• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ابراہم لنکن نے اپنے ساتھی وکلا کو بصیر ف افروز نصیحت کرتے ہوئے کہا۔۔۔’’مقدمات کی حوصلہ شکنی کیجیے۔ جہاں تک ممکن ہو اپنے ہمسایوں کو سمجھوتہ کرنے پر آمادہ کریں۔ بطور صلح جو، ایک وکیل کے پاس اچھا انسان بننے کے بہت اعلیٰ مواقع ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود بزنس میں کمی نہیں آئے گی ۔‘‘یہ لنکن، جناح، گاندھی، ہملٹن، مارشل، منڈیلا اور دیگر بہت سوں کی کہانیاں ہیںجو نوجوان افراد کو قانون کے مطالعہ کا درس دیتی ہیں، نہ کہ اپنے پیشے اور معاشرے کی ہر برائی کا اخلاقیات کی تمام حدود پار کرتے ہوئے دفاع کرنے پر آمادہ وکلا ۔
کیا عام شہری ہم وکلا کی عزت کرتے ہیں؟ کیا ہمارا تاثر زیادہ تر ایک ’لازمی برائی ‘ کے طور پر نہیں ہے ؟بنک عام طور پر وکالت کے پیشے کا منفی تاثر رکھتے ہوئے ہمیں کریڈٹ دینے سے گریز کرتے ہیں، عام افراد اپنی جائیداد ہمارے ہم پیشہ ساتھیوںکو کرائے پر دینے سے پہلے سو مرتبہ سوچتے ہیں۔اُن کا خیال ہے کہ ہم اپنے وعدے سے پھرتے ہوئے اُنہیں مقدمے میں گھسیٹ لیں گے ۔ ہم نے 2007 ء میں آئین کو پامال کرنے والے آمروں کے سامنے کھڑے ہونے کی بار کی شاندار تاریخ کو دہرایا، ہم آئین اور قانون کی بالا دستی کے لئے کھڑے ہوئے ، اور یوں ہم نے عوام کی نظروں میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کی ۔ تاہم عدلیہ کی بحالی کے بعد ، نیک نام وکلا کی قربانیوںاور نظام ِ انصاف اور شہریوں کو لیگل سروسز کی فراہمی میں بہتری لانے کے جذبے کو بار آور کرنے کی بجائے بعض پیشہ ور وکلا مغروراور منہ زور ہوگئے ۔ وکلاتحریک کی کامیابی سے حاصل ہونے والے احساس نے ہمارے اندر خود سری بھردی، جس کا اظہار ہماری ہڑتالوں اور جج حضرات، سائلین، پولیس اور صحافیوں کے ساتھ ہمارے لڑائی جھگڑے سے ہوتا رہا۔ ہماری اس فعالیت نے ڈکشنری میں ایک نئے لفظ ’’وکلا گردی‘‘ کا اضافہ کردیا۔ ایک بڑے شہر کی بار ایسوسی ایشن کے ایک عہدیدار نے عدالت کے اندر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کے ساتھ بدتمیزی کی کیونکہ جج صاحب نے اُس کے کلائنٹ کے خلاف حکم پاس کر دیا تھا۔ جج صاحب نے ہائی کورٹ میں شکایت درج کرائی۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کی سربراہی میں ایک سپروائزی کمیٹی نے اُس وکیل کو شوکاز نوٹس بھیجا، لیکن اس نے سماعت کے لئے آنا بھی گوار ا نہ کیا۔ اس پر ہائی کورٹ نے ’لیگل پریکٹیشنر اینڈ بار کونسلز ایکٹ 1973 ‘ کے سیکشن 54(2) کے تحت اس کا لائسنس منسوخ کردیا، اور مذکورہ ایکٹ کے سیکشن 41 کے تحت حتمی فیصلے کے لئے شکایت بار کونسل کے پاس بھیج دی۔ یہاں ایک غیر معمولی کارروائی ہوتی دکھائی دی جب بار کونسل نے وکیل کے خلاف شکایت کا میرٹ پر فیصلہ کرنے کی بجائے فوراً ہی ہائی کورٹ کے فیصلے کو ایک طرف رکھ دیا۔بار نے یہ موقف اپنایا کہ ہائی کورٹ کے پاس ایسی کوئی اتھارٹی نہیں جو وکلا کے معاملات کا جائزہ لینے کے لئے کوئی سپروائزی کمیٹی قائم کرسکے ۔ اس موقف کا آئینی پہلو ایک طرف، ایکٹ کے سیکشن 54 کی رو سے ایک صوبائی بار لاہورہائی کورٹ کی آئینی اتھارٹی کا تعین کرنے کی کسی طور پر مجاز نہ تھی۔
تاہم اس معاملے کا قانونی پہلو کے علاوہ اپنائے گئے موقف سے بنیادی، گروہی اور ذاتی مفاد کی جھلک نمایاں ہوتی ہے ۔ بار نے سوچا کہ چونکہ جج حضرات اپنے ساتھی جج کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں تو اُنہیں بھی اپنے ساتھی وکیل کا ساتھ دینا چاہیے ۔ بدقسمتی سے ایسے تنازعات میں صیحح اور غلط کا تصور گروہی مفاد کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے ۔ کچھ استثنات کے ساتھ، بار اور بنچ خود کو اپنی اپنی جگہ پر ایسا ممتاز کلب سمجھتے ہیں جو اپنے مفادات کے ڈھانچے کا دفاع کرنے اور ہر قسم کے بیرونی احتساب کے خلاف متحد اور پرعزم ہے ۔ ہم اپنے قوانین کی مقصدیت پر بحث کرسکتے ہیں۔ کیا مذکورہ ایکٹ کا سیکشن 54 جو عدالت کو برا رویہ دکھانے کی پاداش میں وکلا کا لائسنس معطل کرنے کا اختیار دیتا ہے، ایک اچھا قانون ہے؟کیا عدالت کو حاصل یہ اختیار آرٹیکل 10A(جو طریق کار کے متعلق) ، آرٹیکل 18 ( پیشے کے انتخاب کا حق) اور آرٹیکل 9 (جان ومال کا حق)پر ایک ناروا قدغن کے مترادف ہے ؟کیا تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس قانون کو استعمال کرتے ہوئے پیشہ ور بداخلاقی کا سدباب کیا گیا، یا کیا یہ ججوں اور وکلا کے درمیان معاملات میں ایک فریق کے ہاتھ چابک پکڑانے کے مترادف ہے ؟
