جب وہ ’’پرچن شال پنوہار ڈھولا‘‘ (کاش میرے لوگ مجھ سے راضی ہوں ڈھولا) کی تان لگاتا تو ایسے لگتا ابھی ابھی قیدی مارئی بادشاہ عمر سومرو کے قلعے کے بدیخانوں کو توڑتی ہوئی اپنے مارو لوگوں سے آکر ملے گی۔ سننے والوں کو استاد منظور علی خان سامعین کی آواز سن کر یوں لگتا شاہ لطیف بھٹائی کی اس کافی میں مارئی کی روح ایک سمفنی بن کر استاد کے گلے، آنکھوں اور ہاتھوں کی آواز و حرکات میں سے نکل کر زندہ آزاد و پائندہ ہوگئی ہے۔ یہ کوک اسٹوڈیو سے بہت بہت پہلے کی بات ہے۔
کل اس استاد منظور علی خان کی برسی ہے جسے گزشتہ چھتیس برسوں سے سندھ کے محکمہ ثقافت نے تو فراموش کردیا ہے لیکن مارئی کی روح اور شاہ لطیف کے بیتوں، کافیوں جیسا استاد منظور علی خان سندھ اور اس کے مارو لوگوں کے پاس ایک ناقابل فراموش فنکار ہے۔ ایک لاطمع فقیرفنکار جس نے اپنی گائیکی کے انداز میں شاہ لطیف کی شاعری اور اس کے کرداروں کو ماضی کی داستان نہیں بننے دیا بلکہ ہمارے حال میں امر رکھا۔ جیسے بھٹ شاہ پر بیٹھے صدیوں زمانوں سے شاہ کے ہی عہد سے لے کر اس کے سماع کے انداز میں تنبورے پر گاتے تمرانی فقیر جن پر درگاہ کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں۔
سندھی زبان استاد منظور علی خان کی مادری زبان تو نہیں تھی لیکن استاد اور اس کے آبا و اجداد بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے مادری زبان سندھی نہ ہوتے ہوئے بھی سندھی شاعری، موسیقی اور ادب کو نت نئے گہنے دیئے ہیں۔ سندھی زبان شاعری و موسیقی کو چار چاند لگادیئے۔
استاد منظور علی خان کا تعلق برصغیر میں گائیکوں کے گوالیار خاندان سے تھا جن سے ہندوستان کا عظیم ترین گائیک تان سین بھی تھا۔ شاید بہت ہی کم لوگوں کو پتہ ہوگا کہ نظام حیدرآباد کے دربار میں اگر داغ دہلوی شاعر کی حیّثیت سے تھے تو اس دربار کے گائیک بنے خان تھے جو استاد منظور علی خان کے جد امجد تھے۔ یہ گوالیار گھرانہ تھا کہ جس نے بقول موسیقی کے اسکالر بونی سی زوئڈ کے برصغیر میں مروج گائیکی سے ہٹ کر امیر خسرو کے راگ خیال کی گائیکی کو متعارف کروایا۔ جبکہ اس سے قبل گویئے درپت راگ میں گایا کرتے تھے۔ کرانا گھرانہ ،شام چوراسی، پٹیالہ گھرانوں سے کہلوانے والے گائيک جن میں نزاکت علی خان سلامت علی خان تھے یہ سب اکثر درپت میں ہی گایا کرتے تھے۔ لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے، اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے۔
(سلامت علی خان اور نزاکت علی خان کا گایا ہوا استاد ابراہیم ذوق کا یہ لافانی کلام بھی درپت میں تھا۔ میں نے بچپن میں ذوالفقار علی بھٹو کو ان کے لاہور کے ایک بڑے جلسے میں یہ سطریں اپنے ٹوٹے پھوٹے انداز میں دہراتے ریڈیو پر سنا تھا۔ پھر انہوں نے کہا یہ قضا استاد نزاکت علی سلامت علی کو لے جائے گی۔ یہ قضا سرمایہ داروں جاگیرداروں کو لے جائے گی)۔تو خیال سیکھنا جنون میں مشرقی پنجاب کے نوشہرہ کےایک چھوٹے گائوں سے نوجوان بنے خان کو ہندوستان کے شمال میں لے گیا جہاں وہ دو گویوں ہدو خان اور وسو خان کے پاس گھریلو نوکر بھی بن گیا جسے ان کے گھر کے خانگی حصے میں آنے جانے کی اجازت ہوتی۔ جب یہ دونوں بڑے گویئے پو پھٹے ریاض کر رہے ہوتے تو یہ لڑکا بنے خان انہیں یک ٹک سنا اور دیکھا کرتا۔ یہ وہ دن تھے وہ دن کیا آج بھی ایسا ہے کہ جب اساتذہ پرانے زمانے کے حکیموں کی طرح نسخے کسی کو نہیں دیتے یا سمجھاتے تھے بلکہ قبر میں ساتھ لے جاتے تھے۔ لیکن ان گوئیے بھائيوں وسوخان اور ہدو خان نے خیال کی گائیکی اس خیال سے اپنے ملازم لڑکے کو سکھائی کہ ’’بچہ!سیکھ لے شاید زندگی میں راگ تجھے کام آجائے‘‘ تو یہ وہی بنے خان تھے جنہوں نے تمام پنجاب میں خیال کی گائیکی کو متعارف کروایا۔اسی استاد بنے خان کے خانوادے سے برصغیر میں موسیقی کے معروف نام استاد بی بے خان، ان کے صاحبزادے پیارے خان، امید علی خان، سندھو خان غلام رسول خان، نوازش علی خان،جمالو خان جو کہ استاد منظور علی خان کے والد تھے گوالیار گھرانے کے اسی نسب و حسب سے ہیں۔ استاد سندھو خان ان سب اساتذہ میں سے ذوق و شوق کا صاحب تھا۔ یہ ستار بھی بجاتے تھے ، اور راگ ویراگ میں سندھو خان سندھ کے ایک درویش صفت سیاستدان و شاعر مخدوم محمد زمان طالب المولی کے استاد بھی تھے۔
