hassanhansi@hotmail.com
یہ جو اقوام متحدہ ہے، چند طاقتور ’’قوموں‘‘ کی کنیز ہے اور اسے ایسا ہی ہونا بھی چاہئے کہ قدرت کے قوانین کا اصل عنوان ہی ’’طاقت ‘‘ ہے ۔ قدرت بھی صرف اس لئے قدرت ہے کہ قدرت رکھتی ہے ۔ ہابیل قابیل سے لیکر اسرائیل تک طاقت نے بیشمار بہروپ بدلے ۔ کبھی جسمانی طاقت ہی حرف آخر تھی جس کے عظیم ترین مظاہر کو عظیم ترین فاتحین قرار دیا جاتا ہے .....پھر بتدریج عقل نے مسل کو ری پلیس کر دیا ۔آج کی ’’مہذب‘‘ اور ’’ترقی یافتہ ‘‘دنیا پر غور فرمائیے کہ یہ کتنی دلچسپ اور عجیب ہے ۔ آج کوئی آدمی اپنی جسمانی طاقت کے بل بوتے پر کسی دوسرے سے سو پچاس ڈالر بھی چھین لے تو ڈاکو اور مجرم کہلائے گا ، قابو آ جائے تو سزا بھی پائے گا جبکہ یہی ڈاکو اگر جسمانی طاقت کی بجائے ذہنی طاقت استعمال کرکے دن دیہاڑے سرعام پوری دنیا سے اربوں کھربوں ڈالر ’’چھین‘‘ لے تو اسے ’’جینیئس‘‘.....’’پروفیشنل‘‘...’’کرافٹی‘‘ اور جانے کیسے کیسے باعزت ناموں سے یاد کیا جائے گا حالانکہ طاقت تو طاقت ہی ہے ، جسمانی ہو یا ذہنی، فکری اور تخلیقی یا تکنیکی، مختصراً یہ کہ جن قوتوں قوموں نے ’’لیگ آف نیشنز‘‘ کے بعد ’’یونائیٹڈ نشنز‘‘ کو جنم دیا، یہ جنم جلی بنیادی طور پر انہی کی کنیز ہے جبکہ ہم جیسی قوموں کیلئے اقوام متحدہ اک غیر ذمہ دار اور نااہل نرس کے سوا اور کچھ بھی نہیں ورنہ کیا وزیراعظم نواز شریف کی تقریر کے جواب میں دھرم پورہ، لاہور کی پیدائشی شسما سوراج نواز شریف کا 4نکاتی امن فارمولا اس طرح مسترد کر سکتی تھی ؟ خدا جانے ہم جیسی ’’اقوام عالم ‘‘ کو یہ بات کب سمجھ آئے گی کہ عالمی ضمیر نام کی کوئی بھی پراڈکٹ اس گلوبل سپر سٹور میں کسی بھی قیمت پر دستیاب نہیں ۔’’محبت فاتح عالم ‘‘ ٹائپ باتیں شاعری کی حد تک تو ٹھیک ،عملاًیہ دنیا صرف ، صرف اور صرف طاقت کے بل بوتے پر ہی چل رہی ہے کہ زندگی کا دوسرا نام ہی ’’انرجی ‘‘ ہے ....’’انرجی ‘‘ جو ان گنت روپ دھار سکتی ہے ، ’’انرجی ‘‘ جو بیک وقت ’’ہیرو‘‘ بھی ہے اور ’’ولن‘‘ بھی۔ ایٹم بم سے ایٹمی بجلی گھر تک یہی ’’انرجی ‘‘ ہیر بھی ہے، رانجھا بھی، کیدو بھی اور وارث شاہ بھی سو سو باتوں کی ایک بات کہ کچھ بھی کرنے سے پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرو’’یا‘‘ اچھی اچھی تقریریں کرو۔یونائیٹڈ نیشنز سے نکل کر اپنی اوقات یعنی این اے 122میں چلتے ہیں جو صرف ایک سیٹ کا مسئلہ نہیں کہ اگر یہ نشست ن لیگ کے ہاتھ سے نکل گئی تو سمجھ لو لاہور ان کے ہاتھ سے نکل گیا، لاہور نکل گیا تو سمجھو پنجاب ’’ رہا‘‘ ہو گیا اور اگر پنجاب ان کےچنگل سے نکل گیا تو سمجھو پاکستان نجات پا گیا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اگر ن لیگ اپنے مخصوص حربے استعمال نہ کر سکی تو پاکستان تحریک انصاف ن لیگ کو شکست نہیں عبرت ناک شکست سے دوچار کرے گی ۔ صاف، سیدھی، ننگی دھاندلی تو ممکن نہ ہو گی ،ٹیکنیکل ناٹ آئوٹ کے بارے کچھ کہنا میرے لئے ممکن نہیں کہ میں ’’ای ڈے‘‘ کی فنی باریکیوں کے متعلق معمولی سا علم بھی نہیں رکھتا۔ اس معرکہ کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ میرے نزدیک ’’نیک ٹو نیک ‘‘(NECK TO NECK) مقابلہ بھی ن لیگ کیلئے شکست فاش سے کم نہیں کہ ماضی قریب میں اس شہر پر ان کی مکمل مناپلی تھی جس کی دھجیاں اڑ گئی ہیں اور اب لاہور کی گلیوں میں کوئی ’’مرزا یار‘‘ اکیلا نہیں دندنائے گا ۔ ابتدائی رپورٹوں کے مطابق پی ٹی آئی کے اجتماعات ن لیگ سے کہیں زیادہ بھرپور اور بارونق ہیں ۔یہ معرکہ اس بات کا فیصلہ بھی کر دے گا کہ ’’زندہ دلان ‘‘ کتنے زندہ اور دل والے ہیں ۔یہاں اک اور اخباری اطلاع کا ذکر بھی ضروری ہو گا۔ میں نے چند ماہ پہلے پیپلز پارٹی کو ’’مرحومہ مغفورہ‘‘ لکھا جس پر دلچسپ ردعمل دیکھنے کو ملا لیکن اب میرے ’’خدشہ‘‘ کا پہلا مرحلہ منظر عام پر آ گیا ہے اور وہ اس طرح کہ بلدیاتی انتخابات کے حوالہ سے پی ٹی آئی اور ن لیگ کی ’’کھڑکیوں ‘‘ پر تو ٹکٹ کے امیدواروں کا رش ہے بلکہ کھڑکی توڑ قسم کا رش ہے جبکہ پیپلز پارٹی کی ’’کھڑکی‘‘ ویران پڑی ہے اور کوئی سنجیدہ امیدوار اس کے ٹکٹ میں انٹرسٹڈ نہیں ۔ وہ پارٹی جس کیلئے لوگوں نے خود سوزیاں کیں، کوڑے کھائے، پھانسیاں بھگتیں، جیلیں کاٹیں، جلا وطنیاں قبول کیں، خاندان برباد کرلئے .... آج اپنا پاندان اٹھائے پھر رہی ہے اور کوئی مڑ کے دیکھنے کو بھی تیار نہیں اور المیہ کی انتہا دیکھیں کہ ’’گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے ‘‘ بھٹو باغ کے زرداری گل یعنی بلاول کی باتیں سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ اسے اس زمینی حقیقت کا اندازہ تک نہیں کہ زمین اس کے پیروں تلے سے کھسک چکی ہے اور اب یہاں ....’’کوئی نہیں کوئی نہیں آگے گا‘‘پیپلز پارٹی کے چند نیک ناموں میں ایک نام ہے رضا ربانی جن کا میں بیحد احترام کرتا ہوں ۔ چیئرمین سینٹ رضا ربانی کا ایک حالیہ خطاب مجھے مسلسل ہانٹ کر رہا ہے ۔ آپ نے بہت سی ایسی باتیں کہیں جن سے اختلاف ممکن نہیں لیکن ایک بات جو مجھے ہضم نہیں ہوسکی، وہ ہے سیاست دانوں کو سول و ملٹری بیورو کریسی و دیگر کے ساتھ بریکٹ کرنا ، یہ درست ہے کہ کوئی مقدس گائے نہیں ، ہر کرپٹ قابل احتساب ہے اور صرف سیاست دان ہی کرپٹ نہیں ۔عرض صرف اتنی ہے کہ حضور ! اگر سیاست دان کرپٹ اور حددرجہ نااہل نہ ہوں تو سارا کلچر اس بری طرح کرپٹ ہو ہی نہیں سکتا۔ سیاست دان میوزک ڈائریکٹر کی طرح ہوتا ہے جسے پورے آرکسٹرا نے فالو کرنا ہوتا ہے سو (100)بندہ بھی وائلن بجا رہا ہو تو کسی ایک کی جرات نہیں کہ ’’بے سرا‘‘ ہو جائے ۔ دوسری بات یہ کہ سیاست دان کا تو وجود ہی عوام کے ووٹ کی کوکھ میں جنم پاتا ہے ۔ وہ سی ایس ایس کرکے یا پی ایم اے سے فارغ ہو کر نہیں آتا نہ ہی جیو ڈیشری کا امتحان دیکر آتا ہے ۔’’لیڈر‘‘ ہونے کی تہمت بھی صرف سیاست دان پر لگتی ہے اس لئے پلیز ! سیاست دانوں کی کرپشن کو باقیوں کی کرپشن کے ساتھ کنفیوژ نہ کریں کہ ان کی کرپشن ہی دراصل ’’ام کرپشن‘‘ یعنی ہر کرپشن کی ماں ہوتی ہے ۔باقی جو فرمایا سر آنکھوں پر۔