وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ قومی مفادات کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور 3 نومبر کے اقدامات پر صدر پرویز مشرف کا مواخذہ ہونا چاہئے۔ اعلان مری پر عملدرآمد نہ ہونا بدقسمتی کی بات ہے۔ 18 فروری کو عوام کی طرف سے دیئے گئے مینڈیٹ کے تحت ججوں کو بحال اور عدلیہ کو آزاد ہونا چاہئے۔ منصورہ میں امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف کا موقف یہ ہے کہ جب تک جج بحال نہیں ہوتے عدلیہ بھی آزاد نہیں ہو گی۔ مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کے درمیان اعتماد کا رشتہ ہے ان کا کہنا تھا کہ وہ تحمل اور بردباری سے مسائل حل کرنے کے موقف پر قائم اور پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتے۔ اس موقع پر قاضی حسین احمد نے بھی اس موقف کی تائید کی کہ ملک میں عدلیہ موجود نہیں اور 3 نومبر کے اقدامات پر صدر مشرف کا مواخذہ ہونا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی کے درمیان اعتماد کا رشتہ ہے۔ آج پوری قوم پرویز مشرف کا مواخذہ چاہتی ہے، ججوں کی بحالی کے بغیر ملک میں کوئی نظام نہیں چل سکتا۔
18 فروری کے انتخابات میں وفاق میں حکومت سازی کے لئے کوئی سیاسی جماعت قطعی اکثریت حاصل نہ کر سکی البتہ پاکستان پیپلز پارٹی کو عددی برتری حاصل ہو گئی تھی اور حکومت سازی کے لئے اسے دوسری جماعتوں کے اتحاد اور اشتراک عمل کی ضرورت تھی ورنہ ملک میں جمہوریت کی بحالی کا عمل متاثر ہو سکتا تھا۔ مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں حکومت سازی کے لئے مکمل اور حمتی اکثریت حاصل کر لی اسے وفاق میں بھی دوسری بڑی پوزیشن حاصل تھی چنانچہ حکومت سازی کے لئے پی پی پی، مسلم لیگ (ن)، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے درمیان مشاورت سے حکومت سازی کا مرحلہ طے پا گیا۔ اس کے ساتھ ہی مری میں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد ایک معاہدہ طے پایا جس میں ججوں کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے پر اتفاق کیا گیا تھا اس کے علاوہ سابقہ حکمرانوں کے سوا باقی تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں صدر مشرف کے مواخذہ پر بھی متفق تھیں۔ معاہدہ مری میں طے پانے والے معاہدہ میں کوئی بات ایسی نہ تھی جسے قومی مفادات یا حکمران جماعت کے مفادات کے منافی قرار دیا جا سکے۔ اس میں طے پانے والے تمام معاملات پر دونوں رہنماؤں نے مکمل اتفاق کیا تھا اور اس پر عملدرآمد کا بھی وعدہ کیا تھا۔ اشتراک عمل کے اس معاہدہ کی بنیاد پر ہی پی پی پی کو وفاق میں حکومت سازی کا موقع ملا اور اس نے اے این پی، مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام کو بھی شریک اقتدار کر لیا لیکن اس معاہدہ پر ہنوز مکمل عملدرآمد کی نوبت نہیں آئی صرف گھروں میں نظر بند ججوں کو رہا کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا اصل مسئلہ ان کی بحالی اور صدر مشرف کے مواخذہ کا ہے جنہوں نے 8 سال تک تمام جمہوری اقدار کو نہ صرف پامال کیا بلکہ ملکی اور قومی مفادات کے منافی بھی فیصلے کئے خاص طور پر افغانستان پر امریکی حملے کی تائید و حمایت اور دہشت گردی کے نام پر قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن سے قومی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔
