ملک کے اہم ترین اداروں کو تباہ کرنے والے مشرف مواخذے کا مقابلہ کس طرح کرسکتے تھے۔ انہوں نے استعفیٰ دے کر جان چھڑانے کو ترجیح دی۔ ان کا حکومت کرنے کا انداز عوام کے لئے مسلسل دردسر رہا۔ وہ شاید ہٹلر کے پیروکار تھے، ڈٹ کر جھوٹ بولنا ان کو خوب آتا تھا ملک کے سادہ عوام کو گمراہ کرکے اور بیوقوف بناکر وہ محظوظ ہوتے تھے یقیناً اپنے ساتھ سب سے بڑی زیادتی انہوں نے اس وقت کی جب بہ امر مجبوری وہ ملک میں میڈیا کو کچھ آزادی دینے پر تیار ہوئے۔ یہ ایک الگ داستان ہے کہ میڈیا کو آزادی دینا ان کے مقاصد کا حصہ نہیں تھا بلکہ اس کی ضرورت اس وقت بڑھی جب حمود الرحمٰن رپورٹ بھارت کے اخبار ٹائمنر آف انڈیا سے جاری ہوئی اور یہ سوال اٹھے کہ اگر انڈیا کا میڈیا آزادی کے ساتھ رپورٹنگ کررہا ہے تو پاکستان میں صرف سرکاری میڈیا کی موجودگی کا جواز کیوں کر باقی رہ جاتا ہے۔ پاکستان کے عوام پرائیویٹ میڈیا سے کیوں کر محروم رکھے جائیں۔
مشرف کے مواخذے کے لئے ان کے چور دروازے سے اقتدار کے حصول کا طریقہ ہی بہت بڑا جرم تھا اور یہی ان کے مواخذے کے لئے کافی تھا۔ اگرچہ اس کے بعد بھی وہ بے شمار جرائم کے مرتکب ہوئے۔ انہوں نے اس وقت کے منتخب وزیر اعظم کو قید میں ڈالا۔ ایسے الزامات لگائے جن کو ثابت نہ کیا جاسکتا تھا۔ ان کو معاف کرکے ملک بدر کیا۔ اپنے تمام سیاسی حریفوں کو قید رکھنا یا ان کو ملک بدر رکھنا مسلسل ان کی مجبوری رہا۔ ان کے اقتدار کے دوران نواز شریف اور شہباز شریف دونوں نے ملک واپسی کی کوشش کی۔ انہوں نے کمال ڈھٹائی کے ساتھ ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے احکامات کو بھی نظرانداز کیا اور عدالت کے فیصلے کے بعد واپس آنے والے نواز شریف کو اسلام آباد ائیرپورٹ کی حدود سے باہر نہیں آنے دیا۔ یہ ملک کی عدلیہ اور اپنے حریف سیاستدانوں کے لئے ان کا نفرت کا اظہار تھا۔ چونکہ اس کے بعد انہوں نے ملک کی اس عدلیہ کا بھی جنازہ نکال دیا جس عدلیہ نے ان کی مرضی کے خلاف فیصلے دئیے تھے۔ وہ ایک عرصے تک دنیا کو یہ بتاتے رہے کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری ایک بدعنوان شخص تھے اس لئے ان کا جانا ضروری تھا۔ انہوں نے دنیا کو کبھی اس سازش سے آگاہ نہیں کیا جو انہوں نے اقتدار میں آنے کے لئے تیار کی تھی۔ چونکہ وہ مطلق العنان آرمی چیف تھے اس لئے وہ اپنی برخاستگی کے احکامات برداشت نہ کرسکے اور انہوں نے اس وزیر اعظم کو برخاست کرنے اور قید کرکے اپنا جہاز اغوا کرنے کا الزام تیار کیا تاکہ ملک کے آئین کے تحت منتخب وزیر اعظم کو سزا دی جاسکے۔ مشرف کا اندازحکمرانی اپنے مخالفوں پر الزامات لگاکر ان کو لمبے عرصے کے لئے گرفتار رکھنا تھا تاکہ سچ کی ہر آواز کو دبایا جاسکے اور وہ بلاشرکت غیرے حکمرانی کرتے رہیں۔ ایسا ملک کے موجودہ وزیر اعظم کے ساتھ بھی کیا گیا اور جاوید ہاشمی کے ساتھ بھی۔ ملک کے عوام فوج کے ادارے سے بدگمان ہونے لگے تھے۔ مشرف جانتے تھے کہ ان کے اقتدار کے دن اسی دن تک برقرار رہ پائیں گے جب تک کہ ملک کی مقبول قیادت یعنی مرحومہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو ملک بدر رکھا جاسکے گا۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے خوب زور لگایا۔ امریکہ میں اپنے اثر و رسوخ کو بھی استعمال کیا اور سعودی حکومت پر بھی اپنا دباؤ برقرار رکھنے کی کوشش کی جب خود ان پر دباؤ بڑھا اور امریکہ اور یورپ میں پاکستان میں آمریت کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگیں تو مشرف کو ایک ہی راستہ نظر آیا یعنی پیپلزپارٹی کے ساتھ ڈیل کرکے ملک میں عام انتخابات کو جب تک ممکن ہو موخر رکھا جائے تاکہ وہ امریکہ اور مغرب سے اٹھنے والی آوازوں کو باور کراسکیں کہ پیپلزپارٹی ان کے ساتھ ہے۔ 2007ء میں ہونے والے الیکشن کو انہوں نے پوری کوشش کرکے فروری 2008ء تک موخر رکھا۔ اس دوران عدلیہ پر بھی انہوں نے شب خون مارا اور پاکستان کے میڈیا کو بھی پابند سلاسل کیا، ڈیل کرنے پر مجبور کیا۔ جس چینل نے ڈیل کرنے میں جتنی تاخیر کی اتنی ہی اس چینل کی بندش طویل ہوتی گئی۔ مشرف نے مہذب دنیا میں اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے تمام غیرمہذب طریقے اپنائے۔ الیکشن سے محض دو روز قبل انہوں نے کمال ڈھٹائی سے اپنی وفادار پارٹی کی کامیابی کی نوید قوم کو سنائی۔ محض دو روز کے بعد قوم نے مشرف کی پیش گوئی کو غلط ثابت کر دکھایا۔ عوام نے ملک بدر کئے جانے والوں کو پذیرائی بخشی اور اس پارٹی کو ہی مسترد کردیا جس نے مشرف کے ہر جائز اور ناجائز قدم کو جواز بخشا تھا۔ مشرف کمال ڈھٹائی سے نعرہ لگاتے رہے کہ پاکستان کے عوام نے ان کو اگلے پانچ برس کے لئے منتخب کیا ہے۔ ایسے نعرے لگاتے ہوئے مشرف عوام کو یہ سچائی بتانے سے احتراز کرتے رہے کہ ان کو منتخب کرنے والی پارٹیاں صرف دو تھیں باقی پارٹیوں نے اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا۔مشرف اس حقیقت سے نظریں ملانے کے لئے بھی تیار نہیں تھے کہ مشرف کی حمایت یافتہ جو جماعت ان کو منتخب کرانے میں متحرک تھی فروری کے الیکشن میں عوام نے اس جماعت کو ہی مسترد کردیا تھا۔ یہ سب کچھ ایک ہی جانب اشارے دیتا ہے۔ مشرف جن غیرملکی بیساکھیوں کے سہارے حکومت کررہے تھے ان بیساکھیوں کو گھن لگ چکا تھا۔ مشرف کے استعفے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ یہ امریکہ کے الیکشن سے پہلے ان کو دینا پڑا۔ سابق برطانوی وزیر اعظم، آسٹریلیا کے سابق وزیر اعظم کی طرح صدر مشرف کا استعفیٰ بھی دنیا میں امریکی پالیسیوں پر ناپسندیدگی کا اظہار ہے۔
دہشت گردی کے نام پر دوسرے ملکوں کے معاملات میں مداخلت امریکہ کو اب تک بہت مہنگی پڑی ہے۔ اس کی قیمت برطانیہ کے سابق وزیر اعظم نے بھی چکائی، آسٹریلیا کے وزیراعظم بھی امریکہ کا غیرمشروط ساتھ دینے کے عمل کے باعث اپنے عوام کے عتاب کا نشانہ بنے اور مشرف تو جس کشتی میں سوار رہے اس میں تو پاکستان کے آئین کے ساتھ موشگافیوں کے باعث بہت پہلے سے ہی سوراخ تھے یوں کہا جاسکتا ہے کہ مشرف کے استعفے میں پاکستان کی طرح امریکہ کے عوام کے لئے بھی بہت سے سبق ہیں۔ یہ کہنا تو مشکل ہوگا کہ امریکہ کی حکمران جماعت ریپبلکن پارٹی کو اس استعفے کا کتنا نقصان ہوگا لیکن یہ پیش گوئی کرنا کوئی مشکل نہیں ہے کہ امریکہ کے عوام ایسے واقعات کا اثر لیں گے اور یہ سوچنے پر مجبور ضرور ہوں گے کہ ان کی حکومت جوکہ جمہوریت اور انسانی آزادیوں کا نعرہ لگاتی ہے جب پاکستان جیسے ملکوں کی باری آتی ہے تو ان کے ہاں آمریتوں اور غیرجمہوری حکومتوں ہی کی کیوں پذیرائی کرتی ہے۔
افغانستان کے صدر حامد کرزئی بھی مشرف کے استعفے کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔ یوں معلوم ہوتاہے کہ مشرف کا استعفیٰ اب امریکہ کو پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک کے ساتھ معاملات پر اپنی پالیسی کو تبدیل کرنے پر سوچنے پر مجبور ضرور کرے گا۔ یہ اس لئے کہا جارہا ہے کہ ستّر کی دہائی کے آخر میں امریکہ ایران کے معاملات میں غیرضروری دخل اندازی کا خمیازہ بھگت چکا ہے۔ پاکستان کے عوام ملک کی سیاست کو صاف ستھرا دیکھنا چاہتے ہیں۔ جھوٹ، دروغ گوئی، اقربا پروری اور این آر اوز کی سیاست کو عوام خیرباد کہنا چاہتے ہیں۔ شاید خاندانی سیاست کی جگہ اب پیشہ ور اور ذمہ دار سیاست کو ملنا چاہئے۔
آج یہاں لندن میں میری بہت سے پاکستانیوں اور برطانوی شہریوں سے بات ہوئی جو پاکستان کی سیاست میں گہری دلچسپی لیتے ہیں۔ اکثر نے بلاول بھٹو زرداری کے اس بیان پر حیرت کا اظہار کیا جو انہوں نے پاکستان کے آئندہ صدر کے متعلق جاری کیا۔ اکثر لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ بیان جمہوری روایات کے منافی ہے کہ آئندہ صدر پیپلزپارٹی سے ہوگا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ بیان ننھے بلاول کی بجائے کولیشن پارٹنرز کی طرف سے جاری ہوتا۔ مجھے ان لوگوں کی بات میں وزن نظر آیا اور میں سوچنے لگا کہ اگر پاکستان کے سیاست دانوں نے آئندہ بھی عقل مندی کا ثبوت نہیں دیا تو ملک کی سیاست میں بہتری کیسے آئے گی اور آئندہ حالات کیسے ہوں گے۔