متحدہ قومی موومنٹ نے قومی اسمبلی، سینیٹ اور سندھ صوبائی اسمبلی سے استعفیٰ دے کر ملکی سیاست میں کھلبلی مچا دی ہے۔ Psephology (الیکشن کے عمل کے تجزیہ کرنے کا عمل) یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم کے اقدامات، کراچی میں اپنی سیاسی مقبولیت کی بنا پر کئے گئے ہیں۔ ایم کیو ایم جانتی ہے کہ وہ ضمنی الیکشن جیت کر کراچی میں جاری رینجرزآپریشن کی اخلاقی حیثیت کو سیاسی طور پر چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتی ہےاور اس کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم نے اپنے قائد الطاف حسین کا بھر پور ساتھ دیتے ہوئے اُس مائنس الطاف حسین فارمولے کو بھی رد کردیا ہےجس کا اشارہ وزیرِ داخلہ چوہدری نثارعلی خان نے کچھ دن پہلے قومی اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران دیا تھا۔جہاں متحدہ اس تاثر کو رد کرنا چاہتی ہے کہ کراچی آپریشن کی وجہ سے ان کی سیاسی ساکھ کو کوئی زِک پہنچی ہے وہاں اس کا مقصد سیاست کے ذریعے قانون کے ہاتھوں کو اپنی طرف بڑھنے سے روکنا بھی ہو سکتا ہے۔
متحدہ کی جانب سے جاری کی گئی فہرست ِ الزامات، پوری طرح سے کراچی آپریشن کے متعلق ہے۔ یہ فہرست رینجرز کی طرف سے ایم کیو ایم کے قانونی سربراہ جناب فاروق ستار کو لکھے گئے اس خط کے بعد منظرعام پہ آئی ہے، جس میں ان سےقتل، ڈاکہ زنی، اغوا برائے تاوان اور دیگر انتہائی خطر ناک جرائم میں مطلوب 187 سے زائد افراد جن کےنام معہ ولدیت، پتے، حتیٰ کہ شناختی کارڈ نمبرز،بھی ایم کیو ایم کو فراہم کئے گئے ہیں، کو رینجرز کے حوالے کرنے کے لئے کہا گیا تھا- ایم کیو ایم کی جانب سے جاری کی گئی فہرست بذات خود کئی سوالات کو جنم دیتی ہے جن کا جواب متحدہ قومی موومنٹ ہی دے سکتی ہے۔ مثال کے طور پر کراچی میں مردم شمادی نہ ہونے کی وضاحت تو خود متحدہ ہی دے سکتی ہے جو کہ پچھلے تیرہ سال سے حکومت میں رہی۔
جہاں تک ایم کیو ایم کے حقیقی رہنما جناب الطاف حسین کے خلاف قائم کئے گئے حالیہ مقدمات کا تعلق ہے تو میری ناقص رائے کے مطابق ڈیلاس (امریکہ) میں ہونے والی تقریر (جو کہ پاکستان میں بھی متعدد چینلوں پہ نشرہو چکی ہے) آئین اور قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے اور الطاف حسین کے دنیا کو پاکستان کے خلاف جنگ پہ اکسانے سمیت دیگر الزامات کے تحت عدالت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آئین پاکستان کے تحت تمام پاکستانی شہریوں کے حاصل بنیادی حقوق کا اطلاق محض ایم کیو ایم کا رکن ہونے کی بنیاد پر معطل نہیں کیا جاسکتا اور حکومت کا بنیادی اور اولین فرض ہے کو وہ تمام پاکستانیوں کو مذہب، رنگ ونسل اور سیاسی وابستگی کا امتیازکئے بغیر بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی بنائے۔
قانون کے مطابق استعفیٰ کی تین بنیادی شرائط ہیں۔ اول یہ کہ مستعفی ہونے والے شخص کے دستخط استعفیٰ پر موجود ہوں۔(دوم) استعفیٰ بغیر کسی دباؤ کے رضا کارانہ طور پر دیا گیا ہو۔ اور (سوم) لازم ہے کہ استعفیٰ اپنا عہدہ یا اختیار چھوڑنے کے لئےدیا گیا ہو۔ اس معیار کے لحاظ سے یہ بات کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ایم کیو ایم کے استعفے قانونی اعتبار سے درست ہیں اور قانون کی خالص تشریح کے تحت شاید دونوں اسپیکر حضرات اور چیئرمین سینٹ کے پاس ان استعفوں کو منظور کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ مگر عملی طور پر سیاست، قانون کے تابع نہیں ہوتی اور شاید اسی لئے قوانین سیاسی مصلحتوں کے تحت بدلتے رہتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آئین قانونی دستاویز ہونے کے ساتھ ساتھ، ریاستی مسائل کو سیاسی طور پر حل کرنے کے طریقہ کار بھی فراہم کرتا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے استعفے بھی ایک سیاسی معاملہ ہے۔ غالباًاسی بناء پر اس سارے معاملےکو سیاسی طور پر دیکھا جانا بھی ضروری ہے۔
