سابق صدر پرویز مشرف کا استعفے کوئی انہونی اور بڑی خبر یوں نہیں ہے کہ 18فروری کے عام انتخابات کے بعد یہ بات ”نوشتہ دیوار“تھی کہ اگر جمہوریت کی ”چاند گاڑی“کو چلانا ہے تو صدر مملکت کو جانا ہوگا، اگر کولیشن اتحاد میں اس وقت ہی اتفاق رائے ہوجاتا تو چار ماہ سے جو سیاسی سطح پر اکھاڑ پچھاڑ ہوئی ہے نوبت مواخذہ تک آگی ایسا نہ ہوتا۔ اس دوران قوم پرکیا ستم ہوئے ایک طرف گرانی، لوڈ شیڈنگ سے جینا دوبھر کردیا ہے تو دوسری طرف اس مصنوعی بحران نے ملک کو بے یقینی کے عذاب میں جکڑدیا۔ ملکی معیشت شدید طور پر متاثر ہوئی۔ غضب خدا کا کہ ڈالر77 روپے تک جا پہنچا۔ ہرطرف قیاس آرائیوں اور افواہوں کی” گھوڑ دوڑ“شروع ہوگئی۔ ایسی خبریں اور افواہیں گردش کرتی رہی کہ الامان الحفیظ۔خیر!صدر مشرف اب ایک سابق صدر بن کے تاریخ کے اوراق کا حصہ بن گئے ہیں ، اگرچہ مختلف حلقوں کی جانب سے احتساب کی صدائیں بھی ابھری رہی ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کی اچھائی اور برائی کا فیصلہ آئندہ کا موّرخ ہی کرے گا۔سابق صدر کا خطاب کیا تھا انہوں نے اپنے دور کے اچھے کام ایک ایک کرکے گنتی کرائے اور اسے ”میرا فخر ہے“ قرار دیا۔ یہ دعویٰ کیا کہ ان کا دامن صاف و شفاف ہے۔ ایسا محسوس ہوا کہ سابق صدر کی تقریر باہمی مشاورت سے تیار کی گئی تھی، کیونکہ مواخذے کے حوالے سے جن الزامات کا شور تھا ان میں سے کسی کا بھی الوداعی خطاب میں دور دور تک ذکر نہیں تھا۔ کہا جاتا ہے کہ سابق صدر اور حکمرانوں کے درمیان ایک ”این آر او“ طے پاگیا ہے کہ جس کے تحت ان کی تمام خطائیں معاف کردی گئی ہیں اور باعزت رخصتی ہوئی ہے۔
اب اس رخصتی کے بعد حکمران اتحاد کی راہ میں کوئی دیوار نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ق)کے صدر چودھری شجاعت کا یہ کہناہرصورت درست ہے کہ اب حکمران اتحاد ججوں کی بحالی کا وعدہ پورا کرے۔ اس وقت یہ اعلان کیا گیا تھا کہ صدر کے استعفے کے بعد72گھنٹوں میں معزول ججوں کو بحال کردیا جائے گا اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زر داری محترمہ بینظیر بھٹو کی خواہش کے مطابق چیف جسٹس کی اقامت گاہ پر پرچم لہرا کر یہ وعدہ پورا کردیں گے۔ استعفے کے بعد کولیشن جماعتوں کا اتحاد بھی زرداری ہاؤس میں طلب کرلیا گیا جس کی اہمیت یہ ہے کہ بلاول بھٹوزرداری اس میں شریک تھے۔ خبریں اور امید یہی تھی کہ اب یہ مرحلہ خوش اسلوبی سے طے پاجائے گا لیکن دو روزہ مذاکرات کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا اور معاملہ پھر ایک دورکنی کمیٹی کے سپرد کردیا گیا ہے جو تین روز میں رپورٹ دے گی۔ اس طرح امید و یقین کا یہ فاصلہ طے نہیں ہوسکا جبکہ یہ کہا گیا تھا کہ اعلان کے مطابق اسے حل کرلیا جائے گا ، تاہم مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے حلقے پر امید ہیں کہ اب کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی ۔ اس میں تاخیر کیوں ہے اس کا جواب جناب زرداری اور میاں نواز شریف نے دینا ہے۔
دوسری طرف آئندہ صدر کے حوالے سے بھی متضاد بیانات آرہے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف اور دوسرے رہنماؤں کاکہنا ہے کہ آئندہ صدر چھوٹے صوبے سے ہونا چاہئے جبکہ جناب زرداری کاکہنا ہے کہ صدارت پر پیپلز پارٹی کا حق ہے۔ گزشتہ ماہ لاہورکے گورنر ہاؤس میں پارٹی جیالوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ”سلمان تاثیر“سا کوئی شخص ایوان صدر میں بیٹھا ہوگا اور وہاں بھی ” زندہ ہے بھٹو زندہ ہے“ کے نعرے گونج رہے ہونگے۔ گزشتہ روز دوبئی سے اسلام آباد پہنچنے پر پارٹی کے حقیقی سربراہ جناب بلاول بھٹو زرداری کا بھی یہی کہنا تھا کہ صدارت پیپلز پارٹی کا حق ہے کہ اس طرح آئندہ صدر کے انتخاب کو بھی متنازعہ بنایا جارہا ہے جبکہ جمہوری اقدار اور روایات کا تقاضا تو یہ ہے کہ صدر کے امیدوار کا فیصلہ متفقہ طور پر کیا جائے اور ایسے شخص کو لایا جائے جس کو سب کی حمایت حاصل ہو۔ نہ جانے وہ کون لوگ ہیں جو حکومتی اتحاد میں دراڑیں ڈالنے کی سازش کررہے ہیں۔ ملک اس وقت اندرونی اور بیرونی خطرات سے دو چار ہے۔