ہم سب نے یہ دنیا چھوڑنی ہے ۔ ہم سب نے ایک دن ماضی کی یاد بن جانا ہے ۔ ہم زندگی بھر دوسروں کی یادیں ساتھ لیکر چلتے ہیں اور پھر اپنی یادیں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ حمید گل بھی اپنی یادیں چھوڑ کر اس دنیا سے چلے گئے۔ اس خاکسار کو آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حمید گل سے قربت کا کبھی دعویٰ نہیں رہا۔ تقریباً 20سال پہلے لاہور میں پہلی دفعہ ان کا انٹرویو کیا تو انہوں نے میرے تیکھے سوالوں پر سیخ پا ہونے کی بجائے مسکرامسکرا کر جواب دیئے ۔ اس انٹرویو کے کچھ ہی دن کے بعد مجھے لاہور میں ایک محفل میں شرکت کا موقع ملا جس میں حمید گل ہم سے کہہ رہے تھے کہ قوم بے نظیر بھٹو اور نواز شریف سے مایوس ہو چکی ہے اب ہمیں عمران خان کو سیاست میں لانا چاہئے ۔ یہ وہ دن تھے جب عمران خان کی تمام تر توجہ شوکت خانم کینسر اسپتال کی تعمیر پر مرکوز تھی اور وہ حمید گل کے مشورے کو نظرانداز کر رہے تھے ۔ جب کینسر اسپتال مکمل ہو گیا تو عمران خان نے ایک نئی سیاسی جماعت بنانے پر غور شروع کر دیا ۔ ایک دن عمران خان نے مجھے پوچھا کہ کیا انہیں سیاست میں آنا چاہئے ؟میں نے جواب دینے کی بجائے پوچھا کہ آپ سیاست میں خود آنا چاہتے ہیں یا حمیدگل صاحب آپ کو سیاست میں لانا چاہتے ہیں ؟ عمران خان نے قہقہہ لگایا اور پھر سنجیدگی کے ساتھ کہا کہ وہ حمیدگل کی بڑی عزت کرتے ہیں اور ان کے مشورے کو اہمیت بھی دیتے ہیں لیکن وہ سیاست اپنی مرضی کی کرینگے۔ 1996ء میں تحریک انصاف قائم ہوئی تو حمید گل اس میں شامل نہیں ہوئے لیکن اس وقت کی وزیر اعظم بےنظیربھٹو صاحبہ کو یقین تھا کہ عمران خان کا اصل ’’گاڈفادر‘‘ حمید گل ہے حالانکہ یہ حقیقت نہ تھی۔ حمید گل صاحب کے بارے میں بہت سے لوگوں کو بہت سی غلط فہمیاں رہتی تھیں اور حمید گل صاحب بھی کئی مرتبہ کئی لوگوں کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار ہو جاتے لیکن ان میں یہ خوبی تھی کہ سیاسی و نظریاتی اختلاف کو نفرت بنا کر دل میں نہیں پالتے تھے۔ ایک صحافی کے طور پر ان کے اور میرے تعلقات میں کئی اتار چڑھائو آئے ۔ کبھی وہ غصے میں آ جاتے کبھی میں کوئی سخت بات لکھ دیتا لیکن وہ ان تلخیوں کو ایک مصافحے اور ایک مسکراہٹ میں اڑا دیتے ۔ ان کی وفات کے بعد انکی ایسی ہی مسکراہٹیں میرے لئے حسین یادیں بن چکی ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ جب افغانستان میں طالبان ابھرے تو حمید گل صاحب نے ان کی کھل کر حمایت نہیں کی کیونکہ وہ ذاتی طور پر گلبدین حکمت یار کے زیادہ قریب تھے ۔ ایک دفعہ اسلام آباد میں ایک تقریب میں حمید گل صاحب نے طالبان کے بارے میں اپنے کچھ تحفظات کا اظہار کیا کیونکہ ان دنوں امریکی حکومت اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت بھی طالبان کی حمایت کرتی تھی ۔ اسی تقریب میں مفتی نظام الدین شامزئی نے حمید گل کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی ۔ بعدازاں مولانا سمیع الحق نے حمید گل اور طالبان کے درمیان ذہنی فاصلے کم کرائے ۔یہ کہنا درست نہیں کہ حمید گل نے طالبان بنائے یا وہ طالبان کے روحانی باپ تھے ۔ جب طالبان تحریک شروع ہوئی تو حمید گل کو آئی ایس آئی سے ریٹائر ہوئے پانچ چھ سال گزر چکے تھے اور وہ طالبان کے مخالف حکمت یار اور ربانی کے زیادہ قریب تھے ۔ جب انکی غلط فہمیاں دور ہو گئیں تو پھر انہوں نے بڑھ چڑھ کر طالبان کی حمایت کی۔ گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد پاکستان کی افغانستان کے بارے میں پالیسی بدلی تو مولانا سمیع الحق نے دفاع افغانستان کونسل بنا ڈالی اور حمید گل طالبان کے دفاع میں سب سے آگے آگے تھے ۔ وہ مغربی میڈیا میں امریکی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرتے جس پر انہیں دہشت گردوں کا سرپرست قرار دیا جاتا۔ وہ اپنے سیاسی خیالات کا اظہار بلاخوف وخطر کرتے اور اس وجہ سے انہیں کئی مشکلات کا سامنا بھی رہا۔ جمہوریت پسند حلقوں میں ان پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جاتا تھا کہ انہوں نے 1988ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو شکست دینے کیلئے اسلامی جمہوری اتحاد بنایا تھا ۔ حمید گل صاحب سے جب بھی پوچھا جاتا کہ کیا آئی جے آئی آپ نے بنائی ؟ وہ اثبات میں جواب دیتے اور کہتے کہ مجھے آرمی چیف نے ایک ٹاسک دیا تھا میں نے ٹاسک پورا کیا اور ذمہ داری قبول کرتا ہوں اگر کسی نے میرے خلاف کوئی مقدمہ چلانا ہے تو شوق پورا کرلے ۔ حمید گل صاحب کا المیہ یہ تھا کہ وہ ایک بہت مشکل دور میں آئی ایس آئی کے سربراہ بنے ۔ 1987ء میں جنرل ضیاء الحق نے انہیں آئی ایس آئی کا سربراہ بنایا تو فوجی صدر اور سویلین وزیر اعظم میں سردجنگ شروع ہو چکی تھی ۔ اس دوران فوجی صدر ایک ہوائی حادثے میں موت کا شکار ہو گئے ۔ جنرل ضیاء الحق کی موت جنرل حمید گل کیلئے ایک ذاتی جھٹکا بھی تھی کیونکہ وہ آئی ایس آئی کے سربراہ کی حیثیت سے صدر پاکستان کی حفاظت نہ کرسکے۔ انہیں حادثے کی تحقیقات پر توجہ دینے کی بجائے آئی جے آئی بنانے کا حکم ملا ۔ 17؍اگست 1987ء کوجنرل ضیاءالحق کے طیارے کو حادثہ پیش آیا اور اس حادثے کے ایک ماہ کے بعد حمید گل نے غلام مصطفیٰ جتوئی کی سربراہی میں آئی جے آئی بنا ڈالی۔ منصوبہ یہ تھا کہ جتوئی صاحب کو وزیر اعظم بنایا جائے لیکن آئی جے آئی کو قومی اسمبلی میں مطلوبہ اکثریت نہ ملی اور بے نظیر بھٹو صاحبہ وزیر اعظم بن گئیں۔ حمید گل صاحب نے جن کا راستہ روکنے کیلئے آئی جے آئی بنائی انہیں اقتدار مل گیا ۔ آئی ایس آئی کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے نئی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو خود ہی بتا دیا کہ انہوں نے آئی جے آئی بنائی تھی۔ کچھ عرصے کے بعد بینظیر حکومت نے انہیں آئی ایس آئی سے فارغ کر دیا ۔ 1990ء میں نواز شریف وزیراعظم بنے تو حمید گل لیفٹیننٹ جنرل تھے ۔1992ء میں نواز شریف نے اسلم بیگ کی ریٹائرمنٹ کے بعد حمید گل کی بجائے آصف نواز کو آرمی چیف بنا دیا جس کے بعد حمید گل نے فوج سے ریٹائرمنٹ لے لی۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے ساتھ انکے تعلقات کشیدہ رہے ۔
پرویز مشرف کے دور میں دونوں سابق وزرائے اعظم جلاوطن تھے ۔حمید گل اور مشرف کے تعلقات بہت اچھے تھے لیکن حمید گل نے مشرف کی پالیسیوں پر شدید تنقید کی۔ مشرف پر تنقید کے ذریعہ انہوں نے نواز شریف یا بے نظیر بھٹو کے قریب ہونے کی کوشش نہیں کی ۔ 9مارچ 2007ء کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی برطرفی کے بعد وکلاء تحریک شروع ہوئی تو حمید گل بھی مشرف حکومت کے خلاف سڑکوں پر آ گئے ۔ اس دور میں مشرف حکومت نے مجھ پر پابندی لگائی تو میں بھی سڑکوں پر آگیا۔ میں نے سڑکوں پر وکلاء اور سیاست دانوں کے ساتھ کئی شو کئے جن میں حمید گل بھی شریک ہوتےاور نعرے لگاتے محترمہ بےنظیر بھٹو نے 16؍اکتوبر 2007ء کو ایک خط میں الزام لگایا تھا کہ ا گر ان پر پاکستان میں حملہ ہوا تو حمید گل، اعجاز شاہ، پرویز الٰہی اور ارباب غلام رحیم ذمہ دار ہونگے ۔ کراچی میں حملے کے بعد یہ خط زیر بحث آیا تو میں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو بتایا کہ حمید گل تو مشرف کے خلاف تحریک میں شامل ہیں وہ مشرف کے ساتھ مل کر آپ کو قتل نہیں کرا سکتے ۔بعدازاں محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک اور خط لکھا اور اس میں صرف مشرف کو اپنی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد حمید گل نے کبھی ان کے بارے میں تنقیدی الفاظ استعمال نہیںکئے بلکہ انہیں ایک بہادر اور محب وطن لیڈر قرار دیا۔ یہ انکی اعلیٰ ظرفی تھی۔ حمید گل صاحب کی موت کے بعد انکی یہ اعلیٰ ظرفی ایک حسین یاد میں تبدیل ہو چکی ہے ۔ انکی اہلیہ طویل عرصے سے کینسر میں مبتلا تھیں لیکن حمید گل اپنی بیمار اہلیہ کو چھوڑ کر اس جہان فانی سے کوچ کر گئے ۔اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطاء فرمائے ۔ (آمین)