• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پرویز مشرف کا استعفیٰ اور اسرائیل ...... صباحت صدیقی

صدر مشرف کے استعفیٰ کے بعد ملکی میڈیا تجزیوں اور تبصروں میں مصروف ہے وہیں غیر ملکی میڈیا بھی استعفے کے بعد پاکستان کی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ امریکی جرائد و اخبارات سابق صدر کی مستقبل میں رہائش کی قیاس آرائیوں، استعفے کے بعد دیوانی و فوجداری مقدمات سے تحفظ، استعفے کے سلسلے میں امریکی حمایت و آشیرباد اور پاکستان کی مستقبل کی صورت حال خصوصاً ایٹمی ہتھیاروں کے کنٹرول کے متعلق تشویش پر مبنی خیالات و خدشات سے بھرپور تجزیوں میں مصروف ہیں۔ بیشتر ممالک نے اسے پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے اور اس پر کسی خاص ردعمل کا اظہار نہیں کیا لیکن اسرائیلی میڈیا نے خاصا جانبدرانہ طرز عمل اختیار کیا ہے۔ اسرائیلی تجزیہ نگاروں کے مطابق ”پرویز مشرف“ کے استعفے کے بعد پاکستان اور اسرائیل کے مابین تعلقات قائم کرنے کی کوششیں دم توڑ گئی ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات قائم کرنے میں اب کافی وقت درکار ہوگا۔ اسرائیلی روزنامہ ”یروشلم پوسٹ“ نے منگل کو اپنی اشاعت میں اس بات کی تصدیق کی کہ صدر مشرف نے رواں سال اسرائیلی وزیر دفاع ایہود بارک سے فرانس کے ایک ہوٹل میں خفیہ ملاقات کی تھی، جہاں وہ دونوں مقیم تھے۔ اخبار لکھتا ہے کہ ”پرویز مشرف کے حیران کن استعفے نے آبادی کے لحاظ سے دنیا کی دوسری بڑی اسلامی مملکت کے ساتھ تعلقات کی امید فی الوقت ختم کردی ہے۔“
اسرائیل کا یہ جانبدارانہ ردعمل جہاں پرویز مشرف کے اسرائیل کیلئے نرم گوشہ رکھنے کا مظہر ہے وہیں ان کی پاکستان کی خارجہ پالیسی کے دیرینہ اصولی موقف سے پیچھے ہٹنے کا اہم ثبوت بھی ہے۔ پاکستان آج تک نہ صرف اسرائیل کو غاصب متصور کرتے ہوئے اس کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے بلکہ مظلوم فلسطینی عوام اور ان کی تحریک مزاحمت کی اخلاقی طور پر حمایت بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان کا یہ نظریاتی و اصولی موقف پاکستانی خارجہ پالیسی کا اہم نکتہ بھی ہے۔ پرویز مشرف نے جہاں خارجہ پالیسی کے دیگر اصولوں کی ناک موڑی وہیں اسرائیل سے تعلقات بڑھانے کیلئے بھی کوشاں رہے۔ وہ ستمبر 2005ء میں بین الاقوامی میڈیا کی شہ سرخیوں میں اس وقت آگئے جب انہوں نے اقوام متحدہ میں عالمی رہنماؤں کے استقبالیہ میں اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون سے ہاتھ ملایا تھا۔ بعد ازاں خود اسرائیلی اخبارات کے مطابق پاکستانی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری اور ان کے اسرائیلی ہم منصب سلوان شالوم کے درمیان ترکی میں ملاقات کا اہتمام بھی پرویز مشرف کی خواہش اور کوششوں سے ہوا۔ رواں سال ماہ جنوری میں ڈیووس کی اقتصادی کانفرنس میں شرکت کے بعد پرویز مشرف کچھ رسمی و غیر رسمی دوروں و ملاقاتوں کے سلسلے میں فرانس بھی گئے جہاں انہوں نے اسرائیلی وزیر دفاع ایہود بارک سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات طے شدہ تھی یا اتفاقیہ، اس کا عقدہ اسرائیلی اخبارات نے ہی کھولا جب اس نے اس ملاقات کو اتفاقیہ نہیں بلکہ ان رابطوں کا تسلسل قرار دیا جو پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد شروع ہوئے تھے۔ پرویز مشرف کی ایہود بارک سے ملاقات کا مقصد کیا تھا اس کو خفیہ کیوں رکھا گیا۔
