بالآخر پاکستان کے ایک اور مرد آہن نے استعفیٰ دے دیا۔ اپنے پیشروؤں سے خود پسندی، منتقم مزاجی اور انانیت میں کہیں بڑھ کر اقتدار میں رہنے والے پرویز مشرف نے قوم سے اپنے آخری خطاب میں بھی اپنا یہ مخصوص مزاج نہیں چھوڑا۔ انہوں نے اپنے استعفے کی وجہ حکمران اتحاد کے ”نامعقول رویّے“ کو قرار دیا، وہ رویہ جس میں حکمران اتحاد ان کے یکجہتی اور مل کر چلنے کی اپیل پر عمل کی بجائے معاملات کو الجھاؤ اور انارکی کی طرف لے جا رہے تھے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مواخذے میں کامیابی یا ناکامی دونوں صورتوں میں شکست عوام کی ہوتی۔ اس عوام کی شکست جیسے گزشتہ تقریباً 9 سال کے عرصہ میں کسی خاطر میں نہیں لایا گیا۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ مواخذے کی تحریک پیش ہونے سے وفاق کی علامت صدر کی عزت اور وقار کم ہو جاتا۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ چیف آف آرمی اسٹاف کی طرف سے غیر آئینی طور پر ایمرجنسی لگانے سے (جوکہ سراسر صدر کا آئینی حق ہے) ایوان صدر کے وقار کو ٹھیس نہیں لگی اور نہ ہی آرمی چیف کی طرف سے صدر کو یہ اختیار دینے پر کہ وہ جب چاہیں یہ ایمرجنسی ہٹادیں، حالانکہ آرمی چیف کی تقرری صدر کا اختیار ہے اور صدر کا تقرر کردہ شخص انہیں اختیار سونپے، یہ بھی شاید ایوان صدر کی تقدیس کے لئے ضرررساں نہیں ہے۔ ایوان صدر کا وقار اس وقت کیوں مجروح نہیں ہوا، جب ایمرجنسی کے نام پر 60 سے زائد ججوں، جن میں چیف جسٹس آف پاکستان سمیت ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان بھی شامل تھے، گھروں میں نظربند کر دیئے گئے۔ آزاد عدلیہ کو اس طرح قید کرنے پر شاید صدارتی وقار میں اضافہ ہوا تھا۔ ایوان صدر کی عزت اس وقت بھی بڑھی تھی جب مذاکرات کاروں اور لال مسجد والوں کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد لال مسجد میں کھانے کی دیگیں بھیجنے کی تیاریاں ہو رہی تھیں کہ یکایک ایوان صدر سے یہ سب روک کر گولیوں کی آگ لال مسجد پر برسانے کا حکم صادر ہوا اور وہ سیکڑوں معصوم بچیاں اور بچے، جو دو دن سے بھوکے تھے، ہر قسم کی بھوک و پیاس سے ابدتک کے لیے محفوظ کردیئے گئے۔
سابق صدر نے اپنے آخری خطاب میں ایوان صدر کی عزت اور وقار میں اضافہ کرنے والے بلوچستان آپریشن کا بھی دو اہم موخر الذکر کارناموں کے ساتھ ذکر نہیں کیا۔ یہ بھی ایک ایسا آپریشن تھا جس کے ذریعے بگٹی قبیلے کے سردار اور ایک قدآور سیاستدان نواب اکبر بگٹی کو فوج سے مقابلے میں مارا گیا۔ ان کی لاش ورثا کو نہیں دی گئی اور نہ ہی کسی کو چہرہ دکھایا گیا۔ بندوقوں کے زور پر زبردستی دفنائی گئی یہ لاش بھی ایوان صدر کے تقدس میں اضافے کا سبب ہے۔
