صحرائے چولستان میں سبز نگینے کی طرح آباد، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا بغداد کیمپس، انگلش ڈیپارٹمنٹ کا لیکچر روم، دسمبر کی دھند آلود دوپہریں ا ور ڈرامے کی کلاس میں گونجتی ہوئی ڈاکٹر فاسٹس "Doctor Faustus"پر لیکچر دیتے ہوئے ہوئے پروفیسر ایوب ججہ کی مخصوص گھمبیر آواز…!
یہ یاد کا ایک ٹکڑا ہے جو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں میرے ایم اے انگریزی کے اولین دنوں کے ساتھ جڑا ہے۔ ڈرامے کی کلاس میں سب سے پہلے ہمیں کرسٹوفر مارلو کا پلے ڈاکٹر فاسٹس پڑھایا گیا تھا۔ لامحدود خواہشات کی غلامی میں اپنی روح کو فروخت کر دینے والے ڈاکٹر فاسٹس کا المناک انجام اس وقت تو شعور فہم کی سطح پر اس طرح پیوست نہ ہوا مگر بعدازاں جب طالب علمی کے دور کے بعد عملی زندگی کا آغاز ہوا تو یہ کھلا کہ زندگی کیٹس کی نظموں کی نرماہٹ سے بہت دور ایک اور ہی چیز ہے۔یہاں خواہشوں اور خوابوں کی قیمت ہر حال میں چکانی پڑتی ہے۔ خواہش کے رستے پر توازن کے دائرے میں رہنا کتنا ضروری ہے۔ اس لئے کہ یہاں پرہر عمل کا ردعمل موجود ہے ہر راستہ ایک انجام کی طرف جاتا ہے۔ اس وقت مجھ پر ڈاکٹر فاسٹس کے کردار کے صحیح معنی و مفہوم کھلنے لگے۔ ان دنوں بھی جب میں اپنے وقت کے طاقتور ترین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل (ر) پرویز مشرف کو اپنے انجام کی طرف جاتا ہوا دیکھتی ہوں تو بے اختیار ڈاکٹر فاسٹس یاد آجاتاہے۔ یہ ایک عجیب و غریب کردار تھا اس ڈرامے کی مختصر کہانی یہ ہے ڈاکٹر فاسٹس ایک جرمن سکالر ہوتا ہے جو مذہب، قانون، میڈیسن، فلسفہ سمیت دنیا کے کئی علوم کا ماہر ہے مگر وہ اس کے باوجود مطمئن نہیں۔
وہ Human Limitationsکی حدود سے نالاں ہے اور اس میں "More than a manبننے کی عجیب و غریب خواہش جنم لیتی ہے ماورائی طاقت حاصل کرنے کے لئے وہ ایک شیطان (Devil)لوسی فر کے ساتھ ایک معاہدہ سائن کرتا ہے اور شیطانی طاقتوں کو اپنی روح بیچ کر چوبیس سال کے لئے ماورائی طاقت حاصل کرلیتا ہے۔ طاقت کا یہ خمار اس کے اندر Super Egoکو جنم دیتا ہے۔ اس طاقت کے بل بوتے پر وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔ سچ جھوٹ صحیح اور غلط کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔ چوبیس سال ایک طویل عرصہ ہوتا ہے، اس دوران وقتاً فوقتاً نیکی کا فرشتہ آتا ہے سپر ایگو کی آکاس بیل سے لپٹے ہوئے، طاقت کے خمار میں گم ڈاکٹر فاسٹس کوتنبیہ کرتا ہے کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے وہ بدترین انجام سے دوچار ہوگا۔ وقت گزرتا جا رہا ہے، تم اپنے کئے پر پچھتاؤ اور معافی مانگو۔ عین اسی وقت بدی کا فرشتہ نمودار ہو کر ڈاکٹر فاسٹس کو سہانے خواب دکھاتا ہے، اسے باور کراتا ہے کہ تم اپنی طاقت سے گزرتے وقت کو بھی روک سکتے ہو، تم عظیم ہو،تمہاری طاقت کا سورج لازوال ہے… بدی کا فرشتہ اسے اپنی تمام تر وفاؤں کا یقین دلاتا ہے۔
مختصر یہ کہ 24ویں سال کا آخری دن جب تیزی سے گزرتا جاتا ہے تو ڈاکٹر فاسٹس کو اپنا المناک انجام دکھائی دینے لگتا ہے۔آخری گھنٹے کے گزرتے ہوئے لمحوں میں وہ آرزو مند ہے کہ کاش گھڑی کی سوئیاں رک جائیں، سورج اور چاند کی گردش ٹھہر جائے… وقت تھم جائے… لیکن فطرت اپنے طریقے سے چلتی ہے، جونہی ڈاکٹر فاسٹس کا وقت ختم ہو جاتا ہے، ابدی المناکی کا لمحہ آن پہنچتا ہے۔ ماورائی طاقت کے خمار میں گم ڈاکٹر فاسٹس کے جسم کو گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یوں ایک ماورائی طاقت کا حامل سکالر، ڈاکٹر فاسٹس جسے آخری وقت تک یقین ہوتا ہے کہ سورج ٹھہر جائے گا، گھڑیاں تھم جائیں گی اور یہ وقت کبھی نہیں گزرے گا وہ ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر اپنے بھیانک انجام کو پہنچ جاتا ہے۔
