• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند ماہ قبل بلوچستان کے ایک باخبر وزیر اور وہاں کے سیکرٹری داخلہ سے تفصیلی تبادلہ خیال کا موقع ملا تو ان حضرات نے بڑی دل خوش کن خبریں سنائیں اور بتایا کہ کوئٹہ میں دہشت گردی اب قصہ پارینہ بن چکی ہے ۔ مذہبی اور لسانی ہر قسم کی دہشت گردی کا تقریباً قلع قمع کر دیا گیا ہے ۔ بلوچستان سے جو تجارت پیشہ اور کاروباری شخصیات ہجرت کر گئی تھیں اب تیزی سے واپس آ رہی ہیں۔ ان خبروں سے ایک گونا مسرت اور اطمینان تو ہوا مگر وہاں دہشت گردی کی اکا دکا وارداتوں کی خبروں سے نہاں خانہ ٔ دل میں اندیشہ ہائے دورد راز پیدا ہوتے رہے دل دھڑکتا رہا اور طرح طرح کے وسوسے سر اٹھاتے رہے ۔ اسی دوران 8اگست کو کوئٹہ کے سول اسپتال میں دہشت گردی کا ایک انتہائی خوفناک اور افسوسناک واقعہ ہوا ۔ یہاں دہشت گردوں نے بم دھماکے بھی کئے اور اندھا دھند فائرنگ بھی کی ۔ ذرا سی دیر میں وہاں ہر طرف انسانی لاشے تڑپتے اور دم توڑتے دکھائی دیئے۔ اس سانحہ میں 74افراد نے شہادت پائی جن کی اکثریت کوئٹہ کے ممتاز وکلاء پر مشتمل تھی جو ایک روز پہلے دہشت گردی کی ایک واردات میں ہلاک کر دیئے گئے اپنے ساتھی کی میت لینے ہسپتال گئے ہوئے تھے ۔
ا س وقت بھی وزیر اعظم او ر وزیر اعلیٰ بلوچستان نے مستقبل کے حفاظتی اقدامات کے بارے میں بڑے بلند بانگ دعوے کئے مگر اس کے بعد وزیر اعظم کو پاناما لیکس کی لٹکتی ہوئی تلوار سے فرصت ملتی تو وہ پلٹ کر کوئٹہ کی خبر لیتے اور جہاں تک وزیر اعلیٰ سمیت صوبائی حکمرانوں کا تعلق ہے وہ اپنے اپنے سیاسی کاموں میں مگن ہوگئے ۔ اب کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ کالج پر دہشت گردوں نے ایک خوفناک حملہ کیا ۔چار پانچ خودکش بمبار کالج پر عقب سے حملہ آور ہوئے انہوں نے زیر تربیت کیڈیٹس کو یرغمال بنا لیا اور پھر فائرنگ اور خودکش حملے کرکے 61جوانوں کو شہید کر دیا۔ زخمیوں کی تعداد 124ہے ۔ آرمی چیف نے کلیئرنس آپریشن میں شہید ہونے والے کیپٹن روح اللہ کو تمغہ جرات اور شدید زخمی ہونے والے صوبیدار محمد علی کو تمغہ بسالت دیا۔گزشتہ روز کوئٹہ سے بعض ٹیلی وژن چینلز پر پولیس کالج کی چار دیوار کی جو فوٹیج دکھائی گئی اسے دیکھ کر آنکھوں کو یقین نہیں آتا کہ یہ کوئٹہ جیسے حساس علاقے کے ایک پولیس کالج کی بائونڈری وال ہے یا یہ کسی دور دراز کے دیہاتی علاقے کے مویشیوں کے باڑے کی دیوار ہے ۔ دیوار کی کل اونچائی صرف 5 فٹ ہے اسی فوٹیج میں آئی جی بلوچستان کو اسی کالج کی ایک گزشتہ تقریب میں خطاب کرتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے جس میں موصوف بڑی درد مندی کے ساتھ حکمرانوں کو متوجہ کرکے یہ گزارش کر رہے ہیں کہ براہ کرم اس چار دیواری کو اونچا کیا جائے اور اس پر خاردار تار لگائے جائیں ۔اس وقت تقریب میں موجود حکمران اثبات میں سر ہلاتے رہے مگر معاملہ رات گئی بات گئی والا ہو گیا۔یقین نہیں آتا کہ ہائی الرٹ کی وارننگ اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی طرف سے دہشت گردوں کے شہر میں داخل ہونے کی اطلاعات کے باوجود اتنی غفلت سے کیوں کام لیا گیا۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان کی منطق بڑی نرالی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہمیں وارننگ ملی تھی کہ شہر میں دہشت گرد اور خود کش بمبار داخل ہو چکے ہیں اس لئے ہم نے شہر میں حفاظتی انتظامات کر لئے تھے ۔ جب دہشت گردوں کو شہر کے اندر دہشت گردی کا موقع نہ ملا تو انہوں نے شہر سے باہر نکل کر پولیس کالج پر حملہ کر دیا ۔اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے گویا پولیس کالج کوئٹہ شہر یا صوبہ بلوچستان کا حصہ نہ تھا۔ یہ سن کر ہمیں ایک دوست ملک کا واقعہ یاد آیا جہاں ایک بار ہمیں ہائی الرٹ کا حکم دیا گیا۔ وہاں ایک ادارے کو نشانہ بنانے کی انٹیلی جنس رپورٹ تھی اس ادارے کے مین گیٹ پر زبردست چیکنگ ہو رہی تھی بعد میں جب عقب سے ادارے پر دہشت گردی کا واقعہ ہو گیا تو ذمہ داروں نے وزیر اعلیٰ بلوچستان جیسی منطق کا سہارا لیا کہ ہماری اطلاعات کے مطابق دہشت گردوں نے مین گیٹ پر حملہ کرنا تھا اگر آخر میں انہوں نے اپنا ارادہ بدل لیا تو ہم بے بس تھے ۔ پنجاب ہو، صوبہ خیبر پختونخوا ہو یا کوئی اور جگہ پولیس مراکز تو ہمیشہ دہشت گردوں کے نشانے پر رہے ہیں ۔ مقام حیرت ہے ہائی الرٹ وارننگ کے باوجود ایک انتہائی حساس مقام میں معمول کی سیکورٹی کا بھی نہ ہونا ہماری طبعی غفلت کا ادنیٰ نمونہ ہے۔
اگرچہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو شہادت کی صورت میں ایک ایسا نظریہ دیا ہے کہ ہمارے جوان ہی نہیں عوام بھی موت سے نہیں ڈرتے مگر ذرا ان مائوں اور بہنوں کے غم کا اندازہ لگا ئیے جن کے پیارے یکایک موت کی وادی میں چلے جاتے ہیں تو ان کے دل پر کیا گزرتی ہو گی۔ان جوانوں کے حوالے سے مائوں کی پلکوں میں کیسے کیسے خواب آویزاں ہوں گے اور انہوں کے دلوں میں کیسے کیسے ارمان ہوں گے جن کا ظالم خون کر دیتے ہیں۔ ان جوانوں اور شہیدوں کی مائیں جب جوان لاشوں سے لپٹ کے ر وتی ہوں گی تو شدت غم سے عرش بھی کانپتا ہو گا ۔ ممتاز شاعر خالد احمد نے ایسے ہی مواقع کے لئے کہا تھا
اسی لئے تو وہ بیٹوں کو مائیں دیتا ہے
کوئی تو روئے لپٹ کر جوان لاشوں سے
ہمارے کہنہ عمر سیاست دانوں کی سنجیدگی اور بالغ نظری کا ایک شاہکار بھی ملاحظہ کیجئے ۔جب سارے ملک میں سوگ منایا جا رہا ہے،قومی پرچم سرنگوں ہےجوانوں کے کوئٹہ میں جنازے ادا کئے جا رہے تھے اور ان کی میتوں کی روانگی سے ہر آنکھ اشکبار تھی اس وقت وزیر دفاع خواجہ آصف اپنے ٹویٹ پیغام میں فرماتے ہیں ’’بھارت لائن آف کنٹرول پر حملے کر رہا ہے کوئٹہ پشاور پر افغانستان سے حملے ہو رہے ہیں ۔ عمران خان اسلام آباد پر حملے کی تیاری کر رہے ہیں کیا یہ سب محض اتفاق ہے؟‘‘ حکمران اگر سیکھ سکتے ہیں تو اپنی تاریخ سے اتنا سبق تو سیکھ لیں کہ جب سیاست دان ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے اور الزام تراشی کرتے ہیں تو نتیجہ کیا نکلتا ہے یہی نا!کہ وہ ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں اور زمام اقتدار کسی اور کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے ۔
حفاظتی انتظامات کو قومی سطح پر ترجیح نمبر ون قرار دیا جائے اور اس کے لئے بے دریغ وسائل مہیا کرنے میںہرگز بخل سے کام نہ لیا جائے تاکہ اب کوئٹہ ہی نہیں کوئی شہر بھی لہو رنگ نہ ہو اور ہماری قومی زندگی کا یہ آخری غم ہو اس کے بعد کوئی اور غم نہ آئے ۔


.
تازہ ترین