• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاڑکانہ میں ملک کےیوم آزادی والے دن پاکستان کے پرچموں کے اسٹال پر موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں کے ہاتھوں پیٹرول بم پھینکنے سے اسٹال پر بیٹھی ایک سات سالہ بچی سمیعہ بری طرح جھلس گئی جسے کراچی منتقل کیا گيا پر وہ چند دن بعد شدید زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئی۔ سمیعہ کے قاتل کون ہیں؟ مبینہ طور پر سندھی انتہاپسند علیحدگی پسند جنہوں نے پاکستانی کی یوم آزادی والے دن کو’’یوم سیاہ‘‘ منانے کا اعلان کیا تھا اور حسب روایت یہ لوگ اپنی بزدلانہ کارروائیوں میں چھوٹے بڑے کریکر پھاڑ کر ، پیٹرول بم پھینک کر یا مسافر ٹرینوں اور بسوں پر حملے کر کےعام بے گناہ معصوم لوگوں کو اپنی جنگ آزادی کا نشانہ بناتے ہیں۔ اسی طرح مجھے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ معصوم سمیعہ بھی انکی نام نہاد سندھو دیش کی تحریک کا نشانہ بنی۔
میرے دوست زاہد مخدوم نے کئی برس قبل ایسے لوگوں کو اپنی ایک تحریر کردہ کہانی میں ’’ کتابوں سے نفرت کرنے والے گوریلے اور منزل سے بھٹکے ہوئے انقلابی ‘‘ قرار دیا تھا۔سمیعہ کا ایسی دہشت گردی کے ذریعے قتل لاڑکانہ میں انتظامیہ سول چاہے غیر سول اور سندھ حکومت کی ایک اور بڑی ناکامی کی قلعی کھول دیتا ہے ۔ لاڑکانہ جو حکمران پی پی پی کے سرپرست بلاول بھٹو زرداری کا ننھیال ہے۔ بھٹوئوں کی جنم بھومی ہے۔ لاڑکانہ جو سندھ کادوسرا دارالحکومت ہے، وہاں ملک کی آزادی والے دن ایک سات سالہ بچی کو دوسری قسم کی آزادی کے نام پر پیٹرول بم سے لکڑی کی طرح شعلہ بنا کر جھلسا کر مار ڈالا گيا ۔
اگر اٹک میں اس کے دوسرے تیسرے روز مذہبی انتہاپسند دہشت گردوں نے وزیر داخلہ شجاع خانزادہ کو خودکش حملے میں قتل کیا تو سندھ کے شہر لاڑکانہ بھٹوئوں اور اب زرداریوں کے گڑھ میں نام نہاد سیکولر قوم پرست دہشت گردوں نے سات سالہ بچی سمیعہ کو۔ سمیعہ جو سندھ کی بیٹی تھی اس کی جھلسی ہوئی لاش کو پاکستان کے قومی پرچم میں لپیٹ کر دفن کردیا گیا ۔ اب اس پر جو بھی ڈائیلاگ مارے جائیں لیکن یہ فرشتہ پھر واپس اس دھرتی پر نہیں آئے گی۔جس طرح سندھی نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنا قابل مذمت ہے اسی طرح سمیعہ کا دہشت گردی کے ذریعے قتل بھی انتہائی قابل مذمت ہے۔ خلاف انسانیت جرم ہے۔ نہ دنیا کے کسی بھی قانون اور انسانی حقوق میں یا کسی بھی سیاسی جدوجہد میں اس کا کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے۔ سمیعہ کے قتل اور ایسی ننگی دہشت گردی کے خلاف بہت ہی کم آوازیں اٹھی ہیں۔ سندھ کی لاکھوں کروڑوں ڈالروں میں کھیلنے والی سول سوسائٹی، زیادہ تر سیاسی پارٹیوں کو بھی سانپ سونگھ گیا ہے۔ اس معصوم دہشت گردی کی شکار سمیعہ پر کون دھرنا دے گا۔ دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف جھنڈا اٹھانے والا میرا دوست ایاز لطیف بھی نہیں۔ لیکن جو بھی سوشل میڈیا پر اب بھی انسانیت سے بھرپور دل اور ذہن جاگ رہے ہیں جنہوں نے معصوم سمیعہ کے قتل پر احتجاج کیا ہے ان کو خاموش کروانے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ جھوٹی تاویلیں گھڑی جارہی ہیں۔