کیا ہمارا توہین عدالت کا قانون آزادی ٔ اظہار ، جو کہ عدالتی طرز ِعمل کی جانچ کے لئے ضروری ہے ، اورایک قابل ِاعتماد عدالتی نظام ، جو کسی مداخلت کے بغیر انصاف فراہم کرے، کے درمیان درست توازن پیدا کرتا ہے ؟کیا توہین کے قانون کا استعمال یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسے عوامی مفاد کے تحفظ کے لئے بروئے کار لایا گیااور انصاف کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے والوں کو سزا دی گئی، یاعدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرنے کے لئے استعمال کیا گیا، یا پھر اسے کچھ ججوں کو شرمندہ ہونے سے بچانے اور ناپسندیدہ وکلا کو سبق سکھانے کے لئے استعمال کیا گیا؟ یہ قانون کسی طور پر نتائج دیتا دکھائی نہیں دیتا۔ بااختیار بار کونسل کو حاصل طاقت کا مقصد وکلاکو نظم میں رکھنا اور عوامی مفاد میں ان کا لائسنس معطل کرناہونا چاہیے ، اور اس کے لئے ایمانداری، پیشہ ورمہارت اور خلوص کو دیکھا جائے ۔ اسی طرح جوڈیشل احتساب اس بات کو یقینی بنائے کہ کہیں جج حضرات اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ تو نہیں اٹھا رہے ۔ ہمارے ملک میں کم و بیش اس بات پر اتفاق ِ رائے پایا جاتا ہے کہ ہمارا جوڈیشل سسٹم شہریوں کو مایوس کررہا ہے ۔ عدالتیں بہت کم اور بہت تاخیر سے انصاف مہیا کرتی ہیں۔ وکلاکو مشکوک نظروںسے دیکھا جاتا ہے ، اور انہیں جسٹس سسٹم کی خرابیوں کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے ۔ لئے گئے سروے ظاہر کرتے ہیں کہ عوام نظام ِانصاف کو مجموعی طور پر بدعنوان اور غیر موثر سمجھتے ہیں۔ تو پھر ایسا کیوں ہے کہ ہماری سپریم جوڈیشل کونسل عشروں پر محیط عرصے کے دوران جوڈیشل بے ضابطگی پرکوئی کارروائی نہ کرسکی؟کیا ہم نے کبھی ایسا سنا کہ کسی بار نے کسی وکیل کے خلاف بددیانتی یا پیشہ ور نااہلی کی بنا پر کوئی ایکشن لیا ہو؟
حال ہی میں اس ضمن میں ایک پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے ۔ ایک غیر معمولی فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ججوں کے انتظامی ایکشن بھی دیگر عوامی عہدیداروں کی طرح جوڈیشل نظر ِ ثانی سے گزر سکتے ہیں۔ فاضل عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کی گئی تقرریوں کا بہت ناقدانہ جائز ہ لیا،اور اُنہیں غیر قانونی قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ چیف جسٹس صاحبان کے پاس قوانین کو اپنی مرضی سے استعمال کرنے ، یا اپنی من مانی کا اختیار نہیں۔ سپریم کورٹ نے طویل التوا کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کو بھی فعال کردیا۔ یہ سب اپنی جگہ پر درست ، لیکن ہم نے بارز میں اصلاحات لانے کی بات تاحال نہیں سنی۔ بار کونسلز اور ایسوسی ایشنز بلاشبہ ملک کے سب سے زیادہ جمہوری ادارے ہیں۔ ان میں ہرسال باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں ۔ ان انتخابات میں ایک بڑی تعداد میں وکلا ووٹ کا استعمال کرتے ہیں اور اپنے پسندیدہ امیدوار چنتے ہیں۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ پر درست، لیکن جسٹس اور لیگل سروسز کی فراہمی کو بہتر بنانا یا وکلا کی تربیت یا اُن میں پیشہ ور اخلاقیات اجاگر کرنا کبھی بھی انتخابی مہم کا حصہ دکھائی نہیں دیتا۔
ایک حوالے سےبارز بھی انہی مسائل کا شکار ہیں جو ہمارے سیاسی اداروں کو گھیرے میں لئے ہوئے ہیں، جو کہ اخلاقی دیوالیہ پن ہے۔ ہم شکاری جانوروں کے ایک ایسے غول کا روپ دھار چکے ہیں جو مل کر شکار کرتے ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا بچائو اس گروہ کے ساتھ غیر مشروط طور پر وابستہ رہنے میں ہے ۔ اگر ہم اس گروہ سے نکلیں گے تو تمام مشکلات کے سامنے ہم اکیلے ہوںگے ۔ اصلاح کے لئے ہمیں اس غول سے بلند ہوکر آنے والے وقت کے تقاضوں کو بھانپنا ہوگا۔ تاہم عملیت پسندی کے تقاضے اصولوں پر غالب آجاتے ہیں۔


.
تازہ ترین