انتظار تو سحر کا تھا،رات ڈھلنے کا تھا۔ جلد ہی یہ راز فاش ہو رہا کہ وہ سپیدی صبح کاذب کی تھی۔ ہم اس کذب کے سحر میں طلوعِ صبح کے یوں منتظر تھے جیسے چرخِ کہن پر صبح کاذب کی وقتی اور جھوٹی سپیدی پہلی بار پھیلی ہو۔صادقین کا صدق اور کذاب کا کذب ظاہر ہو کر رہتا ہے سو ہو رہا۔ اب پھر اندھیری رات اور تاریک راہوں میں ہمیں یونہی چلنا ہے۔ بے تعینِ منزل، بنا کسی رہنما کے۔18فروری کے بعد امیدوں کی جو صبح قریب نظر آ رہی تھی محض فریبِ نظر ثابت ہوئی۔ شرمندہ تعبیر ہوتا خواب پھر تشنہ رہ گیا۔غلامی کی دھوپ سے خشک ہوتے لبوں کو آزادی کا آبِ حیات میسر نہ ہوا۔بقول شاعر" جسے چاند سمجھے تھے وہ بادل نکلا"۔اب پھر ایک انتظار، طویل اور اذیت ناک انتظار ہمارا منتظر ہے۔پچھلے چند مہینوں میں یہی تو ہوا کہ ایک نیا کولہو تیار کیا گیا ہے۔ اطراف کے مناظر کچھ بدل دیئے گئے۔ آنکھوں پر باندھی جانے والی پٹی کو جمہوریت کے خوشنما کمخواب کے غلاف میں ڈالا گیا ہے اور اب اِسے قوم کی آنکھوں پر باندھا جا رہا ہے۔قوم بیل کی طرح کولہو کے گرد گردش کرتی رہے گی تاوتیکہ دھوکے کا اگلا مرحلہ نا آ جائے۔ وہ عرصہ جس میں قوم کی آنکھوں کی پٹی کھول کر اسے چاروں طرف ہرا ہرا دکھایا جائے۔ جب انتخابات نامی ایک رسم کی ادائیگی ہوتی ہے۔ کھلی آنکھوں سنہرے خواب دکھائے جاتے ہیں اور عوام جب سفر کو تیار ہوتے ہیں تو خود کو پھر اسی کولہو کے گرد پاتے ہیں۔ دمِ تحریر اور لمحہ موجود میں جو بات سب سے زیادہ یقین سے کہی جا سکتی ہے وہ یہ کہ آصف علی زرداری پاکستان کے اگلے صدر ہوں گے۔زرداری نے اس مرحلے تک پہنچنے کے لیے بہت زیادہ تگ و د و نہیں کی ۔بس اتنا کیا کہ معاملات کو طے شدہ اور دھیمی رفتار سے آگے بڑھایا۔جہاں معاملات ہاتھ سے نکلتے نظر آئے کسی بھی حربے اور قیمت سے انہیں دوبارہ گرفت میں لائے۔ ہمارے یہاں یہ سب کچھ سیاست کے زمرے میں آتا ہے گو مہذب دنیا میں یہی کچھ کسی بھی شخصیت کے نامقبول ہونے اور مواخذے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ بہرحال زرداری ایک طے شدہ منصوبے کے مطابق آگے بڑھے اور میاں صاحب کہیں دانستہ اور کہیں نا دانستہ ان کا ساتھ دیتے چلے گئے۔ میاں صاحب کو اس بات کا تو اطمینان ہو نا چاہئے کہ انہوں نے نظام کو بدلنے کی کوشش پورے خلوص سے کی اور اس میں اپنی طرف سے کوئی کوتاہی نہیں کی اور نہ ہی کسی مقام پر اصولوں کی پاسداری سے انحراف کیا۔یقینا یہ ہماری سیاست میں ایک نیا اور خوش آئندہ طرزِ عمل ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسوانے کے بعد میاں صاحب کی فہم و فراست اور اہلیت و دانش کے آگے بھی ایک سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ لاریب یہ ضروری ہے چاہے تجارت ہو یا سیاست کہ کسی کو دھوکا نہ دیا جائے مگر اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ کسی سے دھوکہ کھایا بھی نہ جائے۔ خاص طور پر اُس شخص کے لیے جو ملک کے ایک بہت بڑے طبقے کا سیاسی رہنما ہو اور ایک بہت بڑی تعداد نے اُسے تبدیلیٴ نظام کے لیے ووٹ دیا ہو۔میاں صاحب فرما رہے ہیں کہ ان کے ساتھ فیئر پلے نہیں ہوا مگر ایک قائد اور رہنما کو تصویر کے دو نہیں تینوں زاویے پیش نظر رکھنا لازم ہے۔ بعض اوقات یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ میاں صاحب وہ سب کچھ نہیں جانتے تھے جو کالموں اور تجزیوں میں روزانہ لکھا جا رہا تھا اور ایک حلقہ میاں صاحب کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں کے بارے میں یہی رائے رکھتا تھا جو ان کا انجام ہوا یا پھر یوں ہوا کہ مشرف کو منظر سے ہٹانے کے جوش میں میاں صاحب ہوش کے ان تقاضوں کو فراموش کر گئے جن کے تحت مشرف کے جاتے ہی میاں صاحب کے ہاتھ میں موجود سارے پتّے ردی ہو جانے تھے۔ن لیگ نے ججوں کی بحالی سے قبل مواخذے پر رضامند ہونے سے پہلے یہ کیوں نہ سوچا کہ مواخذہ تو ن لیگ کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے اور مواخذے کی بنا پیپلز پارٹی کو صدارت مل سکتی ہے نہ ہی اس کا وزیراعظم با اختیار ہو سکتا ہے لہٰذا وہی وہ فیصلہ کُن وقت تھا جب میاں صاحب معاملہ طے کرتے وقت اپنے موقف کا پلڑا جھکا سکتے تھے مگر میاں صاحب بقول ن لیگ کے زرداری صاحب کی ایک تحریر پر ہی اکتفا کرگئے۔نتیجہ یہ ہوا کہ لاکھوں عوام کا میاں صاحب پر کیا ہوا اعتماد رائیگاں گیاجنہوں نے ججوں کی بحالی اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کے لیے میاں صاحب کو ووٹ دیا تھا۔میاں صاحب کا موقف درست تھا مگر اس کے باوجود مذاکرات کی میز پر انہیں مات ہوئی…اب کسے رہنما کرے کوئی۔دوش میاں صاحب کو اس بات کا ضرور دیا جائے گا کہ انہوں نے موقع پا کر بھی نظام کو ایک موثر ضرب لگانے کے لیے عوام سے ملی ہوئی قوت سے فائدہ نہ اٹھایا۔جب تک مشرف موجود رہتے زرداری کی پوزیشن میاں صاحب کی نسبت بہت زیادہ مختلف ہر گز نہ ہو سکتی کہ ایم کیو ایم اور ق لیگ بہر صورت مشرف کے حلیف تھے۔ میاں صاحب کے لین دین کی قوت بھی صرف مشرف کی موجودگی تک ہی تھی کہ اب یہ دونوں قوتیں بھی لا محالہ پی پی کے کیمپ میں جانی ہیں مگر میاں صاحب نرے مواخذے پر آمادہ ہو کر خالی ہاتھ رہ گئے۔ایک سو کے قریب قومی اسمبلی کی نشستوں کے ساتھ اتنی کمزور سودے بازی کو کیا کہا جا سکتا ہے۔ یوں ہے کہ اب ہمارے پیشِ نظر وہی نظام ہے جس کی تعمیر میں جبر، مکر اور استحصال کی خرابیاں مضمر ہیں۔ یہ نظام اس حد تک قوی ہے کہ بے نظیر کی شہادت، انتخابات کے نتائج اور مشرف کی رخصت کو کسی بلیک ہول کی طرح بڑی ہی آسانی سے نگل گیا اور اپنی تمام تر توانائیوں سمیت خم ٹھونکے موجود ہے۔ اب تھوڑا سا پیچھے مڑ کر دیکھیں جب بلوچستان میں فوج کشی کا آغاز ہوا تھا۔ سرحد میں آپریشن کا واویلا تھا۔ صدر کے پاس اٹھاون ٹو بی کا اختیار تھا۔پارلیمنٹ کی بے اختیاری کا ہر طرف چرچا تھا۔وزیراعظم اپنے اختیارات میں ایک دائرے سے باہر نکلنے پر قادر نہیں تھا۔ ججوں کی معزولی پر مشرف کو ہر طرف سے لعن طعن کا سامنا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے جان چھڑانے کا مطالبہ زوروں پر تھا۔وکلاء احتجاجاً سڑکوں پر تھے۔مہنگائی کا بے قابو جن معیشت پر حاوی ہو کر عوام کو بے حال کر چکا تھا۔خودکش دھماکے آئے دن بے گناہوں کو خون میں نہلاتے تھے۔سرحد پار سے ہونے والے حملوں کے سبب ہماری خود مختاری اور سرحدوں کا تقدس ایک مذاق بنتا جا رہا تھا۔حکومت اپنے ہی لوگوں کو دہشت گرد ثابت کرتے نہیں تھکتی تھی۔مصلحت اور بے حمیتی کے درمیان باریک فرق کی سیاست دانوں کی جانب سے نشاندہی کروائی جاتی تھی۔آمر کو جمہوری اصول پڑھانے میں ہر سیاست دان اور سیاسی جماعت پیش پیش تھی۔حکمراں ججوں کو متنازع بنانے کی باقاعدہ مہم جاری رکھے ہوئے تھے اور اس کے لئے دامے درمے کوششیں حکومت کی جانب سے اور قدمے سخنے حکومت کے خوشہ چینوں کی جانب سے ہوتی تھیں۔کسی بھی قیمت پر اقتدار کی بقا اورآئندہ کے لئے اس کا حصول حکومت کے تمام تر اقدامات کا رہنما اصول تھا ۔ اب آج پر نظر ڈالیں!آج مندرجہ بالا مسائل میں سے کون سے ہیں جو حل ہوئے، حل ہونے کے قریب ہیں یا مستقبل قریب میں ان کے حل ہونے کے آثار نظر آتے ہوں۔سرحد میں آپریشن اس شدت سے مشرف دور میں کبھی نہیں ہوا تھا کہ لاکھوں لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر مہاجر بننے پر مجبور ہوئے ہوں۔ ججوں کی بحالی پر حکومت صاف جواب دے چکی ہے اور یہ تحریک ازسرِنو شروع کی جا رہی ہے۔ ججوں کو پہلے کی طرح متنازع بنانے کی ایک بھرپور مہم چلائی جا رہی ہے اور ان کی کردار کُشی کی جا رہی ہے۔حکومتی جماعت سے جمہوری اصولوں کی پاسداری کے لئے اپیلیں کی جا رہی ہیں۔ صدارتی انتخابات کو ہی متنازع بنا دیا گیا ہے۔وزیراعظم کے اختیارات سب کو معلوم ہیں۔ حکومتی جماعت صدارت کے لئے اپنے امیدوار کا اعلان تو کر چکی ہے مگر اٹھاون ٹو بی کے خاتمے کا کوئی ذکر نہیں ہو رہا۔مصلحت کوشی تلے سب کچھ ہی قربان کیا جا رہا ہے۔ بقیہ مسائل کا حال بھی روزمرہ بلکہ صبح شام کی خبروں سے عیاں ہے۔الغرض ہر وہ کام جو" وہاں" حرام تھا جمہوریت کے نام پر"یہاں"حلال اور طیب ہے۔ اب اگر کوئی کہہ دے کہ مشرف کے دور حکومت کی ہی کتاب کا نیا ایڈیشن،جس کی جلد بڑی دیدہ زیب ،طباعت معیاری سے بھی زیادہ پیاری ہے جمہوریت کے نام سے مارکیٹ کی گئی ہے مگر اس کی قیمت کہیں زیادہ ہوشربا ہے تو اس کا اقرار کرتے ہی بنے گی۔گزشتہ اور موجودہ طرزِ حکومت کا موازنہ کرتا کوئی منچلا اگر"زندہ ہے مشرف زندہ ہے کا نعرہ لگا دے تو اُس کو بجز طاقت کسی بھی دلیل سے روکنا ممکن نہ ہوگا۔