دوسری طرف یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ حکومت موجودہ حالات میں کسی قسم کی سیاسی مہم جوئی ہوتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتی اور وہ اس مسئلہ کو قانونی بنیادوں کی بجائے سیاسی طور پر حل کرنےکی پوری کوشش کرے گی شاید اس طرح سے سینیٹر مشاہداللہ خان اور خواجہ محمد آصف کی طرف سے دئیے گئے بےموقع اور بے محل بیانات کا ازالہ بھی ہوسکے۔ اس مقصد کے لئے حکومت نے اسپیکر قومی اسمبلی کے ذریعے استعفوں کا معاملہ لٹکا دیا ہے۔ اسپیکر نے متحدہ کے استعفے فوراً منظور کرنے کی بجائے آئین کے تحت حاصل اپنے صوابدیدی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے استعفوں کی تصدیق کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب اسپیکر اسمبلی ایم کیو ایم کے نمائندگان کو فرداً فرداً بلا کے ان کے استعفوں کی تصدیق کریں گے۔
آئین کی دفعہ 64 اور اسمبلی کے ضوابط کار کے ضابطہ نمبر تینتالیس کے تحت اگر اسپیکر یا چیئرمین سینٹ کو کسی رکن کے استعفیٰ کی صحت پہ شک ہو یا ان کے پاس ایسی اطلاع ہو جس کے مطابق استعفیٰ مندرجہ بالا شرائط پہ پورا نہ اترتاہو تو ایسی صورت میں وہ مستعفی رکن یا اراکین سے ذاتی طور پہ، اپنے سیکرٹریٹ مثلاً سیکرٹری اسمبلی یا کسی بھی ایجنسی کے ذریعے استعفیٰ کی تصدیق کر سکتے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ابھی حال ہی میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما ظفر علی شاہ کی جانب سے دائر کی گئی ایک آئینی درخواست جس کے ذریعے اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف پاکستان تحریکِ انصاف کے ممبران کے استعفے منظور نہ کرنے اور مستعفی اراکین سے استعفوں کی تصدیق کے عمل کو خلاف آئین گردانتے ہوئے سوالات اٹھائے تھے، کو نمٹاتے ہوئے قرار دیا کہ اسپیکر آئین کے ضابطہ 64کے تحت استعفوں کی آزادانہ اور انفرادی طور پہ تصدیق کرنے کے پا بند ہیں- ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کے وکلا اس فیصلہ کا حتی الوسعٰ فائدہ اٹھاتے ہوئے استعفوں کی تصدیق کے عمل کو ہر ممکن حد تک لٹکانے کے کوشش کریں گے۔ دوسری طرف ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین جو کہ پہلے ہی استعفے واپس لینے کا عندیہ دے چکے ہیں، حکومت سے مذاکرات کے ذریعے دباؤ ڈالتے ہوئےاپنی شرائط منوانے کی کوشش کریں گے اورعین ممکن ہے کہ وہ حکومت کو اس بحران سے باہر نکال لیں۔ اسپیکر کی جانب سے متحدہ کے اراکین کے استعفوں کو فی الفور منظور نہ کرنا، سیاسی تجزیہ کاروں اور میڈیا کی طرف سے پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے استعفوں کے معاملے پہ امتیازی سلوک کرنے کے الزامات اور تنقید سے بچنے کے لئے اٹھایا گیا قدم بھی ہے۔
حالانکہ ایم کیو ایم اور تحریکِ انصاف کے استعفوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ تحریک ِ انصاف کے اراکین نے اپنے استعفےبالواسطہ طور پر قومی اسمبلی میں اپنے پارلیمانی لیڈر جناب شاہ محمود قریشی کے توسط سے جمع کروائےتھے، جس پر اسپیکر کو اراکین اسمبلی سےتصدیق کا ایک اصولی جواز حاصل ہو گیاتھا جبکہ ایم کیو ایم کے اراکین کی جانب سے اپنے اپنے استعفے رضاکارانہ طور پر اسپیکر کے پاس اجتماعی حاضری میں بنفسِ نفیس جمع کروائے گئے ہیں۔ لہٰذا اس مشق کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس ایم کیو ایم کے اراکین کے استعفے فی الفور منظور نہ کرنے کا کوئی اصولی اور قانونی جواز نہیں ہے۔ اس بنیادی اور واضح فرق کے باوجود تحریک ِ انصاف اور ایم کیو ایم کے استعفوں کو یکسانیت سے دیکھنا بالکل غلط ہے۔
اس معاملے کا اختتام جو بھی ہو، دیکھنا یہ ہے کہ اگر معاملہ سلطنت کے تیسرے طاقتور ترین فریق اور آئین کے محافظوں یعنی عدلیہ کے سامنے آتا ہے تو کیا وہ مصلحت سے کام لیں گے (جس کی توقع بہت ہی کم ہے) یا آئین کی حفاظت کی لئے ایک سخت فیصلہ کریں گے؟