سخت بارشوں اور سخت فیصلوں کا موسم آن پہنچا ہے۔ اس سے قبل گویا مون سون کا موسم صرف کہنے کو آیا کرتا تھا لیکن اس دفعہ تو کمال ہی ہو گیا۔ مسلسل بارش کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ لاہور شہر کا نصف حصہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے جب کہ ملک کے دیگر حصوں کا بھی کم و بیش یہی حال ہے، جہاں بہت سوں کے لئے بارش قیامت خیز ثابت ہوئی ہے۔ فصلیں اور غریبوں کے مکان تباہ ہو چکے ہیں، وہیں ان بارشوں نے دشت و صحرا میں پھول بھی کھلائے ہیں۔ ڈیمز لبالب بھر چکے ہیں۔ زندگی بھی واقعی متضاد چیزوں کا ایک خوشگوار امتزاج معلوم ہوتی ہے۔ قدرت کی ایک ملی جلی نعمت!! یہی بات ان فیصلوں کی بابت بھی کہی جا سکتی ہے، جن کا ہم نے گزشتہ ساٹھ برس کے دوران ایک قوم کی حیثیت سے سامنا کیا ہے۔ ملک کے صدر کا مواخذہ کرنا کوئی سادہ، آسان اور سہل بات نہیں ہوتی، خواہ اس کی قانونی اور آئینی حیثیت کتنی ہی بے جواز اور بے بنیاد کیوں نہ ہو؟ اس کا مطلب ہے ایک جمی جمائی حکومت کی تبدیلی، جس کے نتائج مختلف اور متضاد بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کو غیر معمولی طور پر متاثر کرتی ہے، جنہوں نے گزشتہ حکومت کے دوران بے شمار مادی فائدے حاصل کئے ہوں۔ اپنی زندگی کو ہر طرح سے محفوظ بنایا ہو۔ دولت اکٹھی کی ہو، بدلے اور انتقام پر عمل کیا ہو، مختصراً ایسے لوگ جنہوں نے برطرف کی جانے والی حکومت کے دوران عروج کے سوا کچھ بھی نہ دیکھا ہو، ایسے تمام لوگ حکومت کی تبدیلی سے لازماً متاثر ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے اپنے زوال کا منظر بے حد اذیت ناک ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ خود کو برسراقتدار حلقوں سے قریب تر رکھنے کے لئے ہر طرح کے حربوں اور ہتھکنڈوں پر عمل کرنا جزو ایمان سمجھتے ہیں۔ وہ عوام اور اداروں کی اہمیت کو چنداں خاطر میں نہیں لاتے۔ وہ ناگزیر حقیقت کو جنم لینے اور پروان چڑھنے کی راہ میں آخر وقت اور آخری لمحے تک روڑے اٹکانے کی تدابیر پر غور و خوض کرتے رہتے ہیں۔ جس طرح کی حکومت کی قیادت صدر پرویز مشرف کے ہاتھوں میں تھی، اسے بیرونی سرپرستی اور غیر ملکی تائید و حمایت کی بھی ضرورت درپیش رہتی ہے، کیوں کہ ایک کرپٹ اور بد عنوان اشرافیہ اور عمائدین کے روبرو اپنی حکومت کا جواز پیش کرنے کے لئے ان عناصر کو بہت اہم تصور کیا جاتا ہے، جو نہ صرف بین الاقوامی سیاست کے اہم کھلاڑی ہوتے ہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر اپنا اثر و رسوخ اور طاقت بھی ایسے حکمرانوں کو بچانے کی غرض سے استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ غیر ملکی مفادات اور بیرونی مقاصد کے حامل افراد اور قوتیں بہر قیمت اپنے حمایت یافتہ حکمرانوں کو بچانے ہی میں اپنے مفادات کی تکمیل دیکھتی ہیں کیونکہ ان کے تمام مفادات اور مقاصد انہی سے وابستہ ہوتے ہیں چنانچہ ایسے حکمرانوں کی بقا کو وہ اولین ترجیح دیتے ہوئے انہیں بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جارج بش اور ڈک چینی نے باہم صلاح مشورہ کرتے ہوئے صدر پرویز مشرف کے لئے صدارت کی دوسری میعاد کا راستہ ہموار کیا تھا کیونکہ ان دونوں کے خیال میں پرویز مشرف امریکہ اور مغرب کے عالمی مفادات کی ان کے من پسند طریقے کے عین مطابق تکمیل کر سکتے تھے۔ شروع ہی سے یہ بات بہت صاف اور واضح تھی کہ امریکی صدر جارج بش کی سرپرستی میں پایہٴ تکمیل کو پہنچنے والے اس سمجھوتے میں جو پرویز مشرف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مابین ہوا تھا، اس میں درحقیقت پاکستانی عوام کے مفادات کو پیش نظر نہیں رکھا گیا تھا۔ نہ ہی اس سمجھوتے کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں جمہوریت کو پروان چڑھنے کا موقع ملے یا ملک کی عوامی سطح پر مقبول سیاسی قوتوں کے لئے اقتدار میں آنے کا راستہ ہموار ہو !! اس کے برعکس صدر بش کی سرپرستی اور نگرانی میں طے پانے والے اس مفاہمتی سمجھوتے کا اولین مقصد اور منشا یہی تھا کہ پرویز مشرف کی حکومت کو مزید طاقت، قوت اور استحکام حاصل ہو سکے۔ امریکہ میں حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب میں مصنف نے جو انکشافات کئے ہیں وہ نہ صرف پرویز مشرف کی متکبرانہ بدنیتی کے مظہر ہیں بلکہ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی کی سلامتی کے بارے میں بھی انہوں نے مطلوبہ اور خاطر خواہ اقدامات نہ کر کے اپنے روّیوں پر شکوک و شبہات کے پردے ڈال دیئے ہیں۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ امریکی حکومت کے نہایت وسیع اور گہرے مفادات پرویز مشرف کو برسر اقتدار رکھنے سے وابستہ تھے چنانچہ یہ جان کر کسی کو بھی تعجب نہیں ہونا چاہئے کہ امریکی پالیسیوں کے بارے میں خود امریکیوں کا یہ خیال تھا کہ امریکہ کے لئے اگر کوئی شخص اہم ہے تو وہ ہے جنرل پرویز مشرف !!! پاکستان جائے بھاڑ میں… اصل اہمیت پرویز مشرف کی ہے نہ کہ پاکستان کی … کیا اسے محض ایک اتفاقی واقعہ سمجھا جائے کہ امریکہ اور پاکستان کی ” سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ “ کے مابین تعلقات اسی لمحے سے زوال پذیر ہونا شروع ہو گئے تھے جب اٹھارہ فروری کے انتخابی نتائج کے بعد جنرل پرویز مشرف موثر طاقت اور اختیارات کے حامل نہ رہے تھے؟ فروری کے انتخابی نتائج آنے کے فوراً بعد دونوں ممالک کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے ایک دوسرے کے خلاف الزامات اور جوابی الزامات کا ایک طویل سلسلہ شروع کر دیا اور اب تو امریکی اور نیٹو افواج کھلم کھلا اور اعلانیہ طور پر پاکستان کے قبائلی علاقوں کو اپنے جارحانہ میزائل حملوں کا نشانہ بنا رہی ہیں!! انہوں نے پاکستان کی نو منتخب سیاسی حکومت کے ساتھ بھی نہایت سخت روّیہ اختیار کرتے ہوئے عالمی بینک سے کہا ہے کہ وہ پاکستان کو دی جانے والی امداد میں سے نصف بلین ڈالر کی امداد کو روکے رکھے۔ اس بات کی خبریں بھی گرم ہیں کہ سعودی عرب میں تیل کی فراہمی اور سہولتوں کے حوالے سے اب ہماری کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں ہے کیونکہ بش انتظامیہ نے سعودی حکومت کو ہر قسم کی سہولت دینے سے منع کر دیا ہے۔ کیا یہ سب اقدامات اس مقصد سے کئے جا رہے ہیں کہ نئی منتخب سیاسی حکومت اور سیکیورٹی نظام کے تحت پرویز مشرف کو اب بھی مزید اقتدار میں رکھنا ممکن ہو سکے؟
