انگلستان کے گائوں سمرسیٹ میں بدھ مت کے عظیم رہنما دلائی لامہ کو ان کی 80ویں سالگرہ کے موقع پر ہفت روزہ میوزک فیسٹیول کے ذریعے خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ اس موقع پر دلائی لامہ نے عراق و شام میں تشدد آمیز واقعات کو ناقابل یقین قرار دیا۔لیکن 2011ء کے بعد میانمار برما میں بدھ مت کی جو تصویر اقوام متحدہ اور دوسرے متوازن و غیرمتعصب اداروں نے عکس کی ہے اس سے بدھ مت کے پیروکاروں کی انسانیت اور امن پروری کی جو تصویر ابھرکر سامنے آئی ہے وہ بھی عام انسان کے لئے ناقابل یقین ہے۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ہولوکاسٹ میوزیم نے ذیلی ادارے Simon-Skjodj سینٹر کے ہمراہ نسل کشی کے خلاف بین الاقوامی سطح پر میانمار کے بارے میں معلومات جاری کی ہیں۔
مارچ 2015ء میں سائمن سوڈٹ سینٹر نے روہنگیا مسلمانوں اور دیگر بدھ اقلیتوں کا جائزہ لینے کے لئے میانمار کا دورہ کیا۔ جہاں انہوں نے اقلیتوں کو غیرانسانی برتائو، تشدد، عدم تحفظ کی تمام صورتوں کا شکار پایا۔ یہ اقلیتیں خاص طور پر روہنگین مسلمان نسل پرستی اور تعصب کی ریاستی پالیسی کا نشانہ ہیں۔اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کے 28ویں سیشن کی جنرل اسمبلی رپورٹ کے مطابق 2011 سے میانمار میں ایک خاص طبقے کے خلاف متعصبانہ اور نسلی تنازع کی جس پالیسی پر عمل درآمد شروع ہوا ہے اس میں برمی حکومت مکمل طور پر ملوث ہے۔ اس رپورٹ میں Rakhine صوبے کی ناقابل بیان صورتحال پر روشنی ڈالی گئی ہے جہاں دولاکھ چالیس ہزار مسلمانوں کو کیمپوں میں رہائش پذیر ہونا پڑا۔ اس علاقے میں مختلف آبادیوں میں عداوت کی شکل ناقابل برداشت ہوگئی ہے۔پارلیمنٹ کے منظور کردہ نسل اور مذہب کی حفاظت کے بل کی وجہ سے میانمار میں ایک ہم آہنگ سوسائٹی کی بجائے متعصب رویوں اور منفی سیاست میں مزید پختگی آگئی ہے۔مغربی برما میں بنگلہ دیشی سرحد پر دس لاکھ روہنگین مسلمان صدیوں سے رہائش پذیر تھے۔ اس قبیلے کی تاریخی جڑیں قدیم زمانے سے اس علاقے میں موجود ہیں۔ لیکن عام برمی اور حکومت انہیں بنگلہ دیشی شمار کرتے ہیں۔ حکومتی سطح پر روہنگین اور دوسری بدھ اقلیتوں کو بنگلہ دیشی قرار دیکر ان کا حق شہریت 1982ء کے قانون شہریت کے تحت منسوخ کردیا گیا ہے۔
آج یہ دس لاکھ روہنگین مسلمان بے گھر بے وطن پناہ گزین ہیں۔شام، عراق، لیبیا کے مہاجرین کے بڑھتے ہوئے مسائل کی وجہ سے روہنگین مسلمانوں کے بارے میں بین الاقوامی طور پر جورائے بیدار ہونی چاہئے تھی وہ نہ پیدا ہوسکی۔ یورپ کی صحافت اور سوشل میڈیا میں اٹلانٹک سمندر میں پناہ گزینوں کی صورت حال پر لمحہ بہ لمحہ تبصرہ نشر ہورہا ہے جبکہ میانمار کے بوٹ مہاجرین کے بارے میں اس تشویش کا اظہار نہیں کیا جارہا جس کے وہ متقاضی ہیں۔ اس لئے کہ وہ یورپ سے دور خلیج انڈمان اور بنگال میں انڈونیشیا، ملائیشیا اور تھائی لینڈ کے رحم و کرم پر ہیں۔
ملٹری آمروں نے بدھسٹ نیشنل ازم کو مضبوط کرتے ہوئے اس مسئلے کو جلابخشی۔ بدھسٹ قومیت کو ابھارنے کے لئے قابل فخر ماضی کے بادشاہوں کی اس طرح نمائش اور سرپرستی کی گئی جس طرح نازی جرمنی میں عظیم جرمن رسیس کے بارے میں پروپیگنڈا کیا گیا تھا۔ آمرانہ دور کے تمام عرصے میں نسل اور مذہب کی حفاظت اور برتری کے لئے ایسے قانون اور پالیسی وضع کی گئی جسے Burmanisation کا نام دیا گیا۔ جو بین المذاہب شادیوں، تبدیلی مذہب اور مسلمانوں میں شرح پیدائش میں اضافے کے خلاف ہے۔ جس کے لئے ہر حربہ اور ذرائع استعمال کئے گئے جس کے نتیجے میں مقامی آبادی اور اقلیتوں کے درمیان ایک تنائو کی فضا قائم ہوگئی شمالی Rakhine ضلعوں میں روہنگین اپنی مرضی سے شادی اور اولاد پیدا کرنے کے بنیادی حق سے محروم ہیں ۔ Mangdaw, Buthidaung کے علاقوں میں مسلمانوں کو ایک شادی اور دو بچے پیدا کرنے کا حق ہے۔ خلاف ورزی پر جرمانہ اور قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ اس حکومتی پالیسی کو روہنگین لیڈر Genocide اور Apartheid کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ 2012 کے فسادات میں ایک لاکھ چالیس ہزار مسلمانوں کو نقل مکانی کرنا پڑی اس کے بعد ان کے مکانوں کو آگ لگادی گئی تاکہ یہ دوبارہ واپس نہ آسکیں۔
2014 میں Doctors Without Borders نامی NGO کو ریاست سےبے دخل کردیا گیا جس کی وجہ سے بچوں کی اموات میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اور یہی حال غذائی ترسیل میں ہرممکن رکاوٹ کا بھی ہے تاہم ناروے کے رحما ریلیف اپنے نارویجین وسائل اور ذرائع سےاراکان میں تعلیم، غذائی ترسیل، ادویات اور صاف پانی بہم پہنچانے میں کافی حد تک کامیاب ہے۔
انتہاپسند جماعت نیشنل موومنٹ حکومتی سرپرستی اور مذہبی قیادت میں اینٹی روہنگین مہم چلانے میں کامیاب ہے۔ مسلم کمیونٹی کا تجارتی اور معاشرتی بائیکاٹ اس لئے بھی موثر ہے کہ اسے بے انتہا بااثر مذہبی اور سیاسی رہنما چلارہے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں کے لئے نفرت، تعصب کے اس مائنڈسیٹ کو تبدیل کرنا اس لئے بھی مشکل ہے کہ اصل قوت کا سرچشمہ آج بھی ملٹری ہے جمہوریت وہی تسلیم کی جائے گی جسے سابق جنرل Thein Sein تحریر کریں گے۔
ملائیشیا کے علاوہ کسی اورملک نے ان بوٹ مہاجرین کی قابل ذکر مدد نہیں کی۔ سائوتھ ایسٹ ایشیا کے ممالک اس معاملے کو میانمار کا اندرونی معاملہ تصور کرتے ہوئے خاموش ہیں۔ وہ میانمار سے اپنے تجارتی اور سفارتی تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتے۔ کیا اس میں پاکستان بھی شامل ہے کہ F-17 Thunder کا متوقع خریدار میانمار ہے؟
ناروے کا کردار اس تمام پس منظر میں اس لئے بھی قابل ذکر ہے کہ میانمار میں آمریت سے جمہوریت کی جانب منتقلی میں ناروے اقتصادی میدان میں بہت اہم کردار ادا کررہا ہے۔ اس تعلق کو مدنظر رکھتے ہوئے برما ٹاسک فورس امریکہ کے مالک مجاہد نے روہنگین مسلمانوں کی منظم نسل کشی کے خلاف نوبل انسٹی ٹیوٹ ناروے کے تحت اوسلو میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا۔ نارویجین برمیز کمیٹی کی جانب سے سابق پرائم منسٹر Kjell Magne Bondevik نے اپنے کلیدی خطاب میں نارویجین حکومت سے ہر ممکن تعاون کی اپیل کی۔ نوبل کمیٹی نے ڈاکٹر مہاتیر محمد صدر گلوبل پیس فائونڈیشن اور نوبل انعام یافتگان ڈاکٹر جوزف راموس (تیمور) آئرش پیس ایکٹوسٹMairea امرتیاسین ماہر معاشیات (انڈیا) اور آرچ بسٹوپ Desmond Tutu (سائوتھ افریقہ) نے روہنگین مسلمانوں کے لئے امن، مفاہمت، ہم آہنگی اور مساوی حقوق کا پیغام دیا۔نوبل انعام یافتہ برمی خاتون Aung Suukyi کی اس تمام ظلم اور ناانصافی کے خلاف خاموشی کی قابل فہم وجہ 2015 کے انتخابی سال بدھ ووٹروں کو ناراض نہ کرنا بتائی گئی۔
بدہسٹ مذہبی رہنما We Thuda نے واضح طور پر فرمایا کہ بدھ مت میں نسل کشی اور تعصب کی کوئی گنجائش نہیں۔ امام حامد فاروق نے اسلامک کلچرل سنٹر ناروے کی جانب سے ہر قسم کے تعاون کو یقین دہانی کرائی۔
Norsk Folke Hielp میانمار میں بارودی سرنگوں کو سمیٹنے میں سب سے بڑی معاون اور مددگار ہے۔ جسے برمی حکومتی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ لہٰذا ناروے میں روہنگین مسلمانوں کے لئے لابی استوار کرنا ناروے میں مقیم مسلمانوں کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