• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خواجہ ناظم الدین کی رخصتی کے بعد سے پاکستان میں جمہوریت بازیچہ آمریت بن کر رہ گئی۔محمد علی بوگرہ کو خود گورنر غلام محمد نے وزیر اعظم نامزد کیا لیکن اُن کو بھی چلنے نا دیا۔اس کے بعد چودہری محمد علی وزیر اعظم بنے مگر وہ ایک سال سے بھی کم کی مدت میں صدر اسکندر مرزا کی سازشوں کا شکار ہوگئے۔ چوہدری محمد علی کے بعد حسین شہید سہروردی اسکندر مرزا کی خواہش پر وزیر اعظم بنے اور ان ہی کی سازش سے بمشکل ایک سال کی مدت پوری کر کے منظر سے ہٹا دیے گئے۔اب اس کردار کو اداکرنے کے لئے اسکندر مرزا اسمٰعیل ابراہیم چندریگر کو لائے مگر دو ماہ سے بھی کم کی مدت میں ایوانِ صدر کی سازشوں سے بیزار ہو کر استعفیٰ دے گئے۔اس کے بعد ملک میں کھلی آمریت سے قبل کے آخری وزیر اعظم فیروز خان نون آئے اور تقریبا سال بھر کا عرصہ آپا دھاپی میں گذارا کہ اسکندری آمریت پر ایوب خانی آمریت غالب آئی اور ملک کو پہلے مارشل لاء نے اپنے نا سعد سائے میں لے لیا۔ غلام محمد کے غیر قانونی اقدام سے تادم، ملک آمریت کی کسی نہ کسی شکل میں گرفتار رہا ہے اور اگر اس دوران مجبوراََ جمہوریت کو لایا بھی گیا ہے تو پابجولاں اور آئندہ آمریت کو جواز بخشنے کے لیے۔
اب ایک طویل دورِ آمریت کے بعد ملک میں ایک جمہوری نظام قائم ہونے چلا ہے تو ماضی کے تجربات خدشات کو ابھار ابھار کر پیش کر رہے ہیں۔وجہ اس کی یہی ہے کہ اوپر درج یہ تمام اکھاڑ پٹخ اور پے در پے بحرانوں کی آمد اُن ادوار کا قصہ ہے جب جمہوریت کسی نہ کسی شکل میں نظام کی بنیاد بنی ہوئی تھی۔ آمروں کے ادوار دیکھئے تو سوائے یحیٰٰٰٰٰٰٰ خان کے دوسرے آمروں نے جمہوروں کے مقابلے میں نسبتاََ پر سکون ماحول اور حالات میں حکومت کی۔ آمروں کا طریقہ واردات تقریباََ یکساں ہی رہا کہ ابتداء میں تو سیاست دانوں کو مختلف حربوں سے خوفزدہ کر کے اپنے حلقہ حامیان میں شامل کیا جاتا رہا ۔ جو اس پر رضامند نا ہوئے انہیں جیل کی کوٹھڑیوں یا بیرون ملک کی راہ دکھائی جاتی رہی۔ اس کے بعد باقی بچ رہتی کچھ دوسرے یا تیسرے درجے کی قیادت تو وہ اچھے وقتوں کی آس میں سیاست سے کنارہ کش ہو جاتی۔ یہاں تک کہ نظام پر کلہاڑا چلاتا آمر تھک ہار کر اپنے ہی پیروں پر وار شروع کر دیتا اور جبر کی بدلی تلے پوشیدہ سیاست دان رفتہ رفتہ باہر جھانک کر آمر کی مخالفت میں ایک آدھ بیان داغ ڈالتے۔ آہستہ آہستہ ایک قافلہ بن جاتا ،ایک تحریک برپا ہو جاتی اور آمر کی رخصتی اور سیاست دانوں کی حکومت اور بے توقیری کے دن آجاتے۔
اس بار گو صورتحال ترتیب کے لحاظ سے کچھ مختلف سہی مگر حالات مجموعی طور پر وہی ہیں۔ جمہوری حکومت اور سیاست دان عنانِ حکومت کسی حد تک سنبھال چکے ہیں مگر آمر کی رخصتی کا عمل ابھی جاری ہے کہ اس کی باقیات کی صفائی تک یہ عمل مکمل نہیں ہوتا۔ خدشات جو ذہنوں میں ابھر رہے ہیں وہ یہ ہیں کہ صفائی کے اس عمل کے بعد کیا ہوگا؟۔۔راوی چین ہی چین لکھے گا یا حسبِ سابق دھینگا مشتی کے مناظر نظر آْئینگے؟۔سیاست دان ایک دوسرے کو سیکیورٹی رسک قرار دینگے؟،ملک دشمن ہونے کے الزمات لگائے جائینگے؟، باہم غیر ملکی ایجنٹ کے لقب سے نوازا جائیگا؟