ان دنوں جنرل (ر) پرویز مشرف کی صورتحال دیکھ کر ایسا گمان گزرتا ہے جیسے کرسٹو فرمارلو کے قلم کا شاہکار کردار ڈاکٹر فاسٹس کتاب کے صفحات سے نکل کر ہمارے سامنے آگیا ہو۔ اس وقت قومی منظر نامہ یوں ہے جیسے ڈاکٹر فاسٹس کے ڈرامے کو سٹیج کیا جا رہا ہو، کہانی کے سارے ہی کردار موجود ہیں۔ انجام سے باخبر کرنے والے، نیکی کے فرشتے بھی موجود ہیں… اور خواہشات کی غلامی پر اکسانے والی ماورائی طاقت کے بل بوتے پرسورج کی شعاعوں کو قید کرنے کا اشارہ دینے والے، بدی کے فرشتے بھی مشرف کے اردگرد منڈلاتے پھرتے ہیں۔ وہ تمام کردار بھی جو ڈاکٹر فاسٹس کو اس کی طاقت کا احساس دلاتے تھے، آخری لمحوں تک اپنی وفاؤں کا یقین دلاتے تھے وہ سب بھی آج کے ”ڈاکٹر مشرف فاسٹس“ کے دربار میں موجود ہیں اور خود مشرف جو ڈاکٹر فاسٹس کے روپ میں اپنے انجام سے بے خبر ہی سہی مگر وہ تیزی سے فیصلہ کن لمحوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ان کے دربار میں اختیار، اور طاقت کے بت دھوپ میں رکھی ہوئی برف کی طرح پگھل چکے ہیں ۔
اس وقت تک پاکستان کی چاروں صوبائی اسمبلیوں نے صدر مشرف کو مسترد کر دیا ہے۔ یک زبان ہو کر ان کے مواخذے ہی نہیں بلکہ ان کے محاسبے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں پیش کی جانے والی چارج شیٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ صدر مشرف نے اپنے دور اقتدار میں سینکڑوں بلوچیوں کو موت کے گھاٹ اتارا، بلوچ سردار نواب اکبر بگٹی کو محاصرہ کرکے قتل کر دیا۔ حکومتی اتحاد کی تیار کردہ چارج شیٹ کے ابتدائی خاکے میں موجود سات نکات میں سے ایک الزام یہ بھی ہے کہ ملک کے مقدس آئین کو خواہش اقتدار کے نشے میں پامال کرنے والے مشرف جامعہ حفصہ کی سینکڑوں بے گناہ معصوم حافظ قرآن بچیوں کو قتل کرنے کے مرتکب بھی ہوئے ہیں۔
خدا کی پناہ…! صدر مشرف کے خلاف ابھی تفصیلی چارج شیٹ سامنے آنا باقی ہے مگر ابھی تک ان پر ا لزامات کی فہرست میں ایسے ایسے گھناؤنے کام شامل ہیں کہ…خدا کی پناہ۔!
خواہش اقتدار کی اسیری میں پرویز مشرف نے اپنی روح اس دور کے ”لوسی فر“ شیطان (Devil)کے ہاتھ بیچ ڈالی تھی اور پھر آٹھ برس تک اقتدار کے بلاشرکت غیر مالک بنے رہے۔ جہاں جہاں ان کی خواہش اور مفاد پر زد پڑتی تھی وہاں وہاں سے صدر مشرف نے آئین اور قانون کو روند ڈالا۔ اقتدار کے اسی نشے میں پرویز مشرف نے پارلیمینٹ سے لے کر انصاف فراہم کرنے والی عدالتوں کو اپنے گھر کی باندی بنائے رکھا۔منصف اعلیٰ کوعدالت سے بے دخل کر دیا… غرض یہ کہ ہے داستاں دراز بھی… اور دلگداز بھی۔ اسی پرویز مشرف کو آج ہم اپنی تاریخ کے ڈاکٹر فاسٹس کے روپ میں لمحہ لمحہ ڈوبتے، بکھرتے، منہدم ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ سپرایگو کے لبادے میں ملبوس، خواہش کی غلامی کرنے والے اپنے کارسیاہ پر پچھتاوے اور شرمندگی کی رمق سے تہی، ہماری تاریخ کا ڈاکٹر فاسٹس بھی لمحہ لمحہ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ہے، مواخذہ، محاسبہ، استعفیٰ، محفوظ راستہ! ان میں سے کوئی بھی آپشن ڈاکٹرمشرف فاسٹس کے لئے کسی Enternal- Damnationسے کم نہیں ہوگا۔(کالم کے چھپنے تک شاید وقت اپنا فیصلہ سنا چکا ہوکہ 72گھنٹوں میں استعفیٰ کا بگل تو آج ویسے بھی بج چکا ہے)
ہو سکتا ہے کرسٹو فر مارلوکے کردار ڈاکٹر فاسٹس کی طرح پرویز مشرف بھی شدت سے چاہتے ہوں… کاش وقت ٹھہر جائے، گھڑی کی سوئیاں ٹک ٹک کرنابند کر دیں، سورج اور چاند کی گردش تھم جائے…… اورانجام کا فیصلہ کن لمحہ کبھی نہ آئے، مگر فطرت تو اپنے اصولوں کے مطابق چلتی ہے یہاں ہر خواہش کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے، اور ہر راستہ کسی انجام کی طرف جاتا ہے! دیکھئے منیر نیازی کس یقین سے کہتا ہے:
مری ہی خواہشیں باعث ہیں میرے غم کا منیر#
عذاب مجھ پہ نہیں حرفِ مدعا کے سوا