بلاسوچے سمجھے تالیاں بجانا ہماری عادت بن چکی ہے۔ یہی کچھ جمعرات 7/اگست کی شام کو اس وقت ہوا جب حکومتی اتحاد نے اعلان کیا کہ صدر مشرف کا مواخذہ کیا جائے گا۔ مگر اس اعلان کے مضمرات پر غور کئے بغیر پرویز مشرف کے تمام مخالفین کے چہرے تمتما اٹھے اور اس فیصلہ پر بغلیں اور تالیاں بجائی جانے لگیں، میڈیا پر اینکر پرسنز کے چہرے روشن ہوئے اور تبصرے شروع ہوگئے۔ کسی نے نہ اعلامیہ کے الفاظ پر غور کرنے کی ضرورت محسوس کی نہ اس پر غور کیا گیا کہ بات شروع کہاں سے ہوئی تھی اور انجام کار ہاتھ کیا آیا؟ نواز شریف زرداری ملاقات کا بنیادی ایجنڈا جسٹس افتخار سمیت تمام ججوں کی بحالی تھا۔ اسی ایشو کو مسلم لیگ ن نے اپنی انتخابی مہم کی بنیاد بنایا تھا۔ اسی ایشو کے حوالے سے مری میں مذاکرات ہوئے تھے اور بھوربن معاہدہ ہوا تھا۔ اسی ایشو پر مسلم لیگ ن نے وزارتیں تیاگ دی تھیں۔ اسی ایشو پر حالیہ مذاکرات کے دوران ڈیڈلاک پیدا ہوا۔ کہ حکومت نے عدالت عالیہ سندھ کے 8ججوں کی بحالی کے لئے ایک سمری صدر کو روانہ کی اور منظوری کے بعد نوٹیفیکیشن جاری ہونے والا تھا۔ لیکن جمعرات کے اعلامیہ میں اس ایشو کو پس پشت ڈال دیا گیا اور نئے ڈرامے کی پہلی قسط آن ائیر کی گئی۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ”پہلے آئین کے آرٹیکل47 کے تحت صدر مشرف کا مواخذہ کیا جائے گا۔ اس کے بعد جج بحال کی جائیں گے۔ مذکورہ اعلان سے تماش بینوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ بچے زیادہ خوش ہیں جس کا ذکر ایک ہم عصر نے یوں کیا جو اخبار میں خبر کی حیثیت سے سامنے آیا کہ ایک 16سالہ بچی نے مبارکباد کا پیغام صحافی کو ارسال کیا کہ وہ بہت خوش ہے اور اس خوشی میں پاپا کے ساتھ ڈنر کرنے جائے گی۔ بہرحال یہ ایک جملہ معترضہ تھا۔ سنجیدگی سے بات کی جائے تو اعلامیہ کے نکات اور مضمرات پر عام آدمی کی رائے اور ٹین ایجرز کے SMS سے نتیجہ اخذ کرنے کے بجائے اس خطرناک اور انتہائی اہم آئینی اور قانونی کھیل کی جزئیات پر ان کھلاڑیوں کی رائے پر غور کرنا چاہئے۔ ہم بھی کوئی آئینی ماہر یا قانون دان نہیں ہیں لیکن اعلامیہ کے الفاظ اور ان کے مضمرات پر کچھ کہنے کی جسارت کررہے ہیں بلکہ نشان دہی کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ مواخذہ کی بازگشت میں کسی نے اعلان کے الفاظ پر غور نہیں کیا۔
اعلان میں پہلی بات یہ کہی گئی ہے کہ ”صدر مشرف اعتماد کا ووٹ لیں۔ ورنہ مواخذہ ہوگا۔ نیز اس کے لئے تمام صوبائی اسمبلیاں ایک قرارداد منظور کریں گی“۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یہ قرارداد یقیناً اسمبلی کے وہی ارکان پیش کریں گے جن کا تعلق حکومتی اتحاد سے ہے۔ لیکن اسی حکومتی اتحاد میں ایک جماعت، مسلم لیگ ن۔ صدر مشرف کو کل تک صدر ہی تسلیم نہیں کررہی تھی۔ سوال یہی ہے کہ جب وہ مشرف کو صدر ہی تسلیم نہیں کرتی تو ان سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے کہہ کر کیا ان کوصدر تسلیم کرنے کا جواز نہیں دے رہی؟ دوسری اہم بات یہ ہے کہ آصف زرداری نے ججوں کی بحالی کے لئے مسلم لیگ ن کے بار بار کے دباؤ سے مکتی حاصل کرلی اور مسلم لیگ ن کو بیک فٹ پر دھکیل دیا ہے جس کے باعث وکلاء جو پہلے صرف پی پی پی کی قیادت پر ہی جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے حوالے سے تحفظات رکھتے تھے اور مسلم لیگ ن سے توقعات باندھے ہوئے تھے اب ان کی طرف سے بھی مایوس ہورہے ہیں۔ وکلاء ملک کا باشعور اور تعلیم یافتہ طبقہ ہے۔ وہ ”ناخواندہ عوام“ نہیں ہیں کہ جن کو صرف وعدوں پر ٹرخایا جاسکے۔ اس کا ثبوت اعتزاز احسن اور وکلاء تحریک کی بیانات سے واضح ہوگیا ہے کہ وہ بھی اس معاہدہ پر تحفظات کا اظہار کررہے ہیں اور خوش نہیں ہیں۔ اور کہہ گئے ہیں کہ ”نہ نومن تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی“ اعتزاز احسن کے اس محاورے سے ان کی اس سوچ کا بھی اندازہ ہوتا کہ وہ سمجھ رہے ہیں کہ صدر کو مواخذہ کے ذریعہ ہٹانا مشکل ہے۔ اس اعلامیہ سے تیسری بات یہ بھی طے ہوگئی ہے کہ مسلم لیگ نے پی سی او ججز پر مشتمل موجودہ عدالتوں کو بھی تسلیم کرلیا ہے۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ اب جب آئینی اور قانونی جنگ شروع ہوئی ہے تو کچھ معاملات عدالت عظمٰی کے سامنے بھی لانا پڑیں گے کیونکہ وہی تو ایک ادارہ ہے جو آئین اور قانون کی تشریح کرنے کا مجاز ہے۔ اب آئیے مواخذہ کی طرف۔ اس مشکل کام کا طریقہ کار بہت آسان اور سادہ ہے۔ یعنی قومی اسمبلی یا سینٹ کے 50% ارکان کی دستخطوں سے ایک تحریک ایوان کے سربراہ کو پیش کرنا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ صدر نے Gross Misconduct کیا ہے یا آئین کی خلاف ورزی کی ہے لہٰذا وہ صدر کا مواخذہ چاہتے ہیں۔ اس آسان سی بات کو جو چند منٹوں کا گھنٹوں کا کھیل تھا کہ سینٹ کا اجلاس بھی جاری تھا اور صرف 50عدد ووٹوں کی ضرورت تھی۔ اور یہ تحریک فوری طور پر جمع کرائی جاسکتی تھی اور اگر اجلاس نہ بھی ہورہا ہوتا تب بھی یہ کسی بھی ایوان میں فوری طور پر پیش کی جاسکتی تھی۔ لیکن اس کے لئے غیرمتعلق اسمبلیوں سے صدر کو اعتماد کا ووٹ لینے کی گزارش کی قرارداد سے نتھی کردیا گیا۔ واضح رہے کہ صدر کے مواخذہ میں صوبائی اسمبلیوں کا کوئی کردار نہیں ہے۔ ایسا کیوں کیا گیا؟ یہی چیز اہمیت رکھتی ہے۔ شاید اس لئے کہ صدر کو اتنا وقت مل جائے کہ وہ اپنی صفوں کو مستحکم کرلیں۔ اب صوبائی اسمبلیوں سے قرارداد آنے میں کم از کم دس دن کا وقت تو لگ ہی جائے گا۔ جب کہ یہ بھی واضح ہے کہ صدر کے لئے اعتماد کا ووٹ لینے کی آئین میں کوئی شرط نہیں ہے اور یہ قرارداد ایک سعی لاحاصل کے سوا کچھ نہیں۔
یہ بھی واضح ہے کہ صدر کیونکہ آئینی طور پر ایسی کسی قرارداد پر عمل کرنے کے پابند نہیں ہیں اس لئے وہ اس قرارداد پر عمل نہیں کریں گے اور بات بالآخر وہیں پہنچے گی کہ سینٹ یا قومی اسمبلی میں مواخذہ کی تحریک پیش کی جائے۔ ہوسکتا ہے کہ اتنا وقت دینے کی وجہ یہ ہوکہ صدر مشرف مواخذہ کا سامنا کرنے کے بجائے فاروق لغاری کی طرح مستعفی ہوجائیں۔ لیکن ان میں فاروق لغاری میں کوئی مماثلت نہیں ہے اور وہ کہہ بھی چکے ہیں کہ بھاگنے والے نہیں ہیں۔ یہ بات ہم نے اوپر بھی لکھی ہے کہ مواخذہ آسان کام نہیں ہے۔ آئین کا آرٹیکل47 چار باتیں کرتا ہے اول دو براہ راست برطرفی سے متعلق ہیں اور دو مواخذہ کے بعد برطرفی سے متعلق ہیں۔ گویا مواخذہ کیلئے دو وجوہات کا ذکر ہے۔ اول یہ کہ صدر پر یہ الزام لگایا جائے کہ انہوں نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ اور دوم یہ کہ انہوں نے Gross Misconduct کیا ہے۔ جس چارج شیٹ کو عوام کے سامنے ظاہر کیا گیا ہے وہ ایسی نہیں کہ اس پر مواخذہ کی عمارت تعمیر ہوسکے۔ کیونکہ بقول ایک آئینی ماہر 1973ء کے آئین کے خالق اور بھٹو کے وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ کا کہنا ہے کہ Gross Misconduct ایک Phrase ہے جس کے کوئی معنی سامنے نہیں آتے۔ صدر کا قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ نہ لینا ان کے مواخذہ کی بنیاد نہیں بن سکتا“۔ جہاں تک آئین کی خلاف ورزی کا تعلق ہے تو بلاشبہ انہوں نے ماوراء آئین اقدامات کئے ہیں۔ لیکن ان اقدامات کو نہ صرف جسٹس افتخار چوہدری سمیت موجود عدالت عظمٰی نے تحفظ دیا ہے بلکہ سترہویں ترمیم میں بھی اسے تحفظ دیا ہوا ہے۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ جب صدر کو الزامات کی چارج شیٹ دی جائے گی تو عدالت عظمٰی بھی ایک کردار کے طور پر سامنے آئے گی۔ گویا صدر کے مواخذہ کی راہ بہت طویل اور پرپیچ ہے۔ ابھی وہ منزل بہت دور ہے جب گنتی کا کھیل شروع ہو۔ لیکن ہمارے بزجمبر پہلے دن سے ہی حساب لگانے لگے ہیں کہ کس کے پاس کتنے ووٹ ہیں؟ صدر کے مواخذہ کیلئے 295ووٹوں کی ضرورت ہے۔ اور ان ووٹوں کا جمع کرنا حکومتی اتحادی جماعتوں کا کام ہے۔ صدر مشرف کیمپ کے لئے ووٹ پیش کرنا ضروری نہیں ہے۔ اتحادی جماعتوں کے پاس ان کے اپنے ارکان کی تعداد 295 نہیں ہے انہیں آزاد اور فاٹا کے ارکان کے ووٹ حاصل کرنے ہیں۔ پھر یہ بھی دیکھنا ہے کہ ان کے اپنے ارکان میں سے کتنے ارکان ووٹ ڈالنے سے گریزاں ہوتے ہیں۔ جس کا احتمال موجود ہے کیونکہ پی پی پی میں بالخصوص ایسا حلقہ موجود ہے جو صدر مشرف کا مواخذہ شاید نہیں چاہتا ہے۔ بہرحال جب بی بی اور میاں صاحب مری اور چھانگا مانگا میں منڈی سجا سکتے ہیں تو کیا اب منڈی نہیں سجے گی؟ رہ گئی بات صدر کے پاس موجود 58-2B کے اختیار کی تو اس ضمن میں یہ بڑھکیں تو لگائی جارہی ہیں کہ کوئی مائی کا لعل 58-2B استعمال نہیں کرسکتا۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ صدر مشرف کے یقیناً شکر گزار ہوں گے جو عوام کو یہ باور کرانے میں پیش پیش ہیں کہ 58-2B کا استعمال ہمیشہ اسی وقت ہوا ہے جب صدر کو فوج کی آشیرواد حاصل ہو۔ یہ اس بات کی طرف عوام کا ذہن بنانے کی کوشش ہے کہ اگر صدر مشرف نے 58-2B کا استعمال کیا تو گویابہرحال دعا کی جاسکتی ہے کہ وہ مرحلہ نہ آئے۔ جہاں تک مواخذہ کی تحریک پیش کرنے کے بعد 58-2B کے استعمال پر صدر کے اختیار ختم ہوجانے کا تعلق ہے تو ایسی کوئی شرط آئین میں موجود نہیں ہے۔
ہم نے اپنے 4/مارچ کے کالم کا عنوان ”گرگ آشتی۔ کھیل جاری ہے“ دیا تھا۔ سو وہ کھیل اب بھی جاری ہے دونوں بڑے ”حکومتی اتحاد“ مگر ”فطری حریف“ اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں۔ موجودہ حکومت پی پی پی کی ہے اور وہ ہی اسٹیک ہولڈر ہیں۔ جبکہ مسلم لیگ ن مستقبل کی حکومت سازی کے حوالے سے آگے بڑھ رہی ہے۔ مسلم لیگ ن سترہویں ترمیم کے خاتمہ کی منتظر ہے تاکہ تیسری بار وزیراعظم نہ بن سکنے کی پابندی کا خاتمہ ہوجائے اور اگر لگے ہاتھوں مشرف بھی رخصت ہوجائیں تو اس کی خواہش یہی ہوگی کہ مڈٹرم الیکشن ہوں تاکہ وہ واضح برتری حاصل کرکے حکومت سازی کرسکے۔ ویسے بھی نمرالوجی والے9 کے ہندسے کے بارے میں بہت کچھ کہتے ہیں اور 09کا سال شروع ہونے میں 5ماہ ہی باقی ہیں۔ اللہ ہم سب کو اور پاکستان کو اپنی امان میں رکھے۔ آمین۔