ایسی تاویلیں گھڑنے والوں کا کہنا ہے کہ سندھ میں یہ مذموم کام یہ نام نہاد سندھی گوریلے نہیں کرسکتے۔ یہ کام ’’سندھ میں آزادی کی تحریک کو بدنام کرنے کے واسطے ایجنسیوں‘‘کا ہے۔ یعنی کہ ایجنسیاں ملک کی آزادی والے دن قومی پرچموں کے ایک اسٹال پر جاکر پیٹرول بم پھینکیں گی اور اس سے سات سالہ سمیعہ ہلاک ہو جائے گی۔ اگرچہ ایجنسیوں سے بھی کچھ بعید نہیں ہوتا۔ ایجنسیاں اس طرح کے مذموم کام کرتی بھی ہیں۔ جیسے شاہ ایران کے آخری دنوں میں آباد ان کے ایک سینما گھر کو آگ شاہ کی بدنام زمانہ جاسوسی ایجنسی ساواک کی کارستانی کہا جاتا ہے۔ نازی جرمنی میں ریشتاغ کی پارلیمان کو آگ سب جانتے ہیں کہ ہٹلر کی کارستانی تھی۔ بھارت میں سمجھوتہ ایکسپریس ابھی کل ہی کا اندوہناک واقعہ ہے۔ لیکن سندھ میں لوگ جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا۔ یہ غیرریاستی دہشت گردی ہے۔ یہ طریقہ واردات اس تنظیم سے ہمدردی رکھنے والے بھی کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کا ہی ہے۔ سندھ میں ساری انگلیاں ایک قوم پرست انتہاپسند زیر بندش تنظیم کی طرف اٹھ رہی ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ اس تنظیم کے بیسیوں لوگ غائب کرکے تشدد سے ہلاک کردیئے گئے ہیں ان کی مسخ شدہ لاشیں ان کے ورثا کو موصول ہوئی ہیں۔ سندھ میں نہ کوئی آزادی کی جنگ ہے اور نہ ہی مسلح جدوجہد اور نہ ہی اسے عام سندھیوں کی کسی بھی قسم کی حمایت حاصل ہے۔ پھر بھی مٹھی بھر دہشت پسند لوگوں کو مسخ شدہ لاشیں اور قبریں چاہئیں۔ لاشوں کی سیاست بھی ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ شہدا سندھ چاہئیں۔سندھی ایسی دہشت گردانہ قوم پرستی کی کبھی حمایت نہیں کرسکتے۔ سندھ میں ایسی کئی قوم پرست تنظیمیں اور گروپ ہیں جو عدم تشدد پر سخت یقین رکھتے ہیں۔ لیکن اس مٹھی بھر گینگ جو خود کو آزادی پسند کہتا ہے کے متعلق کوئی ان والدین سے جاکر پوچھے جن کے بچوں کو ورغلاکر لارے دے کر سندھ کے ’’گوریلے‘‘ بنادیا گیا ہے۔ لاڑکانہ کا دیہاڑی مزدور مشتاق شیخ جو یوم آزادی والے دن جھنڈے بیچنے نکلا تھا اس کے ٹھیلے پر ان ’’گوریلوں‘‘ نے کارروائی کی۔ جس میں اس کی سات سالہ بچی شدید زخمی ہوکر کچھ دنوں بعد فوت ہوئی۔ مجھے معلوم ہے کہ لاڑکانہ کی انتظامیہ اور سندھ کے حکمرانوں کے بچے محفوظ ترین ممالک میں ہیں۔ غریب کی بچی کا دہشت گردی سے تحفظ شاید نیشنل ایکشن پلان کا حصہ نہ ہو۔ اس جھلسی ہوئی بچی کی ہاتھ میں گلاس تھامے، پانی پیتے ہوئے آخری تصویر تھی جو ميڈیا اور سوشل میڈیا پر جاری ہوئی۔ یہ بچی مجھے ان تمام تر قسم کی آزادیوں کے دعوئوں پر ایک گھونسا لگنے لگی۔ تف ہو تم پر کہ کسی کو زندگی کے تحفظ کی آزادی بھی نہیں دے سکتے۔ نہ اس کا احترام کرتے ہو۔شیخ ایاز نے کہا تھا کہ میں ایٹم بم کی حمایت اس لئے نہیں کرسکتا کہ میں اپنی آنکھوں کے سامنے بیٹھی اپنی بچی کو اس کی سالن کی پلیٹ سمیت ٹکڑے ٹکڑے اڑتا دیکھ رہا ہوں۔ مجھے وہ بچی لاڑکانہ کی سمیعہ لگی۔ سمیعہ کے قاتل کیفر کردار تک فوری پہنچنا چاہئیں۔ کوئی بات نہیں کہ یہ بچی کسی آرمی پبلک اسکول میں نہیں گئی تھی۔
تازہ ترین