• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشرف کے بعد کی صورتحال۔ چیلنجوں سے نمٹنا کس قدر آسان ہوگا؟,,,,حرف تمنا …ارشاد احمد حقانی

آج 15اگست کی صبح ہے اور فیصلے کی گھڑی لمحہ بہ لمحہ قریب سے قریب تر ہوتی دکھائی دے رہی ہے اگرچہ پاکستانی سیاست کے حوالے سے مستقبل قریب کے بارے میں بھی کوئی پیشگوئی کرنا خطرے سے خالی نہیں ہو سکتا۔ اس کے باوجود ہمارا پختہ خیال ہے کہ صدر مشرف کے رخصت ہونے کے بارے میں وزیر دفاع چوہدری احمد مختار کا یہ بیان درست ہے کہ انہیں محفوظ راستہ دینے کے معاملے پر گفتگو جاری ہے۔ صدر کے معاونین سے کچھ امور طے ہوگئے ہیں لیکن ابھی کچھ باقی بھی ہیں اور حتمی معاملات طے ہونے پر ہی قوم کو تفصیل بتا سکیں گے ادھر ایک اور اطلاع کے مطابق حکمران اتحاد نے مستعفی ہونے کی صورت میں محفوظ راستہ دینے کی پیشکش کر دی ہے۔نواز شریف کو بھی صدر کا احتساب کرنے کے موقف میں لچک پیدا کرنے پر رضا مند کر لیا گیا ہے۔ صدر پرویز مشرف آئندہ چند روز میں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرینگے۔ دو روز میں مواخذہ تحریک کا ڈراپ سین ہونے کا امکان ہے۔ صدر کو محفوظ راستہ دینے کی تیاری پر حکومتی اتحاد کی چارج شیٹ کمیٹی کا اجلاس بھی مسلم لیگ ن کی عدم دلچسپی کا شکار ہوگیا حکومتی اتحاد کے ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن کے رہنما اسحاق ڈار نے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے رابطے پر یوم آزادی کی تقاریب میں مصروفیات کے باعث کمیٹی اجلاس میں شرکت سے معذرت کی اور جواب دیا کہ جب مواخذہ تحریک پیش کرنے کا مرحلہ آئے گا تو وہ اجلاس میں شریک ہو جائینگے۔
ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے احتساب پر زور دینے والی مسلم لیگ ن کو بھی صدر مشرف کو اقتدار چھوڑنے پر محفوظ راستہ دینے، ا حتساب نہ کرنے اور مکمل سکیورٹی فراہم کرنے پر رضا مند کر لیا ہے، صدر مشرف کا مواخذہ کرنے کے اعلان کے بعد سے عسکری حلقوں نیز امریکہ، برطانیہ اور عرب حکمرانوں کی طرف سے حکومتی اتحاد کو محفوظ راستہ دیئے جانے کے لئے کہا جا رہا تھا، بیرونی طاقتوں کو واضح کر دیا گیاتھا کہ حکومتی اتحاد میں شامل جماعت مسلم لیگ ن صدر کو محفوظ راستہ دینے پر تیار نہیں جس پر امریکی اور برطانوی عہدیداروں نے نواز شریف سے براہ راست بات چیت کی ہے مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ وہ صدر مشرف کے احتساب کا موقف رکھتی ہے لیکن اس قومی نوعیت کے معاملہ پرحکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کی مشاورت سے لائحہ عمل تیار کیا جا رہا ہے۔
اتحاد میں شامل پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور جے یو آئی کے سربراہان صدر مشرف کو مستعفی ہونے کی صورت میں محفوظ راستہ دیئے جانے کے حامی ہیں، آصف زرداری اور اسفند یار ولی کا موقف ہے کہ قانونی پہلوؤں سے زیادہ اخلاقیات کو مدنظر رکھنا چاہئے۔