جب ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا اور اس کی بنیاد پر حکومت سازی اور اشتراک عمل کا آغاز ہوا تو پھر معاہدہ میں شامل جماعتوں کی یہ بنیادی ذمہ داری تھی کہ وہ اس پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں تاکہ اشتراک عمل مزید مستحکم ہو، جمہوریت کو استحکام اور فروغ ملے اور سیاسی جماعتوں اور جمہوریت پر عوام کے اعتماد میں بھی اضافہ ہو۔ اس معاہدہ کے لئے دونوں سیاسی جماعتوں پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں تھا انہوں نے پوری آزادی اور اپنی مرضی کے ساتھ قومی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ معاہدہ کیا لہٰذا اب قومی اور ملکی مفادات کا تقاضا یہ ہے کہ اس معاہدے پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا جائے لیکن یہ امر باعث افسوس اور تشویشناک بھی ہے کہ آصف علی زرداری اور حکمران جماعت کی طرف سے اس پر عملدرآمد کے لئے حیلے بہانے تراشے جا رہے ہیں اس کے لئے مزید وقت اور مہلت کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اسے قومی اسمبلی میں پیش بھی نہیں کیا جا گیا بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کو یہ شکایت ہے کہ حکومت نہایت اہم فیصلے کرتے وقت بھی نہ ان سے مشاورت کرتی ہے اور نہ ہی انہیں ان فیصلوں کے لئے اعتماد میں لیا جاتا ہے۔ گویا یہ فیصلے یکطرفہ بنیادوں پر کئے جاتے ہیں۔
معاہدہ مری کی خلاف ورزی اور اہم فیصلوں کے لئے حکومت کی طرف سے ن لیگ کو اعتماد میں نہ لینے پر وفاقی کابینہ میں شامل ن لیگ کے وزراء اپنے عہدوں سے الگ ہو گئے ہیں تاہم ن لیگ کی طرف سے پی پی پی کی حکومت کی تائید و حمایت جاری ہے۔ حکومت نے کسی اہم فیصلے کے لئے پارلیمنٹ کا اجلاس بھی طلب نہیں کیا یہاں تک کہ فاٹا کے علاقوں میں فوجی آپریشن، بھارت کے ساتھ تجارت کے فروغ اور متعدد دوسرے معاملات کے حوالے سے حکومتی فیصلوں میں اس کے اتحادیوں کا کوئی عمل دخل نہیں لہٰذا اس حوالے سے ن لیگ، عوامی نیشنل پارٹی اور دوسری اتحادی جماعتوں کی شکایات اپنے اندر ایک وزن رکھتی ہیں۔ اس وقت حکمران جماعت پی پی پی کی قیادت اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان سب سے زیادہ اختلافات ججوں کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی کے متعلق ہیں۔ اس کے ساتھ ہی صدر مشرف کے احتساب کا مسئلہ بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سابقہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ق) کی انتخابات میں شکست اور پی پی پی، مسلم لیگ (ن) اور عوامی نیشنل پارٹی کی کامیابی کی بنیادی وجہ ان جماعتوں کی طرف سے عوام سے کئے گئے انتخابی وعدے اور سابقہ حکمرانوں کی ناکام پالیسیاں تھیں لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پی پی پی اور اس کی اتحادی جماعتیں عوام سے کئے گئے وعدے پورے کریں اور خاص طور پر ججوں کی بحالی اور عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کے لئے بلا تاخیر اقدامات کئے جائیں اس لئے کہ عوام سے کئے گئے وعدے پورے نہ کرنے، انہیں گرانی کی چکی میں پیسنے اور ان کے مسائل کو زیادہ گھمبیر بنانے سے نہ صرف ان سیاسی جماعتوں بلکہ قومی سیاست پر سے بھی عوام کا اعتماد اٹھ جائے گا۔ جمہوریت میں کامیاب پیش رفت ممکن نہیں ہو سکے گی بلکہ جمہوری عمل کو نقصان پہنچے گا اور ان حالات میں مفاد پرست اور مہم جو عناصر کو کھل کھیلنے کا موقع مل جائے گا۔ اس سے ملکی سلامتی، آزادی اور خود مختاری کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں اور اقتدار میں شامل سیاسی جماعتوں کے درمیان اشتراک عمل کا معاہدہ بھی نقش برآب ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ بات باعث اطمینان ہے کہ ملک کی اہم مذہبی اور سیاسی جماعت، جماعت اسلامی بھی اس معاملے میں مسلم لیگ (ن) کی مکمل حمایتی ہے اور دونوں کے درمیان فکری اور نظریاتی ہم آہنگی حکمران جماعت کو مجبور کر دے گی کہ وہ معاہدہ مری پر عملدرآمد کو یقینی بنائے ورنہ اس کے اقتدار میں رہنے کا کوئی جواز نہیں رہے گا وہ اپنی ناکامی کی خود ذمہ دار ہو گی۔