• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اپنے جداگانہ کلچر کی وجہ سے خاص شہرت رکھتا ہے۔ قیامِ پاکستان سے قبل یہاں پر آباد قومیں صدیوں سے اپنے منفرد کلچر کو اوڑھے زندگی کے اصل سے روشناسی کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ وہ مختلف زبانیں بولتی تھیں، ان کی اقدار، رسم و رواج اور زندگی کرنے کا انداز الگ الگ تھا پھر ان سب نے مل کر پاکستان کی چھتری تلے آنے کا فیصلہ کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد ان کا طرزِ زندگی اور ثقافت ترقی کرتی رہی لیکن ان کے درمیان ایک سانجھی روایت بھی پروان چڑھنے لگی۔ پاکستانیت نے ایک گلدان میں مختلف ثقافتوں کے خوش رنگ پھولوں کو سما کر ان کی خوب صورتی کو اور نمایاں کر دیا کیوں کہ پاکستان کے پرچم تلے جب یہ مختلف رنگ یکجا ہوئے تو ان کا حسن و جمال اور نکھر کر سامنے آیا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ زمین سے محبت کے تاثر کو اجاگر کیا جاتا، ان کی زبانوں، کلچر اور ثقافتی اقدار کو ترویج کا موقع دیا جاتا، وہ بہترین پنجابی، سندھی، بلوچی اور پشتون بن کر زیادہ محبِ وطن اور مفید شہری بن کر سامنے آتے مگر کچھ مذہبی قوتوں نے ان پر ایک رنگ چڑھانے کے لئے ان کی منفرد پہچان کی نفی کو حب الوطنی سے منسوب کر کے ان کے ہزار سالہ ورثے اور ثقافتی پہچان پر کاری ضرب لگائی۔ مختلف رنگ کے موتیوں کو ایک خوشنما رسی میں پرونے کی بجائے موتیوں کے رنگ غائب کرنے کی پالیسی نے زور پکڑا تو محرومیوں کا دور شروع ہوا۔
زبان، اقدار اور کلچر انسان کے وجود میں سانس کی طرح رچے بسے ہوتے ہیں۔ وہ جس زمین پر جنم لیتا ہے اس کے لب و لہجے، ماحول، درختوں، پرندوں، رسم و رواج اور زمین سے ایک خاص مطابقت رکھتا ہے۔ یہ سب کسی نہ کسی طرح اس کے وجود کا حصہ ہوتے ہیں جنہیں جدا کر دینے سے اس کی شخصیت ادھوری رہ جاتی ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے لوگوں کو ان کے ماحول اور مٹی سے جدا کر کے ایک ادھورا پن ان کا نصیب کر دیا گیا۔ درخت کی زندگی زمین سے وابستگی سے مشروط ہے، اسے کاٹ دیا جائے تو وہ سوکھ جاتا ہے۔ مادی طور پر بھلے اس کا وجود نظر آئے مگر اس کی روح فوت ہو جاتی ہے۔ ہمیں بھی زمین سے کاٹ کر زندگی بسر کرنے کی تلقین کی جاتی رہی ہے۔ جب بندہ اپنے قدموں پر کھڑا نہ ہو سکے، اس کا تعلق زمین سے منقطع کر دیا جائے تو وہ اپنی پہچان کے لئے مختلف سہارے تلاش کرتا رہتا ہے۔ اجنبی زبانوں اور کلچر سے وقتی طور پر استفادہ تو کیا جا سکتا ہے مگر اس کے مطابق زندگی کو ڈھالا نہیں جا سکتا۔ مقصد یہ ہے کہ زبان قوم کی علامت اور پہچان کا پرچم ہوتی ہے۔ پنجاب کی بات کریں تو یہاں صوفی شعراء کا کلام زندگی کرنے کا وہ ضابطہ ہے جو انسانیت کے سنہری اصولوں کی عملی توجیہہ ہے۔ صوفیاء نے صرف درس و تبلیغ سے لوگوں کو نیکی کی طرف راغب نہیں کیا بلکہ عملی نمونے سے دلوں پر اعلیٰ اقدار کو یوں رقم کیا کہ ان کے پیروکار محبت کی تجسیم بن کر دنیا کی فلاح کے لئے متحرک ہوئے۔ جب کبھی کسی پرائیویٹ اسکول میں بچوں کی کسی تقریب میں شرکت کا موقع ملا ہمیشہ بچوں کی معصومیت پر تو بہت پیار آیا مگر ان پر ان دیکھا بوجھ بھی محسوس ہوا جو وہ نامانوس زبان کے پس منظر میں ہمارے کلچر سے متناقض ڈرامے، گانے اور ثقافتی سرگرمیوں میں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ واحد ملک ہے جو اپنے بچوں کو اپنے کلچر کی تعلیم دینے کی بجائے دوسرے ملکوں کا ثقافتی غلام بنانے کی ترغیب دے رہا ہے۔ بھلا ہو کمشنر فیصل آباد مومن آغا کا جنہوں نے ڈی پی ایس فیصل آباد میں پنجابی زبان و ثقافت کے عظیم الشان پروگرام کا انعقاد کر کے نہ صرف والدین اور حاضرین بلکہ بچوں کے دل جیت لئے۔ بھنگڑا ڈالتے اور اپنے مزاج سے مطابقت رکھنے والی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہوئے بچوں کا جوش و خروش قابل دید تھا۔ ہر طرف ایک اپنائیت کا ماحول تھا۔ کمپیئرنگ کرنے والوں نے کمال کیا۔ پرنسپل صاحب نہ صرف نصابی حوالے سے بچوں کی تربیت کے لئے کوشاں ہیں بلکہ غیر نصابی سرگرمیوں میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد علی وائس چانسلر جی سی یو نے کیا خوب بات کی کہ مادری زبان کی ترویج سے فرقہ واریت کے عناصر کو کم کیا جا سکتا ہے۔ مادری زبان کی تعلیم کا مطلب صوفیاء کی تعلیمات سے ان کا رابطہ استوار کرنا ہے۔ پنجاب میں فرقہ واریت کی وبا کا سب سے بڑا عنصر ہی یہی ہے کہ ہم نے صوفیاء کی بجائے دیگر مکتبۂ فکر کو اپنا رہنما کر لیا ہے جو اپنے مفادات کی خاطر انسانوں کو جوڑنے کی بجائے تقسیم کرنے کی جستجو میں رہتے ہیں۔ مومن آغا نے اپنے ڈویژن میں تعلیم کے ذریعے کلچر اور کلچر کے ذریعے تعلیم کو عام کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کا آغاز کیا ہے۔ بچپن سے بچوں کو ماں بولی کے احترام اور انسانیت سے محبت کا پیغام دیا جائے اور اپنے کلچر سے ان کی جڑت مضبوط کی جائے تو ہم ایک کلچرڈ معاشرے کی طرف بڑھیں گے۔ بچوں کو اظہار کرنے دیں اوراپنی ذات کا بہترین اظہار ماں بولی میں ہی ہو سکتا ہے۔ امجد اسلام امجد کا یہ قول اپنا لیا جائے کہ اساتذہ اور والدین ہر مہینے بچے کو ایک کتاب پڑھنے کی ترغیب دیں تو اس کی شخصیت میں نمایاں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ منو بھائی نے ماں بولی کو عورت کے احترام سے مشروط کرتے ہوئے کہا کہ صوفی ہمیشہ عورت کی تعظیم کرتا ہے۔ ہم ملک میں جمہوریت چاہتے ہیں مگر ہم نے گھروں میں جمہوری نہیں آمرانہ نظام نافذ کر رکھا ہے۔ جو معاشرہ عورت کی عزت نہیں کرتا وہ کبھی ترقی نہیں کرتا۔
فیصل آباد نے عملی کام سے آغاز کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ پنجاب جاگ گیا ہے اور اپنے صوفیوں کی تعلیمات کو سر کا تاج بنانے کی طرف چل پڑا ہے۔ شکریہ کمشنر فیصل آباد آباد رہیے۔ یقین کیجئے ماں بولی کے حوالے سے آپ کا یہ عمل بارش کا وہ پہلا قطرہ ہے جو اپنے عقب میں خوشحالی کی فضا لے کر آنے والا ہے۔


.
تازہ ترین