وحید علی رجب علی اور ان کے بڑے بھائی اور پاکستان میں ہمارے کلاسیکل موسیقی کے زندہ بڑے نام استاد فتح علی خان بھی استاد منظور علی خان کے بھانجے اور زمانہ روزگار گائیک و استاد غلام وسول خان کے فرزند ہیں۔
بی بے خان کے اس خاندان نے برصغیرکی تقسیم سے بہت پہلے نوشہرہ پنجاب سے نقل وطنی کر کے سندھ کو آباد کیا ۔ خیرپور میرس ریاست میں آکر بسا اور ہزہائی نیس خیرپور کے دربار اور امام بارگاہوں میں ان کے فن اور عقیدت کو پذیرائی ملی۔ہزہائی نیس نے ان کے خانوادے کے غلام رسول جانی کو اس کے راگ پر تب کے ایک لاکھ روپے انعام دیا جس سے بقول خاندان کے افراد کے انہوں نے جیسلمیر میں مسجد تعمیر کروائی ۔ جس پر کئی برس غلام رسول جانی کا نام کندہ رہا۔خیرپور میرس سے جمالو خان کا خاندان شکارپور سندھ میں آکر بسا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب غیر منقسم ہندوستان سے بڑے بڑے گویئے سندھ میں ہونے والے ہنڈولوں (مقابلہ رقص و موسیقی ) میں شرکت کر کے اپنے فن کا مظاہرہ کیا کرتے۔ اسی وقت اور اس کے بعد بھی ہندوستان کے بڑے بڑے گائیکوں نے سندھی کلام گائے ۔ جن میں بڑے غلام علی خان امیر علی خان تک شامل تھے۔ ایک عظیم مائیسٹرو نے گایا ’’جادو لائے ویا جی میں‘‘ (کہ وہ میرے جی میں جادو جگا کر چلے گئے)۔
استاد منظور علی خان نے پانچ سال کی عمر میں اپنے درویش منش والد اور گائیک جمالو خان سے راگ سیکھنا شروع کیا اور سات آٹھ سال کی عمر میں باقاعدہ گانا شروع کیا۔ایسے ہی ایک ہنڈولے میں جب اس آٹھ سالہ بچے کو بڑے غلام علی خان سے پہلے گانے کا موقع دیا گیا تب کے اس ماسٹر منظور علی خان نے خوب گایا ایسا گایا کہ کہتے ہیں اس بچے کے بعد اسٹیج پرآنے والے بڑے غلام علی خان کا راگ پھر اس رات لگا نہیں۔
منظور علی خان نے بھٹائی کے سندھی کافی بیت اور وائی کو خیال کے انداز میں پیش کیا اور یہ بھی ان سے پہلے بہت کم تھا کہ گویا جس راگ میں گا رہا ہے شعر و دوہیڑہ اور بیت بھی اس راگ میں دے۔ اس خیال کو استاد منظور علی خان نے عام کیا۔ سندھ کے عظیم ترین صوفی اور شاعر شاہ عبدالطیف کے کلام کو کلاسیکی انداز میں پیش کرنے پر قدرت استاد منظور علی خان کو رہی ۔ شاہ کی وائی اور سندھ اور پنجاب و سرائیکی وسیب کے صوفیوں کی کافی یا شیخ ایاز اور فیض احمد فیض جیسے جدید شاعروں کے کلام کو بھی ایک منفرد اور خیال کی گائیکی استاد منظور علی خان کا ہی معراج فن تھا۔ سندھ میں انیس سو ساٹھ اور ستر کے سندھی ادیبوں اور طالب علموں کی نئی نسلوں میں اب استاد کو ایک مرکزی معشوق کی حیثیت حاصل رہی۔ عاشقان سندھ کا معشوق۔ یہ سب شاہ لطیف کے دربار کی دین تھی۔
انہی دنوں میں ون یونٹ اور مارشل لائوں کے زمانوں میں سندھی ادبی اور سیاسی تحریکوں والے شاہ لطیف کا دن منایا کرتے ۔ سندھی شامیں منعقد کیا کرتے جن میں موسیقی کی محفلیں استاد کے دم سے آباد تھیں۔ جی ایم سید کی استاد منظور علی خان سے ایک خاص محبت تھی۔سندھ میں شادیوں اور موسیقی کی بڑی بڑی محفلوں میں بھی استاد اپنے فن کا مظاہرہ کیا کرتے۔استاد منظور علی خان کو انیس سو اسی کی دہائی میں گورنر جہانداد خان کے ہاتھوں تمغہ اعلیٰ کارکردگی یا پرائیڈ آف پرفارمنس ملا اور سولہ ایکڑ زمین کی الاٹمنٹ کا وعدہ جو آج تک وفا نہیں ہوا۔ لیکن استاد منظور علی خان جیسے اعلیٰ پائے کے گائیک و فنکار کو اپنی کارکردگی کے لئے ایسے اعزازات کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ ہمارے ملک اور سندھ کا اعزاز تھا یہ عظیم فنکار اس مٹی میں پیدا ہوا اور اسی مٹی میں دفن ہوا۔ وہ بڑے غلام علی خان کی طرح ہماری بے قدری اور ناشناسی کے مرض کو بھانپتے ہوئے بھی اپنی جگہ رہے۔