• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مردان کے گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول نمبر ایک کے کلاس روموں میں پناہ گزین باجوڑ کے مہاجرین یہ نہیں جانتے کہ آصف علی زرداری پاکستان کے آئندہ صدر مملکت ہوں گے۔ باجوڑ میں فوجی آپریشن کے بعد اپنے گھروں کو چھوڑ کر ہجرت کرنے والے ان معصوم اور بے گناہ قبائلیوں کو صرف یہ معلوم ہے کہ یکم ستمبر کو تعلیمی اداروں میں چھٹیاں ختم ہو جائیں گی اور جب چھٹیاں ختم ہوں گی تو یہ اسکول دوبارہ کھل جائے گا اور جب اسکول کھلے گا تو ان گیارہ مہاجرین کو کوئی نئی پناہ گاہ تلاش کرنی ہوگی۔ مردان کی انتظامیہ اور عام شہری ایک نہیں بلکہ دو مہاجر کیمپوں میں کم از کم تین ہزار مہاجر کی دیکھ بھال کر رہے ہیں اور کم از کم بیس ہزار مہاجرین کو مردان کے مختلف علاقوں میں مقامی آبادی نے اپنے طور پر عارضی پناہ دی ہے۔ باجوڑ سے ہجرت کرنے والوں کی کل تعداد تین لاکھ نفوس سے زیادہ ہے۔ اکثر مہاجرین نے لوئر دیر کے مہاجر کیمپوں میں پناہ لے رکھی ہے۔ ان مہاجرین کے مسائل جاننے کے لئے میں اسلام آباد سے روانہ ہوا تو پشاور میں مجھے فرنٹیئر کانسٹیبلری کے کمانڈنٹ ظفراللہ صاحب نے روک دیا اور بتایا کہ لوئر دیر تک پہنچنے کیلئے مجھے سوات کے علاقوں سے گزرنا ہوگا اور وہاں کرفیو ہے لہٰذا وہاں پہنچنا مشکل ہے۔ اس مشکل کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ چارسدہ، مردان اور نوشہرہ میں باجوڑ کے مہاجرین کیلئے قائم کیمپوں تک پہنچا جائے۔ چارسدہ کے ایک ایلیمنٹری کالج کی عمارت میں قائم مہاجر کیمپ میں مجھے چار معصوم بچے ملے۔ ان بچوں کے والدین بمباری میں مارے جا چکے تھے اور یہ رات کے اندھیرے میں اپنے ایک رشتہ دار کی مدد سے بمباری سے بچ نکلے۔ باجوڑ کے مہاجر کیمپوں میں ایسے درجنوں یتیم بچے پناہ گزین ہیں جن کی خاموش آنکھیں یہ سوال کرتی ہیں کہ ان کے والدین کو کس جرم کی پاداش میں موت کی نیند سلا دیا گیا؟
مردان کے ایک وسیع و عریض میدان میں مہاجرین کیلئے قائم خیمہ بستی میں مجھے چار لیڈی ہیلتھ ورکرز نظر آئیں جو بچوں اور خواتین کو مختلف بیماریوں سے بچاؤ کے ٹیکے لگا رہی تھیں۔ ایک لیڈی ہیلتھ ورکر نے روتی آنکھوں اور بھرائی آواز میں مجھے کہا کہ اس مہاجر کیمپ میں چھ حاملہ خواتین ہیں جنہیں لیڈی ڈاکٹر کی ضرورت ہے، ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ خیموں میں پڑی ان نڈھال عورتوں کا کیا کریں کیونکہ ہمارے پاس تو صرف سر درد اور ملیریا کی گولیاں ہیں یا پھر ہیضے سے بچاؤ کے ٹیکے ہیں۔ نوشہرہ کے علاقے پیرپیائی میں بھی باجوڑ کے متاثرین کیلئے جی ٹی روڈ کے کنارے ایک خیمہ بستی قائم کی گئی ہے۔ صوبائی حکومت اور مقامی آبادی اپنے ان بے گھر بھائی بہنوں کی دیکھ بھال کرنے کی ہرممکن کوشش کر رہے ہیں لیکن یہاں وسائل کی شدید کمی نظر آ رہی تھی۔ ان سب کیمپوں میں دن کو شدید گرمی اور حبس ہوتی ہے اور رات کو مچھروں کی بھرمار ہوتی ہے۔ پھر بھوک، پیاس اور بے گھری کا غم ان مہاجرین کی تکلیف میں مزید اضافہ کردیتا ہے اور جب مجھ جیسا کوئی ان کی خبر گیری کیلئے ان مہاجر کیمپوں میں پہنچتا ہے تو یہ ایک ہی سوال کرتے ہیں کہ حکومت اور طالبان کی لڑائی میں ان کی قربانی کیوں دی جا رہی ہے پیر پیائی کے کیمپ میں ایک نوجوان مجھے کھینچ کر اپنے خیمے میں لے گیا۔ شام چار بجے کا وقت تھا لیکن خیمے میں گرمی اور حبس کے باعث صرف چند منٹوں میں میرا برا حال ہوگیا اور میں سوچنے لگا کہ صرف چند دنوں کے بعد رمضان المبارک شروع ہونے والا ہے اور باجوڑ کے تین لاکھ متاثرین یہ رمضان کیسے گزاریں گے؟