بھارت نے بغیر اطلاع دئیے اس دریا ئے ستلج میں سیلابی پانی پھینک دیا ہے جو تقریباً سو کھ چکا تھا۔ اس سیلاب سے دو لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ، بہت سے دیہات پانی میں بہہ گئے ہیں۔ ہزاروں ایکڑ کھڑی فصل تباہ ہوگئی ہے۔ یہ متاثرین حکومتی امداد کے منتظر ہیں اس طرح قبائلی علاقوں میں طالبان کے خلاف آپریشن کی وجہ سے دو لاکھ سے زائد لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں اور یہ لوگ بے یارو مددگار کھلے آسمان تلے پڑے ہوئے ہیں۔ ان کی امداد اور دیکھ بھال پر توجہ دینا بھی موجودہ حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس کے علاوہ اژدھے کی طرح منہ کھولے عوام کے سلگتے مسائل کا سامنا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف بھی شمالی علاقہ جات اور سوات میں آپریشن جاری ہے۔ بلوچستان میں بھارتی ایجنسیاں ملوث ہیں اور اب حکمران اتحاد کو ہی عوام کی طاقت سے ان مسائل کا سدباب کرنا ہوگا، بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کو سنبھالا دینا ہوگا ۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 110ڈالر تک آگئی ہے۔ اس کے مطابق ملک میں پٹرولیم کی قیمتوں کو کم کرنا ہوگا۔ آٹا اور دیگر اشیائے ضرورت کی قلت اور قیمت پر قابو پانا ہوگا۔ اب تمام خرابیوں کا الزام سابق صدرپر یہ کہہ کر عائد نہیں کیا جاسکتا کہ ایوان صدر میں ہمارے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔ اب تو نہ صرف جمہوریت کا سورج پوری آب و تاب سے طلوع ہوا ہے بلکہ تمام اختیارات پارلیمنٹ کو حاصل ہیں،اس کی بالا دستی کی بات نہیں عملی مظاہرہ کرنا ہوگا۔ یہ درست کہ جناب آصف زرداری اور میاں نواز شریف حکومتی اتحاد کے دو بڑے حصہ دار ہیں اور انہیں ملکی امور پر فیصلے کرنے کا اختیار بھی ہے لیکن انہیں پارلیمنٹ میں بھی لانا چاہئے۔ اس طرح جمہوریت اور جمہوری کلچر کو فروغ ملے گا۔ ان دونوں بڑی پارٹیوں کی قیادت کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ عوام کی توقعات کیا ہیں اور وہ جو فیصلہ کررہے ہیں ان کے مطابق ہیں یا نہیں۔عوام میں اس بات پر تشویش پائی جاتی ہے کہ اعلان اور وعدے کے مطابق دونوں بڑے لیڈر ججوں کی بحالی پر کوئی فیصلہ کیوں نہیں کرسکے ۔ اس بارے میں متضاد بیانات آئے ہیں۔مسلم لیگ(ن)کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات نے پیپلز پارٹی کو مورد الزام ٹھہرایا ہے اور کہا کہ اس نے جمعہ تک مہلت مانگی ہے جبکہ وفاقی وزیر اطلاعات شیری رحمن کا کہنا ہے کہ جمعیت علماء اسلام ،اے این پی اور فاٹا کے ارکان نے 72 گھنٹے طلب کئے ہیں تاکہ پارٹی میں مشاورت کی جاسکے۔ عوام منہ اٹھائے لیڈروں کی طرف دیکھ رہے ہیں جنہیں ان کے دکھ ،کرب کا احساس نہیں ہے اور وہ ابھی تک معزول ججوں کی بحالی کے لئے کسی متفقہ نتیجہ تک نہیں پہنچ سکے۔
قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ مسلم لیگ(ق)نے بھی اس کی حمایت کی ہے اس وقت ملک میں جمہوریت کے فروغ اور جمہوری اداروں کے استحکام کے لئے ضروری ہے ملک بھر میں افہام و تفہیم کی خوشگوار فضا کو فروغ دیا جائے۔ محب وطن حلقوں کی خواہش تو یہی ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور مسلم لیگ(ق)کے درمیان موٴثر طور پر رابطے قائم کئے جائیں، اگر میاں نواز شریف ملک میں جمہوریت کے قیام اور بحالی کے لئے محترمہ بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف زرداری سے صلح کرسکتے ہیں تو یہ ق والے اپنے ہی ہیں ان سے مفاہمت کیوں نہیں کی جاسکتی اور وزیر اعظم کا یہ کہنا درست ہے کہ ملک کو درپیش مسائل ایک جماعت یا حکومت تنہا حل نہیں کرسکتی سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا اور یہی جمہوریت ہے۔ یاد رہے کہ اس نظام میں ”انتقام و نفرت“کا لفظ موجود نہیں اور اب غلطی یا کوتاہی کی کوئی گنجائش بھی نہیں ہے اگر کسی نے ایسا کرنے کی غلطی کی تو اسے کسی جنرل پرویز مشرف کا نہیں شدید عوامی رد عمل کا سامنا کرنا ہوگا۔ سب سے اہم یہ کہ ”صحافی کی آنکھ “ ان کی نگرانی کررہی ہے۔ جہاں یہ حکومت کے لئے آنکھ، کان ہوتے ہیں وہیں غلط کام پر روکتے اور ٹوکتے ہی نہیں رائے عامہ ہموار بھی کرتے ہیں۔