جنرل مشرف صاحب کے بعد کیا پاکستان کسی جو ہری تبدیلی سے گزرنے والا ہے؟
تمام خبروں اور تجزیوں کا حاصل یہ ہے کہ وقت کی طنا بیں کھچ چکی ہیں اور مشرف صاحب کا جا نا اب دنوں یا پھر گھنٹوں کی بات ہے۔میں اس مفروضے کو درست مان کر اس سوال کو موضوع بنا رہا ہوں۔
جنرل صاحب کے خلاف مرتب کی گئی چارج شیٹ اوران کے دور اقتدار میں اپنائی گئی حکمت ِ عملی پر کیے گئے اعتراضات کو سامنے رکھیے تو اس کا حا صل چند نکات کی صورت میں کچھ اس طرح سامنے آتا ہے:
# ملکی آئین کی پامالی اور اداروں کی تباہی
# امریکی مفادات کی آبیاری اور قومی مفا د سے صرف ِنظر
# لال مسجد میں بے گناہوں کا خون
# معیشت کی تباہی
جب ہم جو ہری تبدیلی کی بات کر تے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اب ان میں سے کوئی کام نہیں ہو گا۔آئین اورریا ستی اداروں کا احترام بحال ہو گا۔ پاکستان امریکا کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو گا اور ہم اس قابل ہو ں گے کہ واشنگٹن سے آنے والی ایسی ہدایات کو مسترد کردیں جو ہماری دانست میں ہمارے مفا دکے خلاف ہیں۔اسی طرح لال مسجد جیسے حادثات کا اعادہ نہیں ہو گا اور ملکی معیشت بہت بہتر ہو جا ئے گی۔کیا آنے والے دنوں میں یہ سب کچھ ہو نا ممکن ہو گا؟
اس میں کیا شبہ ہے کہ عہد ِپرویز میں آئین پامال ہوااور ریاستی ادارے بھی ایک فرد ِ واحد کی جنبش ِ ابرو کی نذر ہوگئے۔اس صورت ِحال سے نجات ہماری اولیں ترجیح ہو نی چائیے۔جنرل مشرف صاحب کی رخصتی علامتی طور پر اس بات کا اظہارہو گی کہ ملک آمریت سے جمہوریت کی طرف لوٹ آیا ہے اوراب حاکمیت عوام اور آئین کی ہو گی۔اس علامت کو حقیقت میں بدلنا نئی قیاد ت کا امتحان ہے۔اس ضمن میں پہلا معرکہ جج حضرات کی بحالی ہے۔وکلا نے حکومت کو مزید ایک ماہ کی مہلت دے دی ہے اور مسلم لیگ (ن) بھی اسے مواخذے کے بعد پہلی ترجیح قرار دے رہی ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور اس کے حلیف اس معا ملے سے کیسے نمٹتے ہیں۔آصف زرداری اس موقف کا بر ملا اظہار کر چکے ہیں کہ افرادکی آمد و رفت اہم نہیں۔زیا دہ اہمیت اس بات کی ہے کہ عدالتی نظام کی اصلاح ہو۔نواز شریف اور اعتزاز احسن کا کہنا یہ ہے کہ افراد اس لیے اہم ہیں کہ وہ آزاد عدلیہ کی علامت ہیں اور ان کی بحالی سے یہ تاثر مستحکم ہو گا کہ کوئی شخص قا نو ن سے ما ورا نہیں۔
میرا خیال یہ ہے پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ کی قیادت کو دونوں میں تطبیق پیدا کرنا ہوگی۔یہ مناسب معلوم ہو تا ہے کہ ان افراد کی بحالی کو ایک اصلاحی پروگرام کا حصہ بنا دیاجائے۔عام آدمی کا زیادہ تر پالا نچلی عدالت سے پڑتا ہے ۔اگر اسے انصاف نہیں ملتا تو عام آدمی کو اس سے غرض نہیں کہ عدالت ِعظمیٰ کے جج بحال ہو تے ہیں یا نہیں۔اس بنا پر میرا یہ کہنا ہے کہ حکومت اگر اصلاحات کا ایک جامع پیکیج لاسکے توعوام کو عملاً یہ گواہی مل جا ئے گی کہ جمہوریت آمریت سے بہتر ہے اور جنرل مشرف صاحب کی رخصتی ایک جو ہری تبدیلی کا باعث بنی ہے۔