نوشہرہ، مردان اور چارسدہ میں باجوڑ کے بہت سے متاثرین کے ساتھ میری کھل کر بحث ہوئی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ اپنے مصائب کا ذمہ دار طالبان کو نہیں سمجھتے؟ بہت کم مہاجرین طالبان کے خلاف بولنے کیلئے تیار تھے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ طالبان نے انہیں پولیٹیکل انتظامیہ کے ظلم و ستم سے نجات دلا کر فوری ازالے کی سہولت فراہم کی۔ کچھ مہاجرین نے طالبان اور سیکورٹی فورسز دونوں پر تنقید کی اور ایک باریش نوجوان نے بڑے غصے سے کہا کہ باجوڑ میں آپریشن ایک دھوکا ہے، حکومت کا نشانہ طالبان نہیں بلکہ بے گناہ مقامی آبادی ہے اور طالبان کا کوئی نقصان نہیں ہو رہا۔ باجوڑ کے ایک مدرسے کے استاد سے میں نے پوچھا کہ طالبان کی طرف سے خودکش حملوں کی ذمہ داری قبول کی جا رہی ہے تو آپ ان کی مذمت کیوں نہیں کرتے، استاد نے فوراً پاکستان کے اندر خودکش حملوں کی مذمت کی لیکن دوسرے ہی لمحے سوال کیا کہ تین چار سال پہلے خودکش حملے نہیں ہوتے تھے اب کیوں ہوتے ہیں؟ اس نے پوچھا کہ ہمارے علاقوں میں پرویز مشرف کے دور میں آپریشن شروع ہوئے لیکن آج تک طالبان اور القاعدہ کا کوئی لیڈر قبائلی علاقوں سے کیوں نہ پکڑا گیا؟ خالد شیخ محمد راولپنڈی، ابوزبیدہ فیصل آباد، رمزی بن الشبیہہ کراچی اور ابو فراج البی مردان سے پکڑا گیا۔ ان شہروں میں آپریشن کیوں نہیں ہوا؟ استاد نے پوچھا کہ پرویز مشرف صدارت کے عہدے سے ہٹ چکا ہے لیکن ہمارے علاقوں پر بمباری بدستور جاری ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ صرف ایک چہرہ بدلا گیا ہے لیکن پالیسی نہیں بدلی گئی میرے پاس استاد کے کسی سوال کا جواب نہیں تھا۔
پیر پیائی کے کیمپ سے نکلتے ہوئے باجوڑ کے علاقے سالار زئی کے ایک طالب علم نے مجھے روک لیا۔ اس نے کہا کہ ہمارے علاقے پر بمباری اس لئے ہوتی ہے کہ طالبان ملک کا قانون توڑتے ہیں، ٹھیک ہے بمباری جاری رکھو لیکن پرویز مشرف نے اس ملک کا آئین توڑا اسے سزا کیوں نہیں دیتے؟ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا لہٰذا میں نے بچ نکلنے کی کوشش کی تو اس نے مجھے بازو سے پکڑ لیا اور کہا کہ میں دسویں جماعت میں پڑھتا ہوں، اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتا ہوں لیکن نظر یہی آتا ہے کہ ایسا نہیں ہوگا، پھر میرے پاس طالبان میں شامل ہونے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوگا اور پھر مجھے بھی دہشت گرد کہا جائے گا، میں حکومت کو دہشت گرد کہوں گا اور ظاہر ہے پھر ہم دونوں میں سے کوئی ایک رہے گا، اس سے پہلے کہ میں بھی دہشت گرد بن جاؤں میرے علاقے میں امن قائم کردو تاکہ میں اسکول جاؤں، طالبان کے پاس نہ جاؤں۔ اس نوجوان سے جان چھڑا کر میں اپنی گاڑی تک پہنچا تو ایک بزرگ نے روک لیا۔ یہ بزرگ باجوڑ اسکاؤٹس کا ریٹائرڈ صوبیدار تھا۔ اس نے بتایا کہ دو ہفتے پہلے اس کا بیٹا اور دو پوتیاں بمباری میں مارے گئے، بہو زخمی ہوگئی اور ایک رشتہ دار اسے ٹریکٹر پر بٹھا کر اس کیمپ میں لے آیا۔ وہ 16 اگست کو اس کیمپ میں آیا اور 18 اگست کو اسے پتہ چلا کہ پرویز مشرف کی حکومت ختم ہوگئی۔ اسے یقین تھا کہ پرویز مشرف کے جانے کے بعد اس کے علاقے میں امن قائم ہو جائے گا اور وہ اپنے بیٹے اور پوتیوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھ سکے گا لیکن ابھی تک امن قائم نہیں ہوا۔ بزرگ نے مجھے جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔ ”بیٹا لگتا ہے کہ مشرف ابھی نہیں گیا وہ کب جائے گا
تازہ ترین