اس کی جزئیات کیا تھیں اس سے قطع نظر یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایہود بارک کا مختصر سیاسی پس منظر بیان کردیا جائے تاکہ واضح ہو کہ ایہود باراک صہیونی حکومت میں کتنا اہم فرد ہے۔ ”صہیونی حکومت کے موجودہ وزیر دفاع ایہود بارک اس سے قبل 35 سال تک اسرائیلی فوج میں رہے۔ 1999ء سے لے کر 2001ء تک وہ صہیونی حکومت کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ وزارت عظمیٰ سے قبل وہ وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ بھی رہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کو فوج اور خفیہ ایجنسی موساد میں انتہائی احترام سے دیکھا جاتا ہے۔ اسرائیل کی داخلہ و خارجہ پالیسی کے حوالے سے ان کی رائے کو انتہائی اہمیت دی جاتی ہے۔ اسرائیلی میڈیا ان کو وزیراعظم ایہود اولمرٹ سے زیادہ مضبوط شخص تصور کرتا ہے۔ اس وقت جبکہ پورے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل نے زیر زمین خفیہ جنگ شروع کررکھی ہے اس کی قیادت بھی ایہود بارک کررہے ہیں۔“ پرویز مشرف کی ایہود بارک سے اس ملاقات کے حوالے سے اسرائیلی اخبارات نے واضح طور پر لکھا کہ ملاقات میں پاکستان کا ایٹمی مسئلہ زیر بحث آیا۔ ایہود بارک نے مشرف کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا کہ کہیں یہ ہتھیار اسلام پسندوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے مسلح طالبان پر بھی اعتراض کیا۔ یہ خبر قومی و بین الاقوامی پریس میں چھپی جس میں اسرائیلی وزیر دفاع کی تشویش کو تو بیان کیا گیا تھا مگر پرویز مشرف کے حوالے سے کوئی ایسی بات سامنے نہ آئی کہ انہوں نے اس سلسلے میں کیا جواب دیا… پاکستانی سربراہ مملکت سے ملاقات سے قبل ایہود بارک نے مصر کا دورہ کیا اور صدر بش نے عرب ممالک کا جہاں انہوں نے حماس کے خلاف سخت لب و لہجہ اختیار کیا۔ پرویز مشرف اور ایہود بارک ملاقات کے بعد اسرائیل کے جنوبی علاقے میں مصر کی سرحد کے قریب اسرائیلی فوجیوں نے نقل و حمل شروع کردی اور اس بات کا قوی امکان نظر آنے لگا کہ اسرائیل غزہ پر حملہ کردے گا۔ اس وقت مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر نگاہ رکھنے والے تجزیہ نگاروں نے بڑے افسوسناک پیرائے میں تبصرہ کیا تھا کہ ”مسلم حکمرانوں نے غزہ پر حملے کیلئے اسرائیل کو گرین سگنل دے دیا ہے“۔ گویا امریکی صدر اور اسرائیلی وزیر دفاع کے دورے و ملاقاتیں ناکہ بندی کے شکار غزہ کو خون میں نہلانے کیلئے تھیں۔ بالآخر یہ تبصرہ درست ثابت ہوا اور 27فروری کو اسرائیلی افواج غزہ پر چڑھ دوڑیں۔ حسب سابق مسلم ممالک، جو پہلے ہی کوئی خاص ردعمل ظاہر نہ کرنے کی ضمانت دے بیٹھے تھے۔ کوئی توانا و موثر آواز بلند نہ کرسکے اور اسرائیل پورے اطمینان کے ساتھ چھ ماہ سے ناکہ بندی کے شکار غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی نسل کشی کرتا رہا بلاشبہ اس کشت و خون میں ان سب کے ہاتھ رنگین ہیں جنہوں نے اسرائیل کی پشت پر ہاتھ رکھا۔
اس وقت پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جاری شورش سے لے کر مشرق وسطیٰ، ایران کے ایٹمی پروگرام کے مسئلے سے لے کر سوڈان کے مسئلہ دارفورتک تمام علاقوں کو امریکہ آگ کی بھٹی بنانا چاہتا ہے۔ اس جنگ کی کمان اگرچہ امریکہ کررہا ہے لیکن منصوبہ صہیونی مسیحی اور صہیونی یہودیوں کا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پوری دنیا میں جاری شورش جہاں سے لے کر کنٹرول ہورہی ہے اور جہاں سے مسلمانوں کی نسل کشی کے پروانے جاری ہوتے ہیں وہ
اسرائیل ہے اس تناظر میں جو اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے اور روابطہ بڑھانے کا خواہشمند ہے وہ اسرائیل کی ان مسلم کش پالیسیوں میں پوری طرح شریک ہے۔ خدائے یکتا بزرگ و برتر کا فیصلہ ہے کہ ”یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے۔“ (1.120) تاکید کی گئی ”یہود و نصرانی تمہارے دوست نہیں ہوسکتے۔“
اور یہ کہ ”تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے۔“ (3:86) لہٰذا اگر اسرائیلی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ ”مشرف کے استعفے کے بعد پاک اسرائیل تعلقات کی امیدیں دم توڑ گئیں۔“ تو ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ پرویز مشرف کے استعفے سے ملک و قوم کو کوئی فائدہ حاصل ہوا ہے تو ان میں یہ فائدہ سب سے مقدم ہے۔


تازہ ترین