پرویز مشرف ان غیر ملکی طاقتوں کے مخصوص مفادات اور مقاصد کی تکمیل کے حوالے سے کس قدر اہمیت رکھتے ہیں اس کا اندازہ بھارتی حکومت کے روّیے سے بھی ہو جاتا ہے۔ نئی منتخب حکومت کے حلف اٹھانے کے بعد پرویز مشرف کا ستارہ جیسے ہی گردش میں آیا، بھارت نے کشمیر میں گڑ بڑ شروع کر دی اور صوبہٴ بلوچستان میں بھی مداخلت کا آغاز کر دیا۔ اسی طرح بھارت نے بھی امریکی انتظامیہ کی تقلید کرتے ہوئے پاکستان کے سیکیورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا جن میں آئی ایس آئی سرفہرست ہے۔ چنانچہ پاکستان اور بھار ت کے مابین تعلقات میں اس اچانک تبدیلی کا واقع ہونا واقعی ایک تعجب خیز امر ہے، جس کے متعدد اسباب ہو سکتے ہیں لیکن گزشتہ بدھ کے روز بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر نارائینن کی جانب سے دیئے جانے والے بیان نے ایک بات تو بہت صاف اور واضح کر دی ہے کہ بہر قیمت اور بہر صورت پرویز مشرف ہی کو پاکستان کے اقتدار پر فائز دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔ امریکی اور بھارتی حکومتوں کے مابین خیالات اور روّیوں کا یہ اشتراک اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان میں پرویز مشرف کی مخالف مخلوط حکومت کو ابھی بہت سے چیلنجوں کا سامنا کرنا ہو گا۔ اسے نہ صرف ان لوگوں سے نمٹنا ہو گا جنہوں نے پرویز مشرف کے دور حکومت میں غیر معمولی فائدے اور مراعات حاصل کی ہیں بلکہ اسے بیرونی قوتوں کا دباؤ بھی جھیلنا پڑے گا۔ اب آپ کی سمجھ میں یہ بات آ چکی ہو گی کہ مخلوط حکمراں اتحاد کی سب سے بڑی پارٹی یعنی پاکستان پیپلز پارٹی، پرویز مشرف کے مواخذے اور احتساب میں اس قدر تاخیر سے کام کیوں لے رہی ہے؟ بلاشبہ موجودہ حکومت پر بش انتظامیہ کی جانب سے یہ زبردست دباؤ موجود ہے کہ وہ پرویز مشرف پر ہاتھ کو ہلکا رکھے۔ بہرکیف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے حالیہ دورئہ امریکہ نے امریکی انتظامیہ کو یہ باور کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے کہ پرویز مشرف اب ایک ایسی ذمہ داری بن چکے ہیں، جن سے پیچھا ہر حال میں چھڑانا ضروری ہو چکا ہے۔ اگرچہ امریکی حکومت اب بھی ڈھکے چھپے انداز میں پرویز مشرف کی حمایت کر رہی ہے ۔
تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ بالآخر اس نے مشرف کی رخصتی کے حوالے سے اپنے تذبذب اور مزاحمت کو یکسر ختم کر دیا ہو جس کے نتیجے میں اب حکمراں اتحاد کو یہ موقع مل سکا کہ وہ پرویز مشرف کے سلسلے میں اپنے موقف کو اور سخت کر دے… مخلوط حکمراں اتحاد کی جانب سے پرویز مشرف کے مواخذے کے واضح اعلان کے بعد سے واقعات بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس ہفتے کے شروع میں ایسی خبریں بھی آ رہی تھیں کہ پرویز مشرف استعفیٰ دینے کو تیار تھے لیکن انہوں نے آصف علی زرداری کے اس الزام کے بعد کہ انہوں نے امریکی حکومت سے ملنے والی رقوم کے حوالے سے خوردبرد کی ہے، اپنا یہ فیصلہ تبدیل کر لیا ہے۔ آصف علی زرداری کا یہ کہنا کہ پرویز مشرف نے امریکی رقوم کے سلسلے میں کوئی خورد برد اور گڑ بڑ کی ہے بلاشبہ کوئی دانشمندانہ بیان ہر گز نہ تھا، کیونکہ اس بیان سے ان امریکی الزامات کو بھی مزید تقویت ملتی ہے جو وہ ہمارے سیکیورٹی اداروں کے خلاف اسی سلسلے میں عائد کرتا رہا ہے۔ بہر صورت اس واقعے کے بعد سے پرویز مشرف نے نوشتہٴ دیوار پڑھ لیا ہے اور اب اس قسم کی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ اگر انہیں روانگی اور رخصتی کا محفوظ راستہ دے دیا جائے تو وہ چپ چاپ خاموشی کے ساتھ رخصت ہو جائیں گے جس کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ انہیں اپنے مبینہ جرائم کی سزا دیئے بغیر ہی جانے کی اجازت دے دی جائے۔ بہرنوع پرویز مشرف کی اس طرح خاموشی کے ساتھ چپ چاپ روانگی کو بھی اس قوم کے لئے ایک بہت بڑی خوش خبری تصّور کیا جانا چاہئے، تاہم یہ ایک ایسے شخص کی روانگی ہو گی جس کا کردار اپنی قوم اور ملک کے لئے ہر گز بھی قابل تحسین یا قابل تقلید نہیں رہا۔ انہوں نے ہمیشہ قومی اور ملکی مفادات کو نظر انداز کر کے صرف اپنے شخصی اور ذاتی مفادات کی پاسداری کو اولین ترجیح دی۔ چلئے مان لیا کہ وہ ایک لڑنے اور مقابلہ کرنے والے شخص ہیں لیکن میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ اب ان کے پاس لڑنے کو ہتھیار باقی بچے ہی نہیں چنانچہ وہ اب کس کے سہارے اپنی یہ جنگ لڑیں گے؟ جہاں تک نمبر گیم کا تعلق ہے، اس میں بھی انہیں شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ مانا کہ ان کے پاس اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا اختیار بھی موجود ہے لیکن اس اختیار کو استعمال کرنے کے لئے انہیں پاکستان کی مسلّح افواج کی بھرپور تائید، حمایت، مرضی اور منشا کی ضرورت پڑے گی۔ کیا انہیں فوج کی جانب سے یہ تائید و حمایت حاصل ہو پائے گی؟ مواخذے سے بچنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ عدالت عالیہ سے رجوع کرتے ہوئے مواخذے کے خلاف حکم امتناعی حاصل کر لیا جائے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایا جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی قیادت میں عدالت عالیہ اس بات کا خطرہ مول لے سکے گی کہ قانون اور آئین کے مسلّمہ اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک ایسے شخص کو بچانے کی غرض سے اپنی گردن کو پھنسا لے جو خود ہی مائل بہ زوال ہے؟ بہر کیف حقیقت یہ ہے کہ پرویز مشرف کی رخصتی اور روانگی کے سلسلے میں نہ تو مسلّح افواج کوئی مداخلت کریں گی نہ ہی عدالت عالیہ خود کو اس میں گھسیٹے گی۔ پرویز مشرف کے لئے واحد آپشن یہی ہے کہ وہ فی الفور اپنے موجودہ عہدے سے استعفیٰ دے دیں۔ جتنا جلد وہ استعفیٰ دیں گے ان کے لئے اتنا ہی بہتر ہو گا لیکن خیال رہے کہ ہمارا واسطہ ایک ضدی، خود سر اور ہٹ دھرم انسان سے ہے، جس سے یہ قطعی بعید نہیں کہ وہ مسلّح افواج کی تائید وحمایت سے اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا اختیار استعمال کرے اس کے نتیجے میں انہیں زیادہ سے زیادہ ایک دو ہفتے کی مہلت اور مل جائے گی کیونکہ وہ مزید اپنے عہدے پر برقرار نہیں رہ پائیں گے لیکن اس کا نتیجہ ملکی استحکام کے حق میں زیادہ اچھا نہیں ہو گا؟ اگر انہوں نے اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا تو اس کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔ ملک کے کونے کونے سے لوگ اسلام آباد پہنچنا شروع ہو جائیں گے۔ مسلح افواج کے لئے بھی یہ صورت حال خاصی تشویشناک ہو گی اور اسے کیا فیصلہ کرنا چاہئے؟ اس طرح پورے ملک میں کنفیوژن پھیل جائے گا، جو ایک ایسی قوم کے لئے انتہائی دلخراش منظر نامہ ہو گا جو پہلے ہی مصائب اور مشکلات میں چاروں طرف سے گھری ہوئی ہے۔ مسلّح افواج کی قیادت کے لئے وہ لمحہ آن پہنچا ہے کہ وہ صدر پرویز مشرف کو تمام صورت حال سے آگاہ کر دے۔ اگر وہ محفوظ راستے کے خواہشمند ہیں تو انہیں جانے دیا جائے تاکہ قوم تو آگے بڑھ سکے۔