جنرل(ر) پرویز مشرف کی سب سے بڑی اتحادی بن گئی۔اسی اتحاد کے نتیجے میں سابق آرمی چیف نے ایم کیو ایم کوسندھ کی گورنری کا ایسا تحفہ بخشا کہ آج تک انہیں کوئی ہٹا نہیں سکا۔حتی کہ اس وقت کے مضبوط ریاستی اداروں نے کھل کر ایم کیو ایم کی حمایت کی اور پہلے سندھ حکومت اور پھر کراچی کی نظامت ایم کیو ایم کی جھولی میں ڈال دی۔آج الطاف حسین کی ہندوستان کے حوالے سے جس متنازع تقریرکا حوالہ با ر بار دیا جاتا ہے تو یاد رہے کہ وہ2004میں کی گئی۔اور اس وقت ایم کیو ایم سیاسی و عسکری حکمرانوں کی سب سے بڑی اتحادی تھی۔اس قوم کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ اس کی یادداشت بہت کم زو ر ہے۔شاید یہ ایک اچھی بات بھی ہے کہ یہ زند ہ قوم کسی کے حوالے سے دل میں بغض نہیں رکھتی اور ایسی تلخ یادیں جلد بھلادیتی ہے۔
آج بلاشبہ آپریشن کے نتیجے میں ایک بدلا ہوا کراچی نظرآتا ہے۔رینجرز ،پولیس سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی شبانہ روز محنت سے کراچی کی روشنیاں لوٹتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔جو لو گ کہا کرتے تھے کہ کراچی تیرے مقدر میں کیا لکھا ہے؟ آج کہنے پر مجبور ہیں کہ کراچی کے مقدر میں کچھ اچھا ہی لکھا ہے۔آپریشن کے بعد ایم کیو ایم کا رد عمل فطری ہے۔کیونکہ بے شک کراچی آپریشن میرٹ پر تمام سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز کے خلاف کیا گیا مگر سب سے زیادہ نقصان اسے پہنچا ہے جو سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر ہوتا ہے اور ایم کیو ایم کراچی کی اصل حاکم بنی ہوئی تھی۔اطلاعات ہیں کہ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی اکثریت کو آپریشن سے اختلاف نہیں ہے مگر ان کی مجبوری ہے کہ وہ لندن کا دباؤ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے استعفوں کا جوار بھاٹا بھی اسی لئے کھولا تاکہ اسٹیبلشمنٹ کے مسیحاؤں کو پیغا م دے سکیں کہ مائنس الطاف کا مطلب مائنس ایم کیو ایم ہے۔ایسی صورتحال میں میاں نوازشریف بھی شش و پنج کا شکار ہیں ۔کیونکہ ایم کیو ایم جو چاہتی ہے وہ وزیراعظم پاکستان کے بس میں نہیں ہے اور اگر بس میں ہوتا بھی تب بھی شاید نوازشریف کراچی کے امن کو اپنے اقتدار پر ترجیح دیتے۔ وزیراعظم اس جماعت کوجس با ت پر قائل کرنا چاہتے ہیں ایم کیو ایم وہ ماننا نہیں چاہتی۔ کراچی آپریشن توہر حال میں جاری رہے گا۔ ایم کیو ایم استعفے واپس لینے پر رضامند ہوجائے گی مگر الطاف بھائی نے یہ جو نیا سلسلہ شروع کیا ہے یہ اب رکنے والا نہیں ہے۔ آخر میں کیا میں یہ سوال کرسکتا ہوں کہ اگر آج ایم کیو ایم کے قائد غدار اور ملک دشمن ہیں تو اس وقت کےحکمران کیا ہوں گے، جنہوں نے اپنے اقتدار کی تقویت اور مضبوطی کے لئے ایم کیو ایم کی ’’ملک دشمنی‘‘ پر پردہ ڈالے رکھا۔ کیا اس سوال کا جواب کوئی دے سکتا ہے؟