• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آف شور کمپنیوں کے بارے میں سپریم کورٹ میں سماعت، ایک طرح سے اپوزیشن کا مطالبہ مان لیا گیا

اسلام آباد(رپورٹ:طارق بٹ) آف شور کمپنیوں کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے قریبی اہل خانہ کےبارے میں سماعت شروع کرکے ایک طرح سے اپوزیشن کا مطالبہ مان لیا ہے۔ وزیر اعظم کی جانب سے اس کا خوشدلی سے خیر مقدم ظاہر کرتا ہے  وہ چاہتے ہیں کہ ملک کے اعلیٌٰ ترین عدالتی فورم سے یہ معاملہ حل ہو جائے۔ اس کارروائی کے حتمی نتیجے سے قطع نظر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو وزیر اعظم ،ان کی بیٹی، بٹیوں ،داماد اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو نوٹسوں کے اجراء  سے حوصلہ ملا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنے سڑکوں پر احتجاج کیلئے بضد ہیں۔ تاہم مثبت پہلو یہ ہے کہ فریقین نے عدالت عظمیٰ پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ اپوزیشن خصوصاً تحریک انصاف مطالبہ کرتی رہی کہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رکنی تحقیقاتی عدالتی کمیشن قائم کیا جائے ۔یقیناً سماعت کرنے والے پینل کی یہ نوعیت نہیں ہے۔ تحریک انصاف نے نواز شریف ،ان کی پیٹی، بیٹوں، داماد اور اسحاق ڈار کو سیاست بدر کرنے کی بھی درخواست دائر کررکھی ہے اور استدعا کی کہ عدالت عظمیٰ مدعا علیہاں خصوصاً وزیر اعظم کی نااہلیت کے معاملے پر توجہ مرکوز رکھے۔ تب یہ جائز سوال اٹھتا ہے پھراسلام آباد کو محصور کرنے کے منصوبے کا کیا جواز ہے۔ جب تحریک انصاف کا بنیادی مطالبہ تسلیم کیا جاچکا ہے۔ کیا فیصلے آنے کا انتظار کرنا مناسب نہ ہوگا؟ سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہونے سے قبل ہی حکومتی ٹیم نے عدالتی کمیشن کے ذریعہ تحقیقات اور اس کی معیاد پر اتفاق کرلیا تھا۔ تاہم اس کا اس بات پر بھی زور تھا کہ تحقیقات میں پاناما پیپرز لیکس میں افشاءآف شور کمپنیوں کا بھی احاطہ کیا جائے۔ تب تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی یہ مطابلہ لے کر آئے کہ تحقیقات کو پاناما لیکس تک محدود رکھا جائے اور آف شور کمپنیوں تک نہ پھیلایا جائے۔ یہ بات جائزوجوہ کے باعث دوسرے فریق کو منظور نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے معروف قانون دان چوہدری اعتزاز احسن نے چند ہفتے قبل عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اس معاملے میں سپریم کورٹ سے رجوع نہ کریں۔ بظاہر لگتا ہےوہ چاہتے ہیں کہ عمران خان اپوزیشن کے ٹی او آرز سے جڑے عدالتی کمیشن کی تشکیل پر ہی زور دیں۔ تاہم عمران خان نے اس دوستانہ مشورے کو نظر انداز کردیا۔ صرف وزیر اعظم کو قصور وار ٹھہرانے کیلئے تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے ٹی او آرز کا احاطہ کرتے ہوئے بل پیش کیا ہے۔ جواب میں حکومت نےبھی بل پیش کیا۔ فریقین کے درمیان ٹی او آرز پر کسی اتفاق رائے یا سمجھوتے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ جب تک کہ وہ مل بیٹھ کر دونوں مسودہ ہائے قوانین پر مبنی کوئی متفقہ دستور سازی نہیں کرتے۔ تاہم اب گیند اعلیٰ ترین عدالتی فروم کے احاطے میں ہے۔ اس کا فیصلہ خود کئی ایشوز کو حل کردے گا۔ 
تازہ ترین