سابق صدر نے 8 سال10 ماہ کے دوران ملک میں ترقیاتی کاموں کا بڑے فخرسے ذکر کیا۔ وہ کام جو سراسر حکومتوں کے کرنے کے ہوتے ہیں، ان کا کریڈٹ لے کر انہوں نے اس بات کا برملا اظہار کیا کہ گزشتہ 9 برسوں میں اصل حکمران وہی تھے جبکہ شوکت عزیز، جمالی وغیرہ صرف ڈمی تھے۔ پرویز مشرف نے کہا کہ ان کے دور میں ساڑھے 7 سو میل طویل کوسٹل ہائی وے بنی، موٹر ویز بنیں، ملک بھر میں سڑکوں کا جال بچھ گیا۔ ایوان صدر ملک میں سڑکیں بنوا رہا تھا تو وزیر اعظم اور ان کی حکومت کیا کر رہی تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے دور میں ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم کے لئے انقلابی اقدامات ہوئے، بیرون ملک کی یونیورسٹیاں پاکستان میں اپنے ادارے قائم کر رہی تھیں، پی ایچ ڈی حضرات کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا، اگر صدر صاحب یہ سب کچھ کر رہے تھے تو وفاقی اور صوبائی وزرائے تعلیم کو کس چیز کی تنخواہیں اور الاؤنسز دیئے جاتے رہے۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ان کے دور میں غربت میں کمی ہوئی، ملک میں سرمایہ کاری بڑھی، انڈسٹریوں کا جل پھیل گیا۔ لوگوں کو روزگار میسر آیا۔ اسٹاک ایکسچینج نئی بلندیوں پر پہنچ گیا۔ زرمبادلہ سے ملکی خزانہ بھرا ہوا تھا، جب ان تمام عوامل کے حصول کے ذمہ دار سابق صدر تھے تو سابقہ دور حکومت میں وزیر اعظم اور وزراء و مشیروں کی فوج ظفر موج پر خرچ ہونے والی قومی دولت کا حساب لیا جانا چاہئے۔
پورے دور حکومت میں مطلق العنان ہونے کی نفی کرنے اور ایک جمہوری سیٹ اپ کا دعویٰ کرنے والے پرویز مشرف کس طرح اپنی آخری تقریر میں اپنے منہ سے یہ تسلیم کر بیٹھے کہ وہ مطلق العنان ہیں۔ اس کے ثبوت کے لئے ان کا یہ دعویٰ کہ گزشتہ 9 برس کے دوران جو کچھ بھی ترقی ہوئی ہے، ان کے دم سے ہوئی ہے، ہی کافی ہے۔ انہوں نے ایک گھنٹے کی تقریر میں نہ تو 2002ء میں منتخب کردہ اپنی پسندیدہ حکومت کے لئے کچھ کہا نہ ہی اپنے ہر دل عزیز وزیراعظم شوکت عزیز کے لئے ان کے منہ سے کوئی لفظ نکلا، جو کچھ نکلا، اس کا محور اور مرکز صرف ان کی ذات باصفا ہی تھی۔ جسے انہوں نے سب سے پہلے پاکستان کے دلفریب پیراہن میں چھپانے کی ناکام کوشش کی۔ ملک و قوم کے لئے استعفیٰ دینے کے دعویدار پرویز مشرف کے لئے اس سے بھی زیادہ نازک مقامات آئے تھے، تاہم کبھی انہوں نے ملک و قوم کی بہتری کے لئے ایسا سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ استعفیٰ دینے سے ایک روز قبل تک ان کے لہجے گھن گرج ان کے عزائم کچھ اور بتا رہے تھے۔ تاہم امریکہ کی طرف سے چلے جانے کے واضح پیغام کے بعد سابق صدر کو ملک و قوم کو غیر یقینی سے نکالنے کے لئے اس ”عظیم قربانی“ کا خیال آہی گیا۔ کونڈو لیزا رائس کے سیاسی پناہ دینے کے حوالے سے بیان نے ایک پنتھ دو کاج والا کام کیا۔ اس بیان سے پرویز مشرف کو یہ سمجھ آگئی کہ دنیا میں ان کا سب سے بڑا حمایتی بھی اب نہ صرف ان سے استعفیٰ کا متقاضی ہے بلکہ سیاسی پناہ دینے سے بھی کنّی کترا رہا ہے۔ شاید سر سے یہ سب سے بڑی چھتر سایہ ہٹنے سے ہی پرویز مشرف کو تمازت کا احساس ہوا اور انہوں نے میدان سے ہٹنے میں ہی عافیت سمجھی۔ تاہم جاتے جاتے بھی انہوں نے واضح کر دیا کہ انہی کے دم سے گلشن میں رونق اور چہل پہل تھی، ملک سرسبز و شاداب اور ترقی کی راہ پر تھا، اب ان کے جانے کے بعد اس ملک کا ”اللہ ہی حافظ“ ہے۔ مطلق العنانیت ہو تو ایسی۔