ہمارے ہاں اوپن ڈسکشن بے لاگ مکالمہ نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے نظریات یا اصطلاحات کے بارے میں غلط تصّورات پائے جاتے ہیںجو سرا سر کم علمی کے زمرے میں آتے ہیں۔ خصوصاََ جہاں بھی لفظ ’’ازم‘‘ آجائے تو اسے سیدھے ’’کفر‘‘ کا متبادل قرار دے دیا جاتا ہے حالانکہ انگریزی کا یہ لفظ مختلف کیفیتوں کے اظہار کے لئے بولا جاتا ہے جیسے Oppurtunism موقع پرستی Materialism مادیّت یا Spirtualismروحانیت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ان تمام اصطلاحات میں مذہب دشمنی کا کو ن سا پہلو ہے۔ اسی طرح دائیں بازو کے انتہا پسند دانشور سوشلزم اور کمیونزم کو بھی لادینیّت کے معنوں میں استعمال کرکے بھولے بھالے عوام کو گمراہ کرتے رہتے ہیں۔ جن کا تعلق صرف ایک مخصوص معاشی نظام سے ہے جس کا بنیادی مقصد دولت کی مساوی تقسیم اور سود کا خاتمہ ہے ۔ جو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ یہ نظام سائنسی طور پر اس نظامِ معیشت کو بیان کرتے ہیںجس میں ارتکازِ زر کا سدّ ِ باب کیا جا سکتاہے۔ اسی طرح یہ دانشور سیکولرازم کو بھی کفر قرار دینے میں پیش پیش ہیں جس کا مذہبی اعتقادات سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں۔ الحاد کے لئے انگریزی میں Atheismکا تعلق بولا جاتاہے اور (aitheist) اس شخص کو کہتے ہیں جو خدا یا کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتا ۔ لیکن سیکولر ازم کا لادینیّت سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی یہ مذہب کے وجود یا اسکی ترویج و اشاعت پر کوئی پابندی لگاتا ہے۔ فری انسائیکلو پیڈیا وکی پیڈیا (Wikipedia)کے مطابق سیکولرازم ریاستی اداروں اور ریاست کی نمائندگی کرنے والے افراد کی مذہبی اداروں اور مذہبی افراد سے علیحدگی کا نام ہے۔ مذہبی اداروں اور مذہبی افراد کی مذہب کے بارے میں متضاد آرا اور روّیوں کی وجہ سے معاشرے میں پیدا ہونے والی فرقہ وارانہ منافرت اور جنگ و جدل کو روکنے کے لئے ریاستی امور کو مذہبی اداروں کی بالادستی سے علیحدہ کرنے کا خیال سب سے پہلے ایک اطالوی قانون کے پروفیسر البیر یکو جینٹلی
(1587-1608)نے پیش کیا جبکہ سیکولرازم کا لفظ سب سے پہلے برطانوی ادیب جارج جیکب ہولیوک نے 1851میں استعمال کیا تو اس کے خلاف مذہبی حلقوں نے لادینیّت کا الزام لگایا۔ Secularism is not Atheismیعنی سیکولرازم لادینیّت نہیں ہے کے زیرعنوان اپنے آرٹیکل میں جیکیوبرلینز بلائو (Jacques Berlineblau)وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ سیکولرازم کا مطلب ہرگز لادینیّت نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعے ہر فرد کے مذہبی عقائد کے بھر پور تحفظ کو یقینی بنانا مقصود ہے۔ ایران کی ایک قانون دان میرم نمازی کو 2005میں اس بناء پر ایوارڈ دیا گیا کہ اس نے یہ ثابت کیا کہ سیکولرازم اسلامی اقدار سے متصادم نہیں۔ کیونکہ یہ مذہبی رواداری کی ترویج کرتا ہے اور فرقہ وارانہ منافرت کا راستہ روکتا ہے۔