جہاں تک امریکا کے ساتھ تعلقات کا تعلق ہے تو اس حوالے سے کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں کر نی چا ئیے۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے عنوان سے اس وقت جو معرکہ برپا ہے ،پاکستان کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ وہ اس پالیسی کو فی الجملہ جاری رکھے جو مشرف عہد میں اختیار کی گئی۔اس میں البتہ بعض جز وی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔مثال کے طور پر سابقہ دور میں امریکی ایجنسیاں پاکستانی شہریوں کو براہ راست اٹھا تی رہی ہیں یا پاکستانی ادارے انہیں بغیر کسی تحقیق کے امریکا کے حوالے کرتے اور اس خدمت کی قیمت وصول کرتے رہے ہیں۔ اس کا اعتراف جنرل صاحب اپنی کتاب میں کر چکے ہیں۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا قصہ اس شرم ناک رویے کا ایک مظہر ہے۔ہمیں امریکا کو اس پر آمادہ کر نا ہو گا کہ اگر اسے کسی پاکستانی کے خلاف کو ئی شکا یت ہے تو وہ ہماری حکومت کو اس سے ّگا ہ کرے اور پھر حکومت اس کے خلاف اعلانیہ عدالتی کا روائی کرے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسے واقعات کا امکان اگر چہ فطری طور پر کم ہوگیا ہے لیکن س کے باوجود اس معاملے کو یقینی بنا نے کی ضرورت ہے۔میں اسے حکومت کی ایک کا میا بی سمجھوں گا۔تاہم دہشت گردی کے خلاف جنگ اور پاک امریکا تعلقات کے پس ِمنظر میں کسی جوہری تبدیلی کی توقع نہیں رکھنی چا ئیے اور یہ بات بڑی حد تک قابل َفہم ہے۔لال مسجد جیسے واقعات کا تعلق بھی بنیادی طور پر اسی حکمت ِعملی سے ہے۔اسی طرح جہاد کے نام پر جو لوگ عسکری سر گر میاں جاری رکھے ہو ئے ہیں ،ان کے بارے میں کو ئی حکومت پچھلے دور سے مختلف پالیسی اختیا رنہیں کرسکتی۔اس کا اندا زہ پیپلز پارٹی کی مرکزی اور اے این پی کی صو بائی حکو مت کی پالیسیوں سے کیا جا سکتا ہے۔
معیشت کا معاملہ یہ ہے کہ آج دنیا کی کسی حکومت کے پاس اوپن مارکیٹ اکانومی کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔یہ سرمایہ داری کا وہ جبر ہے جس سے نجات کی کوئی صورت فی الحال دکھائی نہیں دیتی۔پچھلے ماہ ایران کے اعلیٰ ترین ریاستی ومذہبی ادارے شورےء نگہبان کا ایک وفد پاکستان کے دورے پر تھا۔اسلامی نظریاتی کونسل کی ایک تقریب میں جب وفد کے سر براہ آیت اللہ جنتی سے یہ پوچھا گیا کہ وہ ملکی معیشت کی تشکیل نو میں کتنے کامیاب ہو سکے ہیں توان کا اعتراف تھا کہ اس معاملے میں کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں ہو سکی۔اس بنا پر کسی پاکستانی حکو مت سے یہ توقع نہیں کرنی چائیے کہ وہ معاشی نظام میں کو ئی جو ہری تبدیلی لا سکے۔ہمیں اگر آج کو ئی رستہ تلاش کر نا ہے تو ملا یشیا کی طرح اس نظام میں رہ کر ہی کر نا ہو گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں سیا سی استحکام ہو اور حالات معاشی سر گرمیوں کے لیے ساز گا ر ہوں۔یہ وقت بتا ئے گا کہ حکو مت اس میں کتنی کا میاب ہو تی ہے ۔ مشرف صا حب کے بعد اگر کسی کا خیال ہے کہ دن رات میں زمین آسمان بدل جا ئیں گے تو ایسا نہیں ہو گا اور نہ اس کی تو قع کر نی چا ئیے۔ اگرمو جو دہ قیا دت یہ تا ثرقائم کر نے میں کا میاب ہو جا تی ہے کہ ملک ایک بار پھر آمریت سے جمہو ریت کی طرف چل نکلا ہے اور یہ سفر جاری ہے توقوم یقینا نتائج کے لیے مزیدانتظار کر سکتی ہے ۔
لوگ جانتے ہیں کہ ہتھیلی پر سرسوں نہیں جمتی۔تاہم ضروری ہے کہ حکومت اس سمت میں آگے بڑہتی دکھائی دے۔بصورت دیگر ہم جمہو ریت کے ساتھ وا بستہ رومان بھی اسلام اور سوشلزم کی طرح کھودیں گے اور مایو سی کی یہ کیفیت ہمیں ایک بار پھر آمریت کی نذر کر سکتی ہے۔