،حزبِ مخالف کے خلاف سیاسی بنیادوں پر مقدمات قائم کیے جائینگے؟، اقربا پروری اور پارٹی کارکنوں کو نوازنے کے لیے میرٹ کو جھونک کر اداروں کا ناس نکال دیا جائے گا؟، حکومت مخالف ریلیوں اور مارچوں کا ریلہ بہنا شروع ہو جائیگا؟،شکست خوردہ سیاست دان اور دونوں اقسام کے سیاست دانوں سے بیزار عوام نجات کے لیے فوج کی جانب دیکھنا شروع کر دینگے؟، پھر کوئی نجات دہندہ ،مہدی زماں ہونے کا دعویدار بن کر پردہ عیب سے ظاہر ہوگا، قوم کو چند برسوں میں اوج ثریا پر پہنچانے کی خوشخبری دیگا اور بچھا کھچا نظام بھی غارت کر کے ملک کے وسیع تر مفاد میں نا چاہتے ہوئے بھی رخصت ہو جائیگا یا کر دیا جائے گا؟
کہا جا رہا ہے کہ یہ انیس سو ستر نہیں ہے دو ہزار آٹھ ہے۔ اب سیاسی شعور اور عوامی حقوق کا ادراک پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ آزاد میڈیا کی موجودگی میں یہ سب ممکن نہ ہوگا۔خصوصا جب ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں یہ طے کر چکی ہیں کہ اب اسٹبلشمنٹ کو کھل کھیلنے کا موقع ہر گز نہیں دیا جائیگا اور بہر صورت سیاسی تنازعات سیاسی طریقے سے سیاسی میدان میں حل کئے جائینگے۔یہ بات بلا شبہ کسی حد تک یوں درست ہے کہ موجودہ اتحادی اور ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں مجموعی طور پرپانچ مرتبہ آمروں کے ہاتھوں اپنی منتخب حکومتیں گنوانے کے بعد اب کافی محتاط نظر آتی ہیں اور اسٹبلشمنٹ کو مشترکہ دشمن جان کرآئندہ اسے سیاسی معاملات میں دراندازی کا کوئی موقع فراہم نہیں کرنا چاہتیں۔ مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ محض خام خواہش نظام میں اتنی بڑی تبدیلی لانے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جمہوری اقدار اور رویوں کو رواج دینا لازمی ہوگا۔شخصی حکمرانی کے ہر ہر رنگ کو اس نظام سے محو کرنا ہوگا۔ اس کے لیے خود سیاسی جماعتوں میں اوپر سے نیچے تک جمہوریت رائج کرنا بھی لازم ہوگا۔ سب سے بڑھ کر جمہوریت کے نام پر ہونے والے غیر آئینی اقدامات اور آئندہ آمریت کے نفوذ کو روکنے کے لیے جرات مند اور آزاد عدلیہ کا قیام انتہائی سے بھی زیادہ ضروری ہے جو حکمرانوں کو من مانی کرنے سے روک سکے اور ملکی دولت لوٹنے والوں کے ہاتھ پکڑ سکے۔
موجودہ حکومت پانچ سالوں کے لیے برسرِاقتدار آئی ہے۔ حسنِ ظن سے کام لیتے ہوئے اگر اس حکومت کے پانچ سال چل جانے کی امید رکھ بھی لیں جب بھی جمہوری نظام کے چلنے ،پنپنے اور باقی رہنے کے لیے درج بالا اقدامات کی امید اس دور میں نہیں کی جا سکتی۔ ان اقدامات کے بغیر جمہوریت کے پھلنے پھولنے کی توقع بھی عبث ہے۔ لہذا بر خلافِ تمنا لیکن بظاہر بعد از مشرف وہی ہوتا نظر آ رہا ہے جو گذشتہ جمہوری ادوار کا خاصہ رہا ہے۔ موجودہ نظام میں تخریب کا بیرونی عنصر تو روز اول سے ہی متحرک رہا ہے مگر داخلی شکستگی ایک مشترکہ دشمن پرویز مشرف کی بدولت منظر عام پر نہیں آئی تھی۔ اب جب نظام پرویز مشرف سے پاک ہونے جا رہا ہے اتحادی جماعتوں کے مابین نظریاتی تفاوت انہیں طویل یا کم از کم معقول عرصے تک ساتھ چلتے رہنے میں بھی کامیاب نہیں ہونے دیگا۔خارجہ پالیسز پر دونوں بڑی جماعتوں کے خیالات میں بعد المشریقین پایا جاتا ہے۔ بعد از مشرف پیپلز پارٹی کا طرزِ حکومت ن لیگ زیادہ عرصے تک ہضم نہ کر سکے گی اور لا محالہ اس اتحاد کا انجام اتحاد کے انتشار کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ گو یہ جمہوریت کا ہی ایک حصہ سہی مگر پاکستان میں جمہوریت کے لیے ایک دھچکا ضرور ہوگا۔ ن لیگ اور پی پی کے اتحاد کے اختتام کے بعد سیاسی منظر پر جو نیا اتحاد نمودار ہوگا وہ بظاہر فطری اور نظریاتی یکجہتی پر مبنی ہوگا مگر اس اتحاد میں گروہوں کی کثرت اور مطالبات کی روز افزوں وسعت کے سبب پیپلز پارٹی کے لیے زیادہ عرصہ اسے سہار لینا مشکل کام ہوگا۔اے این پی کی امریکہ سے انڈر اسینڈنگ اپنی جگہ مگر بحران سے نکل کر معمول کے حالات میں کاروبارِ حکومت کی انجام دہی اس کے لیے اس وقت مشکل ہو جائیگی جب پیپلز پارٹی کی روایتی سیاست اور وسعت پسندی حکومتی معاملات کو سپر سیڈ کرے گی۔ حکومت کے ان ابتدائی دنوں میں بھی تمام اتحادیوں کو پی پی سے یہ شکایت رہی ہے کہ وہ فیصلہ سازی میں انہیں اعتماد میں نہیں لیتی۔سندھ میں کراچی کی شہری حکومت ایم کیو ایم کے پاس رہنے تک سندھ حکومت متوازن رہ سکتی ہے لیکن اگر شہری اور ضلعی حکومتوں کے نظام کو ختم کیا گیا جیسا کہ ارادہ ظاہر کیا جا رہا ہے تو دوں وں جماعتوں میں تنازعات کا ایک تانتا بندھ جائیگا۔ صدر مشرف کی موجودگی میں پیپلز پارٹی اپنے مخصوص طرز میں اور کھل کر حکومت کرنے کاموقع نہیں پا سکی مگر اس کے گذشتہ تین ادوار کو سامنے رکھیں تو غالب گمان یہی ہوتا ہے کہ تمام تر شعوری ترقی کے باوجود اس جماعت کا اپنے نئے اتحادیوں کے ساتھ انہیں مطمئن کرتے ہوئے چلنا ایک نہایت ہی مشکل امر ہوگا۔ اس گمان کو تائید دینے کے لیے موجودہ نسبتاََ کم اختیارات کی حامل حکومت کے ابتدائی پانچ ماہ کے اقدامات کے کئی حوالے موجود ہیں۔
دوسری جانب اس وقت کی مفلوج اپوزیشن کی جگہ ایک فطری اتحادیوں پر مشتمل مضبوط اور متحرک اپوزیشن میدان میں ہوگی۔ممکن ہے کہ ن لیگ سے چند اور ق لیگ کے اکثر پرندے پی پی کے آشیانے کی جانب پرواز بھی کر جائیں لیکن ن لیگ شاید اس سے متاثر نہ ہو کہ ق لیگ سے چند اڑانیں ن لیگ کی جانب بھی بھری جا سکتی ہیں۔ ممکن ہے متحدہ مسلم لیگ کا تصور بھی کچھ عرصے بعد حقیقت کا روپ دھار لے۔اگر حکومت اپنی مدت پوری کرے گی تو اس دوران اس کے اتحادیوں کی ہیئتِ ترکیبی ایک سے زائد بار تبدیل ہونے کا امکان ہے۔سیاست دانوں کے لئے یہ پنچ سالہ دور ایک آزمائش کا دور ہے جس میں انہیں اپنے اصولوں، اپنے نظریات اور سیاسی مفادات کا تحفظ اس طرح کرنا ہے کہ جمہوریت پر کوئی آنچ نہ آئے۔یہ کام انتہائی کٹھن ہے کہ سازشوں کی موجودگی میں اختلافات کو اُن کی حدود تک رکھنا آسان نہیں اور نہ ہی ہمارے یہاں اس کی کوئی روایت ہے۔لیکن جب روایات شکنی کا عمل نو مارچ دو ہزار سات سے شروع ہو ہی چکا ہے تو پھر سیاست دانوں کو بھی یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ بھی بدلتے حالات کے ساتھ چلنے کے اہل ہیں۔یہاں ناکامی کی صورت میں ہم اور یہ نظام ایک بار پھر غیرمعینہ مدت کے لئے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گُم ہو سکتے ہیں۔خدانہ کرے کہ مشرف کے بعد کا پاکستان اس کے بعد کوئی اور مشرف دیکھے۔


تازہ ترین