دنیا کا ہر مذہب قتل و غارت گری اور جنگ و جدل کا مخالف ہے۔ وہ انسانی معاشرے میں امن اور سکون کا داعی ہے لیکن عملی طور پر انسانوں نے اپنے ذاتی مفادات کے لئے مذہب کے نام پر سب سے زیادہ انسانی خون بہایا ہے۔ ہر مذہب ، مذہبی رواداری ، تحمّل اور درگزر کا سبق دیتا ہے لیکن دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ تنگ نظری کا مظاہر ہ مذہب کے نام پر کیا گیا ۔ چاہے وہ دوسرے مذاہب کے مقابل ہو یا ایک ہی مذہب کے مختلف فرقوں کے درمیان مذہب کے نام پر مذہبی تعلیمات کا کھُلے عام مذاق محض اس لئے اڑایا جاتا رہا کہ ایسے افراد کو ریاست کی پشت پناہی حاصل رہی کیونکہ ریاست کسی نہ کسی مذہبی فرقے کے تابع رہی تھی۔ مذہبی اصولوںکے مطابق بھی برداشت انسانی کردار کی افضل ترین خصوصیّت ہے۔ جوانسان کو فرشتوں سے بھی اونچا درجہ عطا کر تی ہے کیونکہ یہ خدائی صفت ہے کہ وہ خالق ِ کائنات ہونے کے باوجود اپنے منکرین کو بھی دنیا کی ہر نعمت بخشتا ہے ۔ خدا کے نزدیک اس کے تمام بندے اس کا کنبہ ہیں اور اسے محبوب و پیارے ہیں۔ اسی لئے وہ حقو ق اللہ سے بھی زیادہ حقوق العباد پر زور دیتا ہے۔ یہی سیکولر ازم یا مذہبی رواداری پر مبنی طرزِ عمل ہے جو کہ تمام انبیاء اولیاء و صوفیا ء کا بھی خاصہ تھا۔ سیکولر ازم حقو ق العباد کی فراہمی کو یقینی بناتاہے ۔ جس میں اس کے مذہبی حقوق کا بھی تحفظ شامل ہے۔ ایک ملک یا ریاست کے اندربسنے والے افراد کے کئی مذاہب ہوتے ہیں۔ جن کا تحفظ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ لیکن اگر ریاست بذاتِ خود مذہبی ہو تو ظاہر ہے کہ اس کا مذہب کسی ایک مذہب کے بہت سے فرقوں میں سے ایک فرقے کا مذہب ہی ہوسکتا ہے۔ ایسے میں وہ دوسرے مذاہب اور اپنے مذہب کے دوسرے فرقوں کے عقائد کا غیر جانبداری سے دفاع کیسے کر سکتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ریاست کا بذاتِ خود کوئی مذہب نہ ہو تاکہ وہ غیرجانبداری کے ساتھ اپنے تمام شہریوں کے عقائد اور مفادات کا تحفظ کر سکے۔ سیکولرازم میں دیگر حقوق کی طرح حقِ مذہب کو نہ صرف تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ اسکی بلا روک ٹوک ادائیگی کو یقینی بنایا جاتاہے۔ سیکولر ریاست کسی نسلی ، لسانی ، مذہبی یا ثقافتی امتیاز کے بغیرتمام شہریوں کو یکساں حقوق دیتی ہے۔ اس میں دو اہم اصول ہوتے ہیں (1) قانون کی بالا دستی (2)قانون کی نظر میں تمام شہریوں کی برابری ۔ سیکولرازم اور جمہوریت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جمہوریت صرف انہی معاشروں میں پروان چڑھ سکتی ہے جہاں سیکولرازم ہو کیونکہ جمہوریت بھی سیکولرازم کی طرح قانون کی حکمرانی کا نام ہے۔ اس میں مذہب کے نام پر کوئی اکثریت یا اقلیّت نہیں ہوتی اور ریاست کا ہر شہری برابر کے حقوق رکھتا ہے۔ آج دنیا کا ہر مہذب معاشرہ جمہوریت اور سیکولرازم کا داعی ہے تو کیا وہ علی الاعلان ظلم اور کفر کی حمایت کررہا ہے۔ آج جو قومیں جن اصولوں پر چل کر ترقی کی معراج پر پہنچ چکی ہیں وہ قانون ِ فطرت کے عین مطابق ہیں جن پر کسی مذہب یا عقیدے کی اجارہ داری نہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ سیکولر ازم کے ذریعے نہ صرف بہتر طور پر اپنے مذہبی عقائدکا تحفظ کیا جاسکتا ہے بلکہ معاشرے کو فرقہ وارانہ منافرت سے بنایا جاسکتا ہے۔
(اس موضوع پر اگر آپ اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو ادارتی صفحات حاضر ہیں)