• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حال ہی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنے 5 اہم شعبوں کی کراچی سے لاہور منتقلی کا فیصلہ کیا ہے جس سے بزنس کمیونٹی اور تاجر برادری میں بے چینی اور تشویش پائی جاتی ہے۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹر ی کے قائمہ کمیٹی برائے بینکنگ، کریڈٹ اینڈ فنانس کا چیئرمین ہونے کے ناطے پاکستان بھر کے چیمبرز اور ٹریڈ ایسوسی ایشنز کے نمائندوں نے اس سلسلے میں مجھ سے رابطہ کرکے اسٹیٹ بینک کے اہم شعبوں کی منتقلی کے فیصلے پر عملدرآمد رکوانے کیلئے گورنر اسٹیٹ بینک اور اعلیٰ حکام سے بات کرنے کی درخواست کی ہے۔قارئین! بینک دولت پاکستان یا اسٹیٹ بینک آف پاکستان، پاکستان کا مرکزی بینک ہے۔ اس کا قیام یکم جولائی 1948ء میں عمل میں آیا جس کا ہیڈ کوارٹر کراچی میں قائم ہے۔پاکستان کی آزادی سے پہلے ریزرو بینک آف انڈیا اس علاقے کا مرکزی بینک تھا لیکن آزادی کے فوراً بعد یہی بینک دونوں ممالک کا مرکزی بینک تھا تاہم یکم جولائی 1948 ءکو قائد اعظم محمد علی جناح نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کیا۔ 30دسمبر 1948ء کو برطانوی حکومت نے برصغیر کے ریزرو بینک آف انڈیا کے اثاثوں کا 70 فیصد ہندوستان کو دیا جبکہ پاکستان کو 30 فیصد حصہ ملا۔ اْس وقت ریزرو بینک آف انڈیا کی طرح اسٹیٹ بینک آف پاکستان بھی نجی بینک تھا۔ یکم جنوری 1974ء کو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اِسے قومی ملکیت میں لے لیا جس کی وجہ سے عالمی بینکار بھٹو کے دشمن بن گئے۔فروری 1994 میں بینظیر بھٹو کی حکومت نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو فنانشل سیکٹر ریفارم کے نام پر خودمختاری دی۔ 21 جنوری 1997 میں ملک معراج خالد کی نگراں حکومت نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو مزید آزادی دے کر مکمل خود مختار ادارہ بنادیا اور اب یہ ادارہ قانونی طور پر آزاد اور خود مختار ہے۔ 2005ء میں منی چینجروں کو قانونی درجہ دے کر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ماتحت کر دیا گیا۔ اسٹیٹ بینک مانیٹری پالیسی کے ذریعے ملکی جی ڈی پی گروتھ میں اضافے کے ساتھ ساتھ افراط زر کو کنٹرول بھی کرتا ہے۔ 1960ء میں جب دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کیا گیا تو اُس وقت کی حکومت اور پالیسی سازوں نے اسٹیٹ بینک کی کراچی کی تجارتی، صنعتی و مالیاتی سرگرمیوں کے پیش نظر اسٹیٹ بینک کو کراچی سے منتقل نہیں کیا۔
پاکستان کے ہر شہر کے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے اپنی اہمیت ہے جس کے حساب سے اس شہر نے ترقی کی۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جس کی آبادی 24.3 ملین پر مشتمل ہے۔ یہ دنیا کا ساتواں بڑا کاسموپولیٹن شہر ہے۔ پاکستان کی معیشت کا بیرومیٹر مانا جاتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے اہم ادارے قیام پاکستان سے اب تک کراچی میں قائم ہیں اور ملکی معیشت میں اپنا اہم کردار ادا کررہے ہیں جس میں بینکنگ انشورنس، فیشن، میڈیا، اعلیٰ تعلیمی ادارے قابل ذکر ہیں۔ کراچی بینکوں اور فنانشل اداروں کا مرکز ہے اور حکومت کو مجموعی ریونیو کا 65 فیصد ریونیو صرف کراچی سے حاصل ہوتا ہے۔اسٹیٹ بینک تمام نجی بینکوں کا ریگولیٹر ہے جس کی وجہ سے اس کے اہم شعبے کراچی میں ہی قائم ہیں لیکن 69 سال گزرنے کے بعد اب اسٹیٹ بینک نے کرنسی مینجمنٹ، گورنمنٹ بینکنگ، انٹرنل آڈٹ، فارن ایکسچینج آپریشن اور ڈویلپمنٹ فنانس گروپ جیسے اہم شعبے لاہور منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو حکومت کی کاروبار دوست اور صوبائی ہم آہنگ پالیسیوں کے منافی ہے۔ کراچی کا قومی جی ڈی پی میں 20 فیصد، صنعتی پیداوار میں 30فیصد، بڑے درجے کی صنعتوں میں 40 فیصد، چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں میں 30 فیصد، انکم ٹیکس ریونیو میں 65 فیصد، ملکی مجموعی تجارت اور بینکوں کے ڈپازٹس میں اس کا بڑا حصہ ہے۔ پورٹ سٹی ہونے کی وجہ سے پاکستان کی 40 ارب ڈالر کی امپورٹ اور 25 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ یعنی مجموعی طور پر 65 ارب ڈالر کی تجارت کراچی سے کی جاتی ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی بینکوں کے ہیڈ کوارٹرز کے علاوہ بے شمار ملٹی نیشنل کمپنیوں، انشورنس کمپنیوں اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج جیسے اہم اداروں کے ہیڈ کوارٹرز بھی کراچی میں قائم ہیں۔ ورلڈ بینک کراچی کو دنیا کا کاروبار دوست شہر قرار دے چکا ہے جو پورے ملک سے آنے والے لوگوں کو بلاتفریق و رنگ و نسل روزگار فراہم کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کراچی کو صحیح معنوں میں میٹروپولیٹن شہر کہا جاتا ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں امن و امان کی خراب صورتحال کے باوجود کراچی کی تجارتی و صنعتی سرگرمیوں میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ کراچی آپریشن کے نتیجے میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری کی وجہ سے روشنیوں کے شہر کراچی کی رونقیں دوبارہ لوٹ آئی ہیں۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج (سابقہ کراچی اسٹاک ایکسچینج) خطے کی بہترین اسٹاک مارکیٹ قرار دی گئی ہے جس میں کراچی کا بڑا حصہ ہے۔ ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اسٹیٹ بینک کے اہم شعبوں کی کراچی سے منتقلی ناقابل فہم ہے بلکہ اسٹیٹ بینک کا یہ اقدام مقامی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ایک منفی پیغام دے گا۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر عبدالرئوف عالم اور کراچی چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر شمیم احمد فرپو نے بھی وفاقی حکومت کی جانب سے اسٹیٹ بینک کے 4 شعبوں کو کراچی سے منتقل کرنے کے فیصلے کو تاجر و صنعتکار برادری اور سندھ صوبے کے ساتھ ناانصافی قرار دیا ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک اشرف محمود وتھرہ کے واشنگٹن کے دورے پر ہونے کی وجہ سے میں نے اسٹیٹ بینک کے بینکنگ سروسز کے منیجنگ ڈائریکٹر قاسم نواز سے اس سلسلے میں بات کی تو انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ بینک کے اہم شعبوں کی کراچی سے منتقلی کے باوجود کسی ملازم کو ملازمت سے نہیں نکالا جائے گا بلکہ انہیں کراچی یا لاہور میں سے کسی بھی شہر میں اپنی خدمات جاری رکھنے کا آپشن دیا گیا ہے۔ ٹی وی کے مختلف چینلز نے بھی اس سلسلے میں FPCCI کا موقف جاننے کیلئے میرے ساتھ پروگرام کئے اور اسے صوبوں کے مابین بین الصوبائی مقابلاتی سکت متاثر کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ اس صورتحال میں، میں نے مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ذریعے وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور گورنر اسٹیٹ بینک اشرف محمود وتھرہ سے درخواست کی تھی کہ وہ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے نمائندوں سے فوراً میٹنگ کرکے ان کے تحفظات دور کریں اور اسٹیٹ بینک کے اہم شعبوں کی کراچی سے منتقلی کے فیصلے کو فی الفور موخرکیا جائے۔
کراچی ملک کا تجارتی، مالی اور صنعتی مرکز ہے جو قومی خزانے میں65 فیصد ریونیو کا حصہ دار ہے اور اس شہر میں پاکستان کے دیگر شہروں کی نسبت شرح خواندگی زیادہ ہے۔ کراچی کی تاجروصنعتکار برادری مرکزی بینک کے اہم شعبہ جات کی کراچی سے منتقلی کے فیصلے کو مسترد کرتی ہے جس سے نہ صرف کراچی کی تاجروصنعتکار برادری کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا بلکہ صوبائی ہم آہنگی کی فضا بھی متاثر ہوگی۔ مجھے خوشی ہے کہ اس سلسلے میں اسٹیٹ بینک کے منیجنگ ڈائریکٹر قاسم نواز نے مجھ سے رابطہ کرکے اس اہم مسئلے پر گورنر اسٹیٹ بینک کے ساتھ فیڈریشن ہائوس میں میرے اور بزنس کمیونٹی کے لیڈروں کے ساتھ میٹنگ کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے اور یقین دلایا ہے کہ کراچی سے اسٹیٹ بینک کا کوئی ڈپارٹمنٹ منتقل نہیں کیا جائے گا۔ گورنر اسٹیٹ بینک کی دعوت پر آج وزیر خزانہ اور آئی ایم ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر سے اسلام آباد میں میٹنگ کیلئے جارہا ہوں، اُمید ہے کہ واپسی پر گورنر اسٹیٹ بینک سے میٹنگ میں اس مسئلے کو افہام و تفہیم سے حل کرلیا جائے گا۔


.
تازہ ترین