وفاقی وزیر خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ حکومت مستعفی ہونے کی صورت میں صدرپرویز مشرف کو سکیورٹی فراہم کریگی کیونکہ ہرشہری کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کا فرض ہے اور پرویز مشرف آٹھ سال تک ملک کے صدر رہے ہیں تاہم انہوں نے کہا کہ ایوان صدر نے ابھی تک حکومت کو ایسی باضابطہ درخواست نہیں دی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے مستعفی ہونے کے بعد تحفظ فراہم کئے جانے کے عندیہ کے پیش نظر صدر پرویز مشرف جلد اپنے مستقبل کا فیصلہ کرینگے اور احتساب نہ کرنے اور سکیورٹی فراہم کرنے کی ضمانت پر صدر پیر کو مواخذہ کی تحریک ایوان میں پیش ہونے سے قبل استعفیٰ دیدیں گے۔ آثار یہی ہیں کہ صدر مشرف کے اس مطالبے کو بھی تسلیم کر لیا جائے گا کہ انہیں صدارتی ایوان سے رخصتی کے بعد پاکستان ہی میں رہنے کی اجازت دی جائے نیز انہیں وہ تمام مراعات اور سہولتیں فراہم کی جائیں جو سابق صدور کو حاصل ہیں۔ مصدقہ اطلاع کے مطابق فوج بھی ان مطالبات کے تسلیم کئے جانے کے حق میں ہے اور شاید جلد ہی ان امور پر بھی ایوان صدر کے اطمینان کے مطابق فیصلہ ہو جائے گا۔ ایک بات اگرچہ تاحال واضح نہیں ہے کہ ایوان صدر سے رخصتی سے پہلے صدر کو قوم سے آخری خطاب کرنے کا موقع دیا جائے گا یا نہیں۔ اس کے امکانات اس وقت ففٹی ففٹی ہیں لیکن صدر کا اصرار یہی ہے کہ وہ قوم کے نام اپنے خطاب ہی میں اپنے مستعفی ہونے کا اعلان کریں گے۔ کچھ عجب نہیں کہ یہ مطالبہ بھی مان لیا جائے اس لئے کہ حکمران اتحاد چونکہ صدر کی جلد از جلد رخصتی چاہتا ہے اس لئے وہ اس معاملے پر بات چیت کو طول دینا پسند نہیں کرے گا اور اگر صدر مشرف نے قوم سے خطاب کرنے کی بات منوا لی تو اس کا ایک اچھا نتیجہ یہ ہوگا کہ قوم کے سامنے تصویر کا دوسرا رخ بھی آجائے گا اور آج اورکل کے مورخین کے لئے کوئی سوچا سمجھا فیصلہ دینا آسان ہو جائے گا۔ بظاہر مجھے ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ جنرل مشرف چپ منہ کے ساتھ (تمام تر تحفظات حاصل ہو جانے کے باوجود) ایوان صدر سے رخصت ہوجائیں گے۔ حکمران اتحاد میں یقینا صدر کو آخری خطاب کی اجازت دینے کے سوال پر اختلاف پایاجاتا ہے اور بدیہی طور پر سب سے زیادہ اختلاف ن لیگ ہی کو ہے لیکن جس طرح باقی امور میں ن لیگ کو لچک دکھانی پڑی ہے اسی طرح شاید اس مسئلے پر بھی اسے اپنا موجودہ سخت موقف چھوڑنا پڑے۔ بہرحال ایک آدھ دن میں بچے کھچے معاملات کا فیصلہ بھی ہو جائے گا اور صدر صاحب کے لئے رخصت ہونا ممکن ہو جائے گا۔ عین ممکن ہے کہ رخصتی بھی اس انداز میں ہو جس کی خواہش صدر اور ان کے وفادار ساتھی رکھتے ہیں یعنی انہیں الوداعی گاڈ آف آنر بھی پیش کیا جائے او ر چک شہزاد میں ان کے گھر جانے تک کیلئے سرکاری سواری کا انتظام بھی کیا جائے۔ مجھے یاد ہے کہ صدر لغاری کے مستعفی ہونے پر انہیں ان کے گھر چوٹی زیریں تک پہنچانے کیلئے جہاز دیا گیا تھا۔ میں خود اس جہاز میں موجود تھا اور میں نے جہاز ہی سے سابق صدر کے استقبال کیلئے آنے والے بہت بڑے ہجوم کو دیکھا تھا۔ لغاری صاحب نے مجھے کہا کہ ایئرپورٹ پر اترنے کے بعد مجھے اس مجمعے کو کس طرح خطاب کرنا چاہئے جس کیلئے میں نے پانچ دس ہی منٹ میں انہیں وہ نکات بیان کر دیئے جو میری دانست میں ان کی تقریر کی بنیاد بننے چاہئیں تھے، لغاری صاحب نے مجھے یہ بھی کہا کہ تم بھی میرے ساتھ جہاز سے باہر آؤ اور ایک دو روز چوٹی زیریں میں رہو تاکہ یہاں کے مناظر بھی دیکھ سکو لیکن میں نے رکنے سے معذرت کی اور اسی جہاز میں واپس اسلام آبادآ گیا۔ میرا خیال ہے کہ چونکہ چک شہزاد تک جانے کے لئے صدر مشرف کو ہوائی جہاز کی ضرورت نہیں ہوگی اس لئے ایوان صدر کی کوئی محفوظ گاڑی انہیں ان کے گھر تک پہنچائے گی۔ تمام تر قرائن کے باوجود یہ سب باتیں ابھی امکانات کی حد تک درست ہیں اور کسی بات میں کمی بیشی بھی ہو سکتی ہے۔ بہرحال جلد ہی اس ڈراپ سین کے تمام پہلو اور تمام مناظر قوم کے سامنے آجائیں گے ۔
میری دانست میں حکومت سے صدر کی علیحدگی کا مرحلہ مکمل ہو جانے کے بعد جو دور شروع ہوگا وہ منیرنیازی# کے اس شعر کی تفسیر ہوگا:
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر# مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
میرے لئے یہ کہنا آسان نہیں کہ صدر کی رخصتی کے دریا کو عبور کرنے کے بعد ہمیں جس دریا کا سامنا کرنا ہوگا ۔اس کا پاٹ اور اس کی شوریدہ لہریں پہلے دریا سے کچھ کم ہوں گی؟۔ مجھے اندیشہ ہے کہ صدر کے بعد کا دور اس طرح مشکلات سے آزاد نہیں ہوگا جس طرح صدر کو تمام خرابیوں کی جڑ قرار دینے والے امید کررہے ہوں گے۔
بلاشبہ صدر مشرف کا دور ملے جلے نتائج کا حامل رہا ہے اس وقت قوم کا فیصلہ یہی ہے کہ ان کے دور کے منفی اثرات اور نتائج اس قدر زیادہ ہیں کہ اگر ان کے دور میں کوئی مثبت نتیجہ برآمد بھی ہوا ہے تواس کی ان منفی نتائج کے سامنے قطعاً کوئی اہمیت نہیں ہے جو اس دور نے مرتب کئے ہیں۔ خدا کرے کہ بعد از مشرف کے دور میں مثبت نتائج کا پلڑا اتنا ہی بھاری ہو جتنا ان کے ناقدین کی نظر میں ان کا دور منفی نتائج کا حامل رہا ہے۔ ہمیں اس منتخب سیاسی قیادت سے دلی ہمدردی ہے جسے مشرف دور کے منفی نتائج سے عہدہ برآ ہونا پڑے گا یا پڑ رہا ہے لیکن کاش ہمارے لئے یہ کہنا بھی ممکن ہوتا کہ یہ منتخب قیادت ان منفی نتائج کو دوبارہ سر اٹھانے سے باز رکھ سکے گی۔ خدا نہ کرے کہ ہمیں غالب# کے الفاظ میں یہ کہنا پڑے کہ:
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا


تازہ ترین