• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر مشرف کی رخصتی لیکن امریکی پالیسیوں کا تسلسل,,,,آج کی دنیا…اشتیاق بیگ

صدر مشرف کی صدارت کے عہدے سے مستعفی ہونے کی تقریر جاری تھی میں اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی صدر مشرف کی تقریر سننے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر عافیہ اور ان کے تین گمشدہ بچوں کی بازیابی کے لئے یادداشت تیار کررہے تھے جو ہم نے دوسرے دن افغان قونصل جنرل سے ملاقات میں پیش کرنی تھی ۔ صدر مشرف کا چہرہ اترا ہوا تھا ۔ان کے چہرے پر دکھ اور غم کے اثرات تھے۔ اقتدار چھوڑنے ، قصر صدارت اور پروٹوکول سے محرومی کا دکھ اور کرب ان کے چہرے پر عیاں تھا۔ جونہی صدرمشرف نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا میں نے ڈاکٹر فوزیہ کو مبارکباد دی کہ جامعہ حفصہ کی معصوم بچیوں کی شہادت اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی چیخیں رنگ لائیں اور آمر کو اپنے انجام سے دوچار ہونا پڑا ۔ڈاکٹر فوزیہ نے کہا کہ اشتیاق صاحب، صدر مشرف کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ امریکہ نواز پالیسیوں کا تسلسل جاری رہے گا۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا مشرف کے جانے کے بعد ان کی بہن ان کو مل جائے گی؟ کیا اس کے معصوم اور بے گناہ بچے بازیاب ہوجائیں گے؟ ڈاکٹر فوزیہ کے سوالوں کا میں کوئی جواب نہ دے سکا۔ انسان کو کسی وقت بھی اگر اپنی غلطی کا احساس ہوجائے تو وہ اللہ سے معافی مانگ سکتا ہے مگر صدر مشرف نے یہ موقع بھی کھودیا ۔ جانے سے قبل اگر اپنی غلطیوں کا اقرار اور قوم سے اس کی معافی مانگتے تو شاید ان کے گناہوں کا بوجھ کچھ کم ہوجاتا۔ قوم سے اپنی آخری تقریر میں جامعہ حفصہ کی بچیوں پر فاسفورس بم گرانے ، قومی ہیرو ڈاکٹر عبد القدیر کو ایک مجرم کے طور پر پیش کرکے ان کی تذلیل کرنے، سیکڑوں افراد اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ کے حوالے کئے جانے، جیسے اقدامات پر قوم اور ان کے اہلِ خانہ سے معافی مانگنے کا یہ موقع بھی انہوں نے کھودیا اور اپنی آخری نشری تقریر میں جامعہ حفصہ کے شہدأ اور ڈاکٹر عافیہ کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا ۔ صدر مشرف کے استعفے کے اعلان کے بعد میرے موبائل فون پر کالز اور ایس ایم ایس کے ذریعے مبارکباد کے پیغامات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔لوگ مجھے مبارکباد دے رہے تھے کہ اشتیاق صاحب صدر مشرف کے مستعفی ہونے میں آپ کا بھی کردار ہے آپ نے ایک آمر کے ظالمانہ ،غیر آئینی و غیر قانونی فیصلوں کے متعلق عوام میں اپنے کالموں کے ذریعے وسیع بیداری پیدا کی۔ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کی۔ حقیقت یہ ہے کہ صدر مشرف نے جب ڈاکٹر قدیر سے ٹی وی پر جبراً بیان دلواکر انہیں نظر بند کیا، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو معزول کیا، جامعہ حفصہ کی بچیوں کو شہید کرنے کا حکم دیا اور دختر پاکستان ڈاکٹر عافیہ کو امریکی درندوں کے حوالے کیا تو میں اس ظلم اور ناانصافی کے خلاف خاموش نہ رہ سکا اور اپنے قلم کے ذریعے ان مظالم کے خلاف آواز بلند کی۔ یہ آواز میرے دل اور ضمیر کی آواز تھی جسے میں دبا نہ سکا ۔ میں چونکہ مراکش کا اعزازی قونصل جنرل بھی ہوں اس لئے مشرف حکومت نے اس حوالے سے مجھ پر ہر طرح سے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی مگر میں ہمیشہ ملک اور قوم کے مفاد میں جو بہتر محسوس کرتا وہ لکھتا رہا اور الحمدللہ قارئین کی ایک بڑی تعداد میری حوصلہ افزائی کرتی رہی۔ اس طرح میں مشرف کی رخصتی کا کریڈٹ میڈیا کو دیتا ہوں۔
ساؤتھ افریقہ میں جب نسلی امتیاز کا خاتمہ ہوا تو27سال کے بعد نیلسن منڈیلا کو سفید فام نسل پرست انتظامیہ کی قید سے رہائی ملی اور ان کی پارٹی افریقن نیشنل کانگریس اقتدار میں آئی اورنیلسن منڈیلا ساؤتھ افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوئے صدارت کا حلف اٹھاتے وقت انہوں نے یہ کہہ کر دنیاکو حیران کردیا کہ میرے اور میرے سیاہ فام لوگوں کے ساتھ جو زیادتیاں سفید فام انتظامیہ نے کیں میں ان کو معاف کرتا ہوں اور میرے دل میں ان سفید فاموں کے لئے کوئی انتقامی جذبہ نہیں۔نیلسن منڈیلا جتنا عرصہ صدارت کے عہدے پر فائز رہے انہوں نے سفید فام انتظامیہ کے لوگوں کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی۔اپنے دور صدارت میں وہ اس جیل کے دورے پر گئے جہاں انہوں نے اپنی جوانی کے27 سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے گزارے۔ وہاں ان کی ملاقات اس سفید فام جیلر سے بھی ہوئی جس نے ان پر قید کے دوران بہت مظالم ڈھائے تھے۔منڈیلا نے اس جیلر کو گلے لگایا اور اس کا حال پوچھا جب انہیں یہ پتہ چلا کہ اس جیلر کی بیوی سرطان کے مرض میں مبتلا ہے تو اس کا اپنے خرچے پر علاج کروانے کا حکم جاری کیا۔ نواز شریف صاحب جب 7سال جبری جلا وطنی گزارنے کے بعد وطن واپس آئے اور انتخابات میں ان کی پارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی تو سمجھا جارہا تھا کہ شاید وہ بھی نیلسن منڈیلا جیسا کردار ادا کریں گے مگر افسوس کہ اللہ تعالیٰ یہ صلاحیتیں ہر ایک کو نہیں دیتا ۔انتخابات میں کامیابی کے بعد ان کی پوری کوشش تھی کہ کسی طرح وہ مشرف سے اپنے ساتھ ہونے والی زیاتیوں کا حساب چکتا کریں واضح رہے کہ نواز شریف اکثر اپنے دوستوں سے ان واقعات کا ذکر کرتے تھے جن میں ان کے ساتھ جیل میں عادی مجرموں جیسا سلوک کرنا ، دوران سفر طیارے میں ان کو ہتھکڑیاں پہنانا ،ان کی لاہور کی رہائش گاہ کو بے گھر لوگوں کی رہائش گاہ میں تبدیل کرنا ، انہیں طیارے میں ڈال کر دوبارہ سعودی عرب بھیجنا اور اپنے والد کے جنازے میں شریک نہ ہونے کا غم ان کو ہمیشہ رہے گا ۔معزول ججوں اور چیف جسٹس کی بحالی کے پیچھے بھی شاید یہی جذبہ کارفرماتھا انہیں یہ اندازہ تھا کہ چیف جسٹس اور معزول جج بحال ہونے کے بعد نہ صرف سب سے پہلے مشرف کو چلتا کریں گے بلکہ ان کو آئین توڑنے پر بغاوت اور دیگر مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ آصف علی زرداری کو نواز شریف کی اس کمزوری کا اندازہ تھااسی لئے جب آصف علی زرداری نے معزول ججوں کی بحالی سے قبل انہیں صد ر کے مواخذے کی تجویز پیش کی تو نوازشریف مشرف سے ذاتی عناد کی بناء پر اس پیشکش کو رد نہ کرسکے اور صدر کے مواخذے کے لئے فوراً راضی ہوگئے ۔ آصف علی زرداری صدر مشرف کو پی پی پی کی حکومت کے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے تھے انہیں اندازہ تھا کہ صدر مشرف کسی وقت بھی ان کی حکومت کے خلاف 58ٹو بی کا استعمال کرسکتے ہیں اس طرح صدر مشرف کے استعفے سے انہیں دہرا فائدہ حاصل ہوا مشرف کے استعفے کے بعد اسمبلیوں کے تحلیل ہونے کا خطرہ ختم ہوگیا اور دوسری طرف ان کے صدر بننے کی راہ ہموار ہوگئی اور معزول ججوں کی بحالی کا معاملہ کھٹائی میں پڑگیا۔ مولانا فضل الرحمن کا آصف علی زرداری سے منسوب یہ بیان کہ صدر مشرف کے استعفے کے لئے بعض قوتوں نے ان کی مدد کی تھی اور وہ قوتیں ججوں کی بحالی نہیں چاہتیں، بڑی اہمیت کا حامل ہے۔میں اپنے گزشتہ کالموں میں ایک سے زیادہ بار یہ تحریر کرچکا ہوں کہ امریکہ کبھی معزول ججوں کی بحالی نہیں چاہئے گا کیونکہ یہ جج بحالی کے فوراً بعد سیکڑوں لاپتہ افراد کا معاملہ اُٹھائیں گے جن میں سے بیشتر یا تو گوانتا ناموبے جیل میں موت سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں یا اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ صدر مشرف سے ان کے ایک دوست نے جب یہ سوال کیا کہ اگر وہ استعفیٰ دینے سے قبل معزول ججوں کو بحال کردیتے تو یہ ججز موجودہ حکومت کے لئے پریشانی کا باعث بنتے صدر مشرف نے ہنس کر جواب دیا کہ موجودہ حکومت کبھی ججوں کو بحال نہیں کرے گی اور میں یہ ایک ایسا مسئلہ چھوڑ کر جا رہا ہوں جس پر دونوں پارٹیاں آپس میں لڑتی رہیں گی ۔ اس کالم کی اشاعت تک آصف زرداری صدارت کے لئے اپنے کاغذاتِ نامزدگی داخل کرچکے ہوں گے اور ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر جلد صدارت کے منصب کو حاصل کرلیں گے ۔اس طرح وہ تمام اختیارات جو صدر مشرف نے اپنے لئے مخصوص کیئے تھے اب ان تمام اختیارات کے ساتھ آصف علی زرداری پاکستان کی تاریخ کے سب سے بااختیار سویلین صدر ہوں گے۔اس طرح آصف زرداری کا یہ قول کہ بہت جلد ایوان صدر جئے بھٹو کے نعروں سے گونج رہا ہوگا صحیح ثابت ہوجائے گا۔ آصف زرداری اپنی صدارت کا حلف اگر موجودہ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر سے لیتے ہیں تو بعد میں ان کو ہٹا کر جسٹس افتخار چوہدری کو ان کی جگہ پر لانا آئینی و قانونی طور پرآسان نہ ہوگا۔ حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ "پہلوان وہ نہیں جو مد مقابل کو پچھاڑ دے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے پر قابو پالے"۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ نواز شریف مشرف کے ان پر کی گئی زیادتیوں پر اپنے غصے پر قابو پاتے اور ذاتی انا کا مسئلہ نہ بناتے ہوئے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرکے مشرف کے مواخذے سے پہلے ججوں کی بحالی کو ترجیح دیتے ۔ نواز شریف کا اب یہ کہنا کہ آصف زرداری نے ان کے ساتھ وعدہ خلافی کی ہے باعث حیرت نہیں کیونکہ اس سے پہلے صدر مشرف قوم سے وردی اتارنے کے وعدے سے انحراف کرچکے ہیں۔پاکستانی سیاست میں وعدہ خلافی کو کامیاب سیاسی چال سمجھا جاتا ہے